تاریک گوشے ۔۔۔ ڈاکٹر محمد حسن

وہ مر چکا تھا، اس کی ہڈیاں بھی اب تہہ خاک گل سڑ کر برابر ہو چکی تھیں ، ریحانہ بھی اب اسے بھول چکی تھی حالانکہ وہ اس بات کو ماننے کے لیے تیار نہیں تھی۔ برسات کی تنہا تاریک اور پر شور راتوں میں جب کبھی اس نے اپنے دل کی ہوک کا تجزیہ کیا اسے کسی نہ کسی شکل میں محمود ضرور یاد آیا اور وہ رنگین لمحے بھی جو ان دونوں نے ایک ساتھ گزارے تھے۔ وہ تمام دن رات جب وہ وقت اور ماحول کے سارے تصورات ان دونوں کی ذات میں کہیں گھل مل گئے تھے۔ بس فضائے بسیط ایک طویل و عریض خلا کے سوا اور کچھ نہ تھی اور یہ دونوں اپنے سارے ارضی رشتے توڑ کر گویا اسی الگ تھلگ سی دنیا میں پرواز کر رہے تھے۔ محمود مر گیا اور ریحانہ کو کچھ دن تک زندگی اور اس کی رفتار کے ایک دردناک احساس کے علاوہ اور کچھ بھی یاد نہیں رہا اور اب اس زمانے کے زخم بھی مندمل سے ہو گئے تھے۔ ان میں کسک اور ٹیس بھی اب اٹھتے اٹھتے تھک گئی تھی۔ وقت اور واقعات نے اب انھیں ایک دوسرے سے جذباتی حیثیت سے بہت دور کر دیا تھا۔ ریحانہ کو بھی یہ بات معلوم تھی لیکن نہ وہ اس پر یقین کرنے کے لیے تیار تھی اور نہ اس پر عمل کرنے کو۔

اب اس کی زندگی جامد، ساکت اور بے حس و حرکت ہو کر رہ گئی تھی۔ واقعات کے سارے پہلوؤں پر اس نے سنجیدگی سے غور کرنا شروع کر دیا تھا اور اس قدر سنجیدگی سے کہ کبھی کبھی وہ خود ہی اس سے گھبرا اٹھتی تھی اور ادھر ادھر کی باتیں سوچنے لگتی۔ لڑکیوں کو پڑھانے میں اب وہ ایک قسم کی تسکین اور زندگی محسوس کرتی کہ اس کے لیے زندگی کی یہی ایک علامت باقی رہ گئی تھی ورنہ سونا، اٹھنا، کھانا، پینا اور تھکی تھکی بے دلی کی باتوں میں تو پورے اطمینان سے وقت گزارنا بہر حال بہت دشوار تھا۔ اس کی سہیلیاں اور دوست بہت کم تھے اور جو تھے وہ بھی اس سے بہت زیادہ قریب نہ تھے نہ وہ ان کے بارے میں زیادہ جاننے کی خواہش مند تھی اور نہ اس کی یہ خواہش تھی کہ اپنی زندگی کے بارے میں لوگوں کو بتلاتی اور جتلاتی پھرے۔ اسے یہ تماشہ ہمیشہ نہایت بیہودہ اور بچکانا معلوم ہوتا تھا۔ دوستی کا مفہوم صرف اسی قدر تو ہے کہ دو انسان ایک دوسرے کو دیکھیں ان کی فطرتیں اپنی اندرونی ہم آہنگی کی وجہ سے ایک دوسرے کو پسند کریں اور اگر یہ دو انسان اپنی دوئی کو اسی طرح برقرار رکھنا چاہیں تو اس میں قباحت ہی کیا ہے۔ اس کے دوستوں کے لیے یہ بات قابل اطمینان نہیں تھی لیکن وہ اپنے کو دوسری طرح تسکین دیتے تھے انھوں نے اسے دوستی کے لیے صرف اس لیے پسند کیا تھا کہ اس کی مضمحل طبیعت اور تھکے تھکے سے چہرے کے نقوش زندگی کے شور، ہنگامے اور شوخی کبھی کبھی بہت ہی بھلے لگتے تھے جو ہوسٹل کی ساری لڑکیاں شور مچاتیں تو وہ اپنے برآمدے میں نکل آتی اور بڑی پر سکون اور با وقار آواز میں انھیں خاموش رہنے کی تاکید کرتی اور اپنے کمرے میں چلی جاتی۔ وہ جہاں کبھی کبھی اپنی اس تھکن سے گھبراتی تھی، وہاں کبھی زندگی کی اس باقاعدگی سے خوش بھی ہوتی تھی اور اس میزان کے برابر رہنے پر خاموش ہو جاتی تھی جو کچھ ہو رہا ہے ٹھیک ہی ہو رہا ہے اور ٹھیک نہیں ہو رہا ہے تو بھی چلنے دو یہی دنیا کا دستور ہے اور ہم اور آپ اسے ماننے کے لیے مجبور ہیں اسے بدل دینے سے بھی کیا فائدہ؟

وقت یوں ہی گزرتا رہا، اب اسے محمود کی یاد کبھی نہیں آتی تھی اور اگر خود محمود بھی اب قبر سے نکل آتا تو وہ اس کا خیر مقدم اسی سرد مہری اور خاموشی سے کرتی، جذبات کو اس نے جس کامیابی سے راکھ میں چھپا دیا تھا اب اسی کامیابی سے ان کا باہر آنا ممکن نہیں رہا تھا۔

ایک سہ پہر کو بہت تھکی ہوئی کالج سے لوٹی، آج اسٹاف کا کوئی اہم جلسہ تھا، اس طویل جلسے میں شرکت اور کام کی زیادتی سے بہت تھک گئی تھی، گرمی کا زمانہ تھا وہ لوٹ آئی تو برآمدے میں صوفے پر نیم دراز ہو کر اخبار دیکھتی رہی۔ اخبار سے اسے کبھی دلچسپی نہیں رہی بلکہ کبھی کبھی وہ حیرت کرتی تھی کہ آخر ان حکومتوں اور ان کے چلانے والوں میں اتنی تازگی اور زندگی کہاں سے آتی ہے کہ وہ لمبی لمبی جنگیں چھیڑتے ہیں اور نہیں تھکتے۔ پھر صلح کر لیتے ہیں پھر لڑ لیتے ہیں لیکن تھکن میں وہ اخبار کی سرخیوں پر کسی قسم کا غور و فکر نہیں کر رہی تھی۔ کئی بار پنکھے کی ہوا سے اس کے بال اڑ اڑ کر اس کے گالوں پر لہرائے لیکن اس خود سپردگی کے عالم میں اس میں اتنی سکت نہ تھی کہ انھیں پھر سے درست کر سکے۔ یوں ہی وقت گزرتا رہا۔

آج ہوسٹل میں ملاقات کا دن تھا۔ ایک جیپ دروازے پر آ کر رکی۔ اس کی آواز سے وہ چونکی اور سنبھل کر بیٹھی سوچ رہی تھی کہ اٹھ کر اندر چلی جائے کہ ایک کپتان نے آتے ہی سلام داغ دیا۔ کپتان صاحب رابعہ سے ملنے آئے تھے۔ رابعہ ہوسٹل میں کافی حسین لڑکی سمجھی جاتی تھی۔ وہ اس کی بڑی بڑی آنکھیں دائیں بائیں پڑی ہوئی لمبی لمبی چوٹیاں اور کھنچے ہوئے ابرو— اور یہ کپتان بھی تو حسین تھا اسے فوراً یہ احساس ہوا جیسے اس نے اسے اس سے پہلے بھی کہیں دیکھا ہے۔ وہی مسکراہٹ ، وہی ترشی ہوئی مونچھیں ، وہی نشیلی آنکھیں ، وہی توانا بازو، کپتان واقعی حسین تھا۔ اس نے کپتان سے پرچہ لکھنے کو کہا۔ پرچہ اس سے لیا، پڑھا، کپتان ظفر مسعود۔ پھر جاتے جاتے یوں ہی غیر شعوری طور پر اسے وہ پلٹ کر دیکھنے والی تھی کہ اس نے اپنے آپ کو روکا اور ذرا سا ٹھٹھک کر اسٹڈی میں چلی گئی اور اپنی ڈاک دیکھتی رہی۔ اس دن اسے دو ایک مرتبہ رابعہ کا خیال آیا لیکن بات آئی گئی ہو گئی۔

٭

ایک دن اسے پھر کپتان ظفر کا پرچہ ملا۔ وہ رابعہ سے ملنے آیا تھا۔ اس نے چپراسی کو پرچہ دے دیا اور رابعہ کو بلا لانے کے لیے کہا۔ تھوڑی دیر کے بعد رابعہ آئی۔ آج وہ شوخ رنگوں کی ساری اور کانوں کے خوش رنگ آویزوں میں کسی چابک دست اور شوخ رنگ مصور کی تصویر معلوم ہو رہی تھی۔ دروازے پر ٹھٹھکی اور کچھ دیر ساڑی کا پلو مروڑتی رہی۔ اس نے پلٹ کر دیکھا اور اسی رعب اور با وقار آواز میں کہا۔ ’’رابعہ تم آسکتی ہو۔‘‘ اور رابعہ اندر آ گئی اس نے بتایا کہ کپتان ظفر مسعود آج اسے اپنے ساتھ سنیما لے جانا چاہتا تھا اور وہ اجازت مانگنے آئی ہے۔ عام طور پر وہ لڑکیوں پر زیادہ روک ٹوک رکھنے کی قائل نہیں تھی، غالباً اس میں بھی اس کی بے تعلقی اور بے توجہی کے منفی جذبے کو دخل تھا۔ اصول کو نہیں مگر رابعہ کو اس نے پلٹ کر دیکھا پھر خود ہی نہ جانے کس جذبے کے ماتحت کہا ‎:‎ ’’رابعہ بیٹھ جاؤ۔ اچھا ہوا تم آ گئیں۔ مجھے تم سے ایک بات کہنا تھی۔ دیکھو ہفتے میں ملاقات کے کتنے دن ہوتے ہیں۔‘‘

رابعہ نے جواب دیا ’’چار‘‘

’’اور اس ہفتہ کپتان صاحب کتنی مرتبہ تم سے ملنے آ چکے ہیں۔‘‘

رابعہ خاموش رہی۔

اس نے خود ہی جواب دیا ’’میرا خیال ہے یہ ان کا پانچواں پھیرا ہے۔ تم عقل مند لڑکی ہو۔ تم میری اور اپنی دونوں کی ذمہ داریاں سمجھ سکتی ہو۔ میرا خیال ہے کہ تمھارا ان کے ساتھ پکچر جانا مناسب نہیں۔ عجلت کسی چیز میں مناسب نہیں۔ کیا خیال ہے۔‘‘

رابعہ کچھ دیر خاموش رہی ’’لیکن میں ان سے پہلے اپائنٹمنٹ ‎ (‎Appointment‎) ‎ کر چکی تھی۔‘‘

اس نے ذرا تندہی سے کہا۔ ’’تو پھر مجھ سے کیوں پوچھنے آئی تھیں۔‘‘

رابعہ خاموشی سے واپس چلی گئی۔

اس کے بعد مدت تک کپتان صاحب رابعہ سے ملنے نہیں آئے۔

٭

اس زمانے میں رابعہ اور کپتان کے بارے میں ہوسٹل اور کالج میں ادھر ادھر کی افواہیں اڑنے لگیں۔ اڑتے اڑتے اس کے کان تک بھی پہنچیں۔ ایک مرتبہ وہ ایک جلسے سے واپس آ رہی تھی تو اس نے کپتان کو مشتبہ حالت میں دیکھا تھا۔ رات کافی گزر چکی تھی وہ ایک بار سے شراب پی کر نکلا تھا۔ اس کے پاؤں لڑکھڑا رہے تھے اور اس کے ساتھ ایک اینگلو انڈین لڑکی اٹھلاتی اور لڑکھڑاتی ہوئی چل رہی تھی۔ اس کی موٹر جب ان دونوں کے قریب سے گزری تو اس لڑکی کے نقوش اس اڑتی ہوئی موٹر سے چغتائی کے کسی تصویر کی طرح نیم واضح مگر حسین لگے اس کے بالوں کی لٹیں کس حسن سے بکھری ہوئی تھیں اور اس انتشار میں اس کے چہرے کے خد سکو خال کس خوبی سے مدغم ہو گئے تھے ، کپتان کے ٹوٹے پھوٹے انگریزی گانے کی آواز اسے دور تک سنائی دی۔ ایک لمحے کے لیے اس کا ذہن موٹر سے ہٹ کر ٹھنڈی ہوا کے اس جھونکے کی جانب متوجہ ہو گیا جو ابھی کار سے پیدا ہوا تھا۔ اس نے آج تک نیم شب کے ان روح افزا اور جاں فزا جھونکوں کا تصور نہیں کیا تھا۔ اسے خیال آیا کہ ترتیب ہی ترتیب زندگی نہیں ، انتشار اور بے ترتیبی بھی ایک شان ہے جیسے اس لڑکی کے بال اور خدوخال اور اس کپتان کی ابھی تک بیدار رہنے والی آنکھیں اور لڑکھڑاتی ہوئی چال۔

صبح اٹھی تو طبیعت کسل مند تھی۔ اس کی نیند پوری نہیں ہو سکی تھی۔ کالج جانے کے لیے رابعہ ہوسٹل کے برآمدے سے گزری تو اس نے اسے پکار لیا۔ ’’رابعہ‘‘ وہ چلی آئی۔

’’تم کہاں جا رہی ہو، رابعہ‘‘ حالانکہ اسے معلوم تھا کہ رابعہ کالج کے سوا اور اس وقت کہاں جا سکتی ہے۔

’’کالج۔‘‘

اور سنو— وہ تمھارے کپتان صاحب اب تم سے ملنے نہیں آتے۔‘‘

رابعہ خاموش رہی۔

پھر وہ خود ہی ہنس پڑی ’’میرا یہ مطلب نہ تھا کہ تم ان سے بالکل قطع تعلق کر لو۔ اچھا اب اگر وہ آئیں تو تم ان کے ساتھ پکچر دیکھنے جا سکتی ہو۔ سمجھیں ‎!‎‘‘

گفتگو ختم ہو گئی اس گفتگو کے دوران میں اس نے پہلی مرتبہ غور کیا کہ رابعہ کے خد و خال کیا واقعی دلکش اور حسین ہیں اور اگر ہیں تو کیا اس اینگلو انڈین لڑکی سے بھی زیادہ۔ رابعہ کی ہنسی اس قدر دلنواز نہ تھی، اس کے ابروؤں میں وہ کشش نہیں ، بال اس کے ضرور اچھے ہیں لیکن ان میں وہ لہر نہیں تو کیا یہ لہر اس اینگلو انڈین لڑکی کے بالوں میں تھی؟ اسے خیال آیا کہ محمود اس کے اپنے بالوں کی کس قدر تعریف کیا کرتا تھا۔ ایک مرتبہ اس نے ریحانہ کے بالوں میں اپنی انگلیوں سے کنگھا کرتے ہوئے کہا تھا۔ ’’کوئی بتاؤ کہ وہ زلف خم بہ خم کیا ہے۔‘‘ پھر اسے خیال آیا کہ اس اینگلوانڈین لڑکی کے خد و خال در حقیقت بہت مدھم سے ہیں ، ان میں وہ تابناکی نہیں لیکن وہ بات تو رابعہ میں بھی کچھ کم معلوم نہیں ہوتی اور جب اس نے اپنے کمرے میں قدم رکھا تو سامنے لگے ہوئے قد آدم آئینے سے وہ جھینپ گئی۔ تابناکی اسے کہتے ہیں۔ یہ خیالات کا ایک بے ربط سلسلہ تھا جو یوں ہی آیا اور گزر گیا اور جس کے ربط کا اسے کبھی بھی احساس نہ تھا۔

٭

اس رات وہ بہت دیر تک جاگتی رہی، ابر چھایا ہوا تھا اور آسمان پر رہ رہ کر چاند اور ابر کی آنکھ مچولی ہو رہی تھی، گرمی بھی ختم ہو گئی تھی۔ ہوا سے تسکین کا احساس ہوتا تھا۔ اسے رہ رہ کر محمود کا خیال آ رہا تھا۔ آج نہ جانے کیوں وہ پچھلی باتیں یاد کر رہی تھی۔ گھبرا کر وہ ہوسٹل کے احاطے میں ٹہلنے لگی، دیو دار کے اونچے اونچے پیڑوں کے بنتے اور مٹتے سائے عجیب منظر دکھا رہے تھے۔ پھلواری سے نکل کر ایک سائے نے اس کے بازو پکڑ لیے۔

’’رابعہ— رابعہ— رابعہ ڈیئر۔‘‘

اور اس کے منہ سے شراب کا بھپکا آیا اور چاندنی کی ہلکی سی دھند میں اس نے پہچان لیا کہ کپتان ظفر اس پر جھکا ہوا ہے۔ وہی مضبوط شانے ، وہی چوڑا سینہ، وہی ترشی ہوئی مونچھیں۔ وہ گھبرا سی گئی لیکن جلد ہی اس نے اپنے کو سنبھال لیا اور اس با وقار آواز میں کہا ’’میں رابعہ نہیں ہوں۔‘‘

’’اچھا— خیر، نہ سہی۔ تم رابعہ سے اچھی ہو۔‘‘

اور وہ اپنے کو چھڑا کر واپس لوٹ آئی اور سونے کی کوشش کرنے لگی۔

خواب میں اس نے دیکھا آئی ایم ایس انڈین میڈیکل سروس کے کسی افسر کے سینے سے وہ اپنا سر لگائے ہوئے سسکیاں بھر بھر کر رو رہی ہے۔ وہ باوجود کوشش کے اس افسر کی صورت نہ پہچان سکی نہ اسے صبح اٹھنے پر یاد آئی ہاں وہ وردی کے موٹے اور واضح بٹن اور چوڑے چکلے سینے کا خیال البتہ دھندلا دھندلا سا تھا۔

 

اس شام کپتان ظفر رابعہ سے ملنے آیا۔ رابعہ نے غالباً اسے بتایا ہو گا کہ ظفر کے بارے میں اس کی وارڈن کی رائے میں کوئی خوشگوار تبدیلی ہوئی ہے۔ کپتان نے اس سے ملنے کی خواہش ظاہر کی اس نے بھی اس میں کوئی حرج نہ دیکھا اور جب رابعہ نے اسے بلا لینے کو کہا تو وہ راضی ہو گئی۔ کپتان نے تعارف کے بعد رسمی الفاظ میں اس کا شکریہ ادا کیا اور چلا گیا۔ وہ گفتگو میں ہمیشہ کی طرح سرد مہر رہی، گفتار میں جوش اور حرارت وہ کہاں سے لاتی؟

اسی طرح دن گزرتے رہے گرمی اور بڑھی، امتحان کے دن قریب آ گئے۔ رابعہ اور خود وہ بھی امتحان کے سلسلے میں ذرا زیادہ مصروف ہو گئی۔ کپتان صاحب کم آتے تھے۔ ایک آدھ مرتبہ آئے تو رابعہ کو مصروف پایا، اس سے بھی ملاقات کی اور اس کے ڈرائنگ روم میں کچھ دیر بیٹھے تصویروں کی اور اس کی خوش مذاقی اور خوش سلیقگی کی تعریف کرتے رہے جیسے جیسے وہ باتیں کرتا جاتا تھا ریحانہ کو اس بات کا احساس ہوتا تھا کہ خود اپنے خیالات اس سے کس قدر ملتے ہوئے ہیں۔ ہر بات کہہ کر بے پرواہی سے مسکرا دینے کا انداز اسے بہت پسند تھا۔ رابعہ کا امتحان ختم ہوا اور وہ چلی گئی لیکن کپتان صاحب ریحانہ کو ملنے آتے رہے ، اتنی ملاقاتوں کے بعد وہ بھی ذرا بے تکلف ہو چلی تھی، اس نے باتوں باتوں میں کپتان سے کہا۔

’’کپتان صاحب، زندگی کے وہ گوشے بھی کتنے حسین ہوتے ہیں جو ہر نظر سے چھپے رہیں۔‘‘

’’جی ہاں۔ میں تو ہمیشہ سے حسن کی ’شب تابی‘ کا قائل ہوں۔‘‘

’’شب کے ساتھ نہ جانے آپ کے کون کون سے تصورات وابستہ ہیں۔ مجھے تورات کے ساتھ ہمیشہ شرابیوں ، چوروں اور بدمعاشوں کا خیال آتا ہے۔‘‘

وہ زیر لب ہنسا، اس نے چائے کا ایک گھونٹ لیا پھر کہا ’’شب اور حسن کے تصور کو آپ اتنا محدود کیوں کرتی ہیں۔ بدمعاشوں ، شرابیوں اور بد کرداروں کی تاریکی میں بھی آپ حسن کیوں نہیں پاتیں۔‘‘ پھر وہ یکایک خاموش ہو گیا اور گفتگو بے ڈھنگے طریقے پر ختم ہو گئی۔

پھر رابعہ کے بارے میں گفتگو ہونے لگی۔ کپتان نے بتایا کہ رابعہ اس کی بہن کی سہیلی ہے اور وہ رابعہ کے بالوں سے بہت مرعوب ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ان گپھاؤں میں جادو کے نہ جانے کتنے ایلورا اور اجنتا چھپے ہوئے کسی کولمبس کا انتظار کر رہے ہوں گے جو انھیں دریافت کرے۔ پہلی مرتبہ ریحانہ کو رابعہ کی بد صورتی کا احساس ہوا، ایک لمحے کے اندر ہی اندر ریحانہ نے رابعہ کو بڑھتے بڑھتے کافی عمر تک پہنچتے دیکھا۔ اس فوٹو گروپ میں جو ہوسٹل کی سب لڑکیوں کا کھنچا تھا رابعہ کس قدر بدھو بنی خاموش کھڑی تھی، اس کے بالوں میں نہ کوئی گپھا معلوم ہوتی تھی نہ ان سے کسی کولمبس کے انتظار کا انداز معلوم ہوتا تھا۔ مرد بھی عجیب و غریب شے ہے ، ذرا سی بات کو ایسا لے اڑتا ہے کہ توبہ ہی بھلی۔ جسے چاہے عرش پر چڑھا دے اور جسے چاہے زمین پر دے پٹکے۔

٭

اور جب ایک دن اچانک اسے کپتان کا خط ملا تو اسے بڑا اچھا لگا۔ کتنے دنوں بعد اس کی زندگی میں یہ نیلے لفافے داخل ہو رہے تھے۔ کپتان نے ملاقات کے لیے وقت مانگا تھا۔ اس نے لکھا تھا۔

’’میری ریحانہ … تم کتنی اچھی ہو۔ کیا تم میرے لیے کوئی وقت نکال سکتی ہو آج شام کو۔‘‘

اس کو تخاطب کا یہ انداز بہت برا لگا۔ اس نے سوچا کہ وہ اس پر احتجاج کرے گی اور کپتان کو تنبیہ کر دے گی اور جب شام کو وہ آیا تو نہ جانے کیوں وہ کافی دیر پہلے سے اس کا انتظار کر رہی تھی۔ اس نے اویاما کی تصویر کو جو مدت سے اس کے بکس میں پڑی ہوئی تھی۔ فریم میں لگا کر کمرے میں سجایا تھا۔ خود بھی نہا دھو کر نئے کپڑے پہنے تھے خود ہی اسے خیال آیا تھا کہ آخر وہ یہ سب کچھ کیوں کر رہی ہے ، جواب میں اسے یہی بات معلوم ہوئی کہ یوں بھی وہ کبھی کبھی شلوار، دوپٹہ پہن لیا کرتی ہے ، آج ہی کیا خصوصیت ہے ، تصویر لگانے کو آج صبح ہی سوچ چکی تھی، اگر وہ خط نہ بھی آتا تو بھی تصویر تو بہر حال لگتی ہی۔ جب وہ آگیا تو ایک دم اس کا دل دھک سے ہو گیا اور چہرے پر رنگ کی کئی لہریں پیاپے گزر گئیں ، اب وہ اس کے لباس کی تعریف کرے گا اور اس نے ایسا ہی کیا۔ تصویر کی تعریف کرے گا اور اس نے تعریف کی، جواب میں اس نے سرسری باتیں کہہ کر بات ٹال دی۔ اسے انداز تخاطب ’میری ریحانہ‘ بھی یاد آیا۔ کتنی بار اس نے اپنے اعصاب پر زور ڈال کر اور ساری قوتیں مجتمع کر کے کوشش کی کہ وہ اسے تنبیہ کر سکے لیکن وہ کامیاب نہ ہو سکی۔

یوں ہی سلسلہ چلتا رہا، ریحانہ کے چہرے پر خود اس کی زندگی میں ایک قسم کی تازگی سی آ چلی تھی۔ وہ ایک مرتبہ اس کے ساتھ اور اس کے بغیر بھی کلب اور کافی ہاؤس بھی گئی۔ کچھ لوگوں سے ملی جلی بھی اور ان سوسائٹیوں میں اس نے اپنے کو ہنسنے پر مائل پایا، اب وہ سوچتی بھی کم تھی اور جب سوچتی تھی تو اس نتیجے پر پہنچتی کہ زندگی کا کوئی تنگ نظر جائزہ یا حد بندی نہیں کی جا سکتی۔ اسے سیر کرنا ہے ، دیکھنا بھالنا ہے ، سیکھنا اور تجربہ کرنا ہے ، آج پہلی بار ٹینس اور بیڈ منٹن کا مقصد اس کی سمجھ میں آیا تھا۔ کپتان تین چار روز سے نہیں آیا تو وہ نہ جانے کیوں متفکر اور اداس سی ہو جاتی اس کا سبب اسے بھی معلوم نہ تھا۔ اس کے خط سے عجیب سی خوشی اس کے آنے سے مسرت، اس کا تو اسے بھی احساس تھا لیکن اس کی غیر حاضری میں ایک خاص قسم کے ذہنی بوجھ کے معنی وہ نہ سمجھ پائی تھی۔ اس نے اسے کچھ موسمی یا اپنی صحت کے اثرات پر محمول کیا یا کوئی اور بات ہوتی ہو انسان پر کتنے ہزار عکس پڑتے ہیں ان کا شمار ممکن ہی نہیں۔

ایک مرتبہ باتوں باتوں میں کپتان نے نیلے رنگ کی تعریف کی اس رنگ میں کس قدر خاموش تکلف اور کتنی گہرائی ہے ، تیسرے چوتھے دن جب وہ اپنے لیے ساری پسند کر رہی تھی تو نہ جانے کیوں اسے نیلے رنگ کی ساری ہی پسند آ گئی لیکن ساری کی پسند اور ناپسندیدگی سے ہوتا ہی کیا ہے؟ ادھر دو ہفتے سے وہ اپنے میں ایک ذہنی خلا محسوس کر رہی تھی۔ عجیب ایک بے دلی سی تھی، طبیعت ہر چیز سے اچاٹ تھی، اس نے بہت کچھ سوچا، کچھ بھی سمجھ میں نہیں آیا۔ ہاں جب ان دو ہفتوں کے بعد کپتان لوٹ کر آیا تو وہ شگفتہ سی ہو گئی، اس کی ساری بے دلی اور اچاٹ پن جاتا رہا تو کیا یہ اس کے آنے کی وجہ سے ہوا؟ اس کا اسے احساس نہ تھا۔

٭

کالج کھلنے کا زمانہ قریب آ رہا تھا اور مصروفیات رفتہ رفتہ بڑھ رہی تھیں ، ہوسٹل کے داخلوں کے فارم دیکھتے دیکھتے وہ بہت تھک گئی تھی اور بستر پر لیٹتے ہی اس کی آنکھیں لگ گئیں ، اٹھی تو تساہل کی کیفیت میں پڑی پڑی مختلف باتیں سوچتی رہی، یہ بھی کہ استقلال بھی کتنی بڑی طاقت ہے ، مثلاً اس کا اپنا استقلال محمود اور صرف محمود سے وہ عمر بھر محبت کرتی رہی ہے اور اسی محبت میں اپنی زندگی گزار دے گی۔ رومان اور ازدواج کے سارے تصورات کو یوں ہی تھپک تھپک کر سلاتے ہوئے۔

تھوڑی دیر بعد کپتان صاحب آئے اور پرچہ بھجوانے کے عوض خود ہی ایک دم برابر والے کمرے میں آن دھمکے۔ وہ اس قدر خستہ حالت میں کپتان سے ملنا نہیں چاہتی تھی، سلوٹوں سے بھرے ہوئے ملے ولے کپڑے ، بکھرے ہوئے بال اور بے دھلا منہ۔ کپتان اسٹڈی کے دروازے میں کھڑا اسے دیکھ رہا تھا۔ وہ اس مدت میں گھبرا کر اٹھی تھی، ساری کا پلو اور آنچل سنبھالتی رہی اور جھینپی ہنسی ہنستی رہی، وہ چاہتی تھی کہ کپتان کو اس کی نا معقول حرکت پر ڈانٹے لیکن ڈانٹنے کا لہجہ وہ نہ بنا سکی اور بیچ میں کئی بار مسکرا دی۔

’’آپ ایک دم یہاں کیسے چلے آئے۔‘‘

کپتان بڑے اطمینان سے سگریٹ پیتا رہا پھر بولا ’’میں ترتیب سے کبھی کبھی گھبرا جاتا ہوں۔ مجھے انتشار اور بے ترتیبی کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔‘‘

’’خوب‘‘ وہ پھر مسکرائی ’’اچھا اب ڈرائنگ روم میں بیٹھیے نا۔ میں ابھی آئی۔ میں ابھی سو کر اٹھی ہوں۔‘‘

منہ دھوتے اور ساری تبدیل کرتے ہوئے اسے بار بار اپنے پر غصہ آتا تھا، اف کتنا برا ہوا کپتان نے اسے کس حالت میں دیکھا، اب وہ اپنے جی میں کیا کہتا ہو گا وغیرہ۔

کپتان سے بات چیت ہوتی رہی، بات چیت میں اس نے ریحانہ کو پکچر چلنے کی دعوت دی۔ راکسی میں کوئی مشہور فلم چل رہی تھی وہ جھجکی، ایک لمحے کے لیے اسے وہ شام یاد آئی جب اس نے رابعہ کو کپتان کے ساتھ پکچر جانے سے منع کرایا تھا کیونکہ کپتان اس ہفتے اس سے پانچ مرتبہ ملنے آ چکا تھا۔ اس نے بات کو ٹالنے کی کوشش کی لیکن بات بہت واضح اور صاف تھی اس لیے ٹل نہ سکی اور پھر وہی تذکرہ چھڑ گیا، وہ پکچر جانا مناسب نہیں سمجھتی تھی لیکن نہ جانے کیوں گفتگو اور حالات کی رفتار رفتہ رفتہ ’نہیں‘ کے عوض ’ہاں‘ کی طرف جا رہی تھی۔ کپتان نے اور بھی اصرار کیا وہ تیار ہو گئی اپنی کار نکلوانے کو کہا۔ کار برآمدے سے کچھ دور ہوسٹل کی سڑک پر اس پھلواری کے قریب کھڑی تھی جہاں ایک چاندنی رات کو ایک پرچھائیں نے اس کا بازو پکڑ لیا تھا۔ وہ کار کی طرف بڑھ ہی رہی تھی کہ اس کی ساڑی کا پلو ایک کانٹے میں الجھ گیا۔ وہ اسے چھڑا کر کار میں جا بیٹھی اور خود چلانے لگی۔

آج مال پر بہت بھیڑ تھی۔ کار ہی کار نظر آتے تھے۔ سڑک بھری ہوئی تھی۔ شاید کسی بیمہ کمپنی کا افتتاح ہونے والا تھا۔ اسے کار کو کنارے ہی روکنا پڑا اور جب وہ دونوں اترے تو فوراً ہی اسے خیال آیا کہ اس کنارے ایک روز رات کو سامنے والے بار سے نکلتے ہوئے کپتان سے اس کی مڈ بھیڑ ہوئی تھی۔ رات گئے نشے سے وہ لڑکھڑاتے ہوئے قدم اور اینگلو انڈین لڑکی کے پریدہ خد و خال اسے کیسے بھول سکتے تھے وہ ایک لمحے کے لیے ٹھٹھکی۔ آج بھی کپتان کے ساتھ ایک عورت تھی انگلو انڈین نہ سہی، اسی راستے سے وہ راکسی پہنچ گئے۔ جب وہ ہال میں داخل ہوئے تو اندھیرا ہو چکا تھا۔ وہ دو ایک کرسیوں سے ٹکرائی، کپتان نے اس کے ننگے بازوؤں کو اپنے ہاتھ سے سہارا دیا اور وہ ٹٹولتے ٹٹولتے اپنی سیٹ تک پہنچ گئے۔ پکچر کے دوران میں بھی کئی بار کرسیوں کے بازو پر ان کے ہاتھ ٹکرائے اور پھر انھیں ننگے بازوؤں پر اس کی انگلیاں ایک لمحے کے لیے چھو گئیں۔

پکچر کے بعد وہ دونوں سنیما کے ریسٹورنٹ میں بیٹھ کر چائے پینے لگے اور ہندوستانی فلم سازوں کے نکمے پن اور انگریزی فلموں کی برتری پر باتیں کرنے لگے۔ ایک اچھا انگریزی فلم عام طور پر لوگوں کو اسی قسم کے مباحثوں پر اکساتا ہے۔ ریحانہ نے کہا ’’کپتان اس فلم میں کتنا سکون تھا، کتنی ترتیب تھی۔‘‘ کپتان اپنی سوچ میں مصروف رہا پھر کچھ وقفے کے بعد اس نے کہا ’’ہاں کتنا سکون تھا، کتنی ترتیب تھی‘‘ اور پھر کچھ سوچنے لگا۔ ریحانہ اس کے غور و فکر سے گھبرا اٹھی۔

’’آخر تم کیا سوچ رہے ہو کپتان … ظفر۔ جیسے وہ صرف ظفر ہی کہنا چاہتی تھی اور کپتان اس کے منہ سے غلطی سے نکل گیا ہو۔ کپتان نے اسی فکر آلود لہجے میں کہا ’’ریحانہ … میں بھی اس انتشار اور بے ترتیبی سے تھک گیا ہوں‘‘ اس مرتبہ ریحانہ خاموش رہی اور کچھ سوچتی رہی، غالباً اس بے وقت کی فلسفہ طرازی کے بارے میں۔

کپتان کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد اسی فکر آلود لہجے میں کہنے لگا۔ ’’میں سوچتا ہوں مجھے بھی ترتیب کی ضرورت ہے ، سکون کی ضرورت ہے۔‘‘ اور پھر جیسے کسی کوشش کے زیر اثر اس کا چہرہ دمک اٹھا ہو اس نے کہا ’’ریحانہ ہم تم ایک دوسرے سے کتنے قریب ہیں ، ہم دونوں ایک دوسرے سے محبت بھی کرتے ہیں ، اگر ہم شادی کر سکیں تو …‘‘

ریحانہ کا چہرہ بھبھک اٹھا۔ زندگی کا اتنا بڑا ذخیرہ، جذبات کی یہ تابناک روشنی کئی برس بعد آئی تھی۔ کچھ دیر وہ بولنے کی کوشش کرتی رہی۔ پھر ایک دم جیسے کہ اس نے سب کچھ اگل ڈالا ہو وہ چلا کر بولی ’’تو کیا میں تم سے محبت کرتی ہوں۔‘‘ وہ غصے میں اٹھ کھڑی ہوئی اور تیز تیز قدم بڑھاتی ہوئی راکسی سے باہر نکل گئی۔ کپتان نے اسے روکنے کی کوشش نہیں کی۔ وہ اپنی سیٹ پر بیٹھا ہوا اسی فکر آلود انداز میں سگریٹ پیتا رہا۔

ماخذ: ماہنامہ آج کل، دسمبر 1948ء

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے