ایک رات کا ذکر : غزل میں نئی دستک ۔۔۔ رشید نثار

  ایک رات کا ذکر:غزل میں نئی دستک

 

 

                   رشید نثار

 

میرے نزدیک رات ایک ایسا وجود ہے جو سر چشمۂ راز ہے بلکہ ایک اور جہت سے دیکھیں تو ہم اِسے اِدراکِ  حُسن بھی کہہ سکتے ہیں۔ رات چونکہ خود کو منکشف کرتی ہے  لہٰذا اس کی چھوٹی چھوٹی دنیائیں حیرت انگیز طور پر کسی آنکھ والے کو اپنی طرف بُلاتی اور اپنے حسن کی رعنائی کو پرکھنے کی دعوت دیتی ہیں۔ رفیق سندیلوی نے رات کو رویائی ہیئت میں دیکھا اور اپنے تصوّرات کے شاخ در شاخ روزنوں سے اِس کے باطن میں جھانکا ہے۔ اِس طرح اُس نے اپنے تکمیل شُدہ فکر کو ایک پیکر عطا کرنے کی کی کوشش کی ہے۔

اُردو غزل میں روایتی اُسلوب نیم شفّاف صورت میں سر گرم عمل رہا ہے لیکن جب سےmodern sensibility نے غزل میں نئی نزاکتیں پیدا کی ہیں، تب سے اِس  کے تزئینی نقوش میں نیا حُسن پیدا ہو ا ہے۔ رفیق سندیلوی اِس سے متاثر ہوا ہے مگر اُس نے اپنے تصوّر کونیا اُسلوب بخشا اور نئے استعاروں میں تمثال گری کا جواز پیدا کیا ہے۔ اُس کے ہاں حُسن کی تلاش کے ایک انوکھے انداز اور مکمل طور پر ایک مرتکز اُسلوب نے جنم لیا ہے جو قدیم روایات کے برعکس وجدانی سطح پر ایک اَن دیکھے اِنقلاب کے وجود کی خبر سُنا تا ہے۔

رات اپنے وجود میں پُر اَسراریت کا نفوذ رکھتی ہے مگر معروضی انداز سے دیکھنے والی آنکھ اس کے خارجی مظاہر تک محدود رہتی ہے۔ رفیق سندیلوی نے خارجی مظاہر تک ہی اکتفا نہیں کیا کیوں کہ وہ اپنے الفاظ کا گہرا ہم سفر رہا ہے اور ان کے ساتھ مائلِ پرواز ہوا ہے۔ اس سفر میں رات کی صفات بہت سے لمحات میں اذیّت ناک صورتِ حال سے دوچار ہوتی ہیں۔ اس کے با وصف رفیق سندیلو ی رات کے مظاہر کے ساتھ آسمان پر جا کر زمین کو آباد کرتا رہا ہے۔ وہ اگر ایسا نہ کرتا تو اپنے ہُنر کو پُر مایہ بنانے کے عمل سے اِنحراف کرتا۔ چنانچہ اُس نے اِنحراف نہ کر کے زمینی رشتوں کے ساتھ گہری مطابقت پیدا کی ہے اور اب اُس کی روایت اُس کی اپنی ہے اور تقدس مآب بھی۔ اِس ضمن میں اُس کے چند اشعار کا ذکر کروں گا جن کی خواندگی سے اس امر کا اِنکشاف ہوتا ہے کہ جمالیاتی انداز میں تغیر سا آ گیا ہے۔ وقت اور فاصلوں کی زمام فن کار کے ہاتھ میں آ گئی ہے جس سے تخلیق کا دائرہ اندر سے کھل کر بڑا ہو گیا ہے اور خیال کو وسعت نصیب ہوئی ہے:

 

فُسونِ خواب  نے آنکھوں کو  پتھر کر  دیا تھا

اور اِک تارہ  حفاظت پر  مقرّر  کر دیا  تھا

 

طلسمی دھوپ نے اِک مرکزِ عصرِ رواں  میں

مرے قد اور  سائے کو  برابر  کر  دیا  تھا

 

کشش نے کھینچ  لیا تھا زمین  پر مجھ  کو

سو گرتے گرتے بھی میں نے خلا شکار کیا

 

ہم آسماں کی  زمام تھامے گزر رہے تھے

فرشتے جب  شانۂ زمیں پر اُتر رہے تھے

 

میں دِن کا سلسلہ دِن سے ملانے والا تھا

کہ درمیان میں اِک رات آن کو دی تھی

 

مجھے  ٹھکانہ  نہیں مِلا تھا  کسی  طبق  پر

میں تھک کے خاکی بدَن کے ٹیلے پہ آ گیا تھا

 

رفیق سندیلوی نے علامت اور تصوّر کو امتزاجی صورت عطا کی ہے۔ اُس کے ترکیبی آہنگ نے بڑی مہارت کے ساتھ اُلوہی اِنسان کا ہیولہ تراشا ہے۔ اُس کی اندرونی صداقت نے ظلمت و نور کے وہ منطقے ایجاد کئے ہیں جس سے غزل کو ایک انوکھا جہانِ معنی نصیب ہوا ہے۔ ایک وقت تھا کہ اُردو غزل کلیشے سے بچنے کے لئے عجیب حالات سے دوچار تھی۔ بعض اوقات تصوّرات کی یکسانیت نے خیال کو محدود اور کلیشے کو بے ہنگم طور پر پھیلا دیا تھا۔ اِس سے بچنے کے لئے رفیق سندیلوی نے پہلے اپنے اُسلوب کی تشکیل میں مہارت حاصل کی۔ اِس کے بعد رات کے اِستعارے کو عمیق تجربے کی آماج گاہ بنایا۔ اِس طرح اُس نے اندرونی صداقت کا اِنکشاف کیا ہے۔ یہ ایک کٹھن مرحلہ تھا

ر لفظ مو                   ٭٭٭٭کیوں کہ اپنے ہاتھوں کنواں کھود کر پانی پینا آسان نہیں۔ اُس نے جاری شُدہ اُسلوب اور سکہّ ٔ رائج الوقت کی تجدید نہیں کی۔ اُس نے موضوع و ہیئت کو یک جان بنانے کے لئے ایک تراشیدہ ذہن سے کام لیا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ اُس نے رات کے پیکر کو آرائش بخشنے کے لئے متنوّع استعارے تراشے ہیں اور غیر معمولی جدّت اور تصوّراتی رفعت سے کام لے کر  اِنھیں نقشِ نو عطا کر دیا ہے۔ اس کی جدیدیت کے بارے میں اتنا ہی کہنا کافی ہو گا کہ جب رات کا ذکر ہو گا تو رفیق سندیلوی کو پہچاننے میں کوئی مشکل درپیش نہیں ہو گی۔ اس اعتبار سے اُس کی خارا شگافی کی مثالیں اتنی نُمایاں ہیں اور اس کی استثنائی صورت اتنی غیر روایتی ہے کہ بہ یک وقت کسی پیکر کی تجسیم اور جسم کی ترسیم ہونے لگتی ہے۔ چنانچہ آبِ کشفِ رواں، سیاہی ٔ شبِ خاکداں۔ طلسم کی شمشیر۔ شبِ یک نفَس، کنگرۂ نور، زنگارِ صدا، شانۂ زمیں جیسے استعاراتی پیکر کسی اِسرار کی حیثیت حاصل کر لیتے ہیں۔ ایک پُر اَسرار کائنات رفیق سندیلوی کے خلاّق ذہن میں آباد ہے۔

’’ایک رات کا ذکر‘‘ میں رفیق سندیلوی نے عہدِ عتیق کے طلسمات اور اساطیری روایات سے منسلک ہو کر ایک  نئی اور تازہ رومانی تحریک کو پیدا کرنے کی سعی کی ہے۔ اور عہدِ موجود کے روحانی افلاس کا مُداوا وجدانی تجربات کی روشنی میں تلاش کیا ہے۔ میں یہاں اِس امر کا تجزیہ ضروری سمجھتا ہوں کہ وجدانی تجربات کو سیاسی منطق کے بغیر تشکیل نہیں دیا جا سکتا۔ علی ہٰذالقیاس وجدانی تجربہ روحانی افلاس کے عہد میں سیاسی منطق کی روشنی میں آئیڈیلسٹ فلاسفی کو جنم دیتا ہے اور الہامی عقل کی کارفرمائی بھی اِس عہد میں فروغ پاتی ہے جس کی بنا پر تمثیل یاallegory ذہنی تصاویر کی جگہ حاصل کر لیتی ہے۔ رفیق سندیلوی کی تمثیل و تمثال کی طرف رغبت نے’’ ایک رات کا  ذکر‘‘ میں زندہ کردار ادا کیا ہے۔ یہاں یونی ورسل اور منفرد تمثالوں میں سے چند ایک کا تذکرہ ناگزیر ہے۔ ملاحظہ کیجئے:

 

سماوی  پتھر کہیں  دہانوں  پہ  رُک  نہ  جائیں

ہم ارضی غاروں کی سمت جانے سے ڈر رہے تھے

 

سات طبق، چھ جہتیں، چاروں کھونٹ عمامہ

اور  ستارہ  چوغہ،  چاند  لبادہ       میرا

 

کسی دِن جفت ساعت میں دُعا کا ہاتھ تھامے

ہیولا سا مرے مہمان  کا  اُترے  کسی  دِن

 

میں کہ عِلمِ غیب  نہ  جانتا  تھا مگر یہ  دِل

کسی آبِ کشفِ رواں دواں میں پڑا رہا

 

کبھی کبھی تو یہ لگتا ہے، ساعتِ موجود

مجھے  قدیم زمانے میں کھینچ  لائی ہو

 

خمیرِ آب و آتش  ہو گا  میری  دسترس میں

بگولے گوندھ دوں گا سُرمئی بادل بُنوں گا

 

چھٹیں فضاؤں سے نا ممکنات کے بادل

کوئی  ستارۂ  امکان  اِس   برس چمکے

رفیق سندیلوی کی تمثیل و تمثال کی طرف رغبت سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ اپنی انفرادیت کو مستحکم کرنا چاہتا ہے اور جمالیاتی ادراکِ  حقیقت میں اپنے ارادے کی ضد کو کارفرما رکھنا چاہتا ہے۔ اُس نے موجودات کی تفہیم کو اقدار کا پیرہن بخشا ہے۔ لہٰذا شاعرانہ طریق کار میں  اُس نے رنگوں کی سچائی  کے ساتھ سائنسی امکانات کو برقی اثرات سے منوّر کر کے خود کو مشہود کیا ہے۔ اُس نے جا بہ جا بنفشی روشنی کے مظاہر اور اس سے پھوٹنے والے تلازموں کا اہتمام کیا ہے اور شعاعِ نور کو اپنے ابعادی تصوّر کی جالیوں سے گزارا ہے لہٰذا رنگوں کی بارِش کا احساس ایک حسین اور جاذب پیکر کو تراشتا ہے۔ اِس طرح رفیق سندیلوی اپنی غزل میں ایک مقناطیسی کشش کو تشکیل دینے میں کامیاب ہوا ہے۔ یہ تخلیقی کارنامہ رفیق سندیلوی کو ایک نیا طلوع بخشے گا۔

’’ایک رات کا ذکر‘‘ میں تجربے کی معجزیاتی فضا ایک اور حوالے سے قطب نُمائے خیال اور قابلِ اعتماد فطرت کو منکشف کرتی ہے۔ وہ یوں کہ جب رات خود کو افشا کرتی ہے تو دوشیزۂ فطرت کا روپ دھار لیتی ہے۔ اس طرح اس کی اپنی فطرت بھی تعمیر ہوتی ہے۔ رفیق سندیلوی نے اپنے تخلیقی عمل میں رات کے تناظر میں تلازموں کی ایک انوکھی دُنیا خلق کی ہے اور منظم انداز میں سخت فنی کاوش کے ساتھ خیال پر حاکمیت حاصل کی ہے۔ بذاتِ خود رفیق سندیلوی اظہار میں آزادی کی کمی کو پسند نہیں کرتا۔ وہ فکری انتشار کے عہد میں افسردہ اور اُداس بھی نہیں۔ اس کے با وصف اُس نے جس مشکل راستے کو پسند کیا ہے وہ خواب بیداری کا ایک کھیل ہے۔ یاد رہے کہ خواب بیداری  کا سارا سفر ذ  ہنی ہوتا ہے۔ رفیق سندیلوی نے ذ  ہنی تحفّظ کے احساس کی روشنی میں وجوہات کو بُنیاد فراہم کی ہے اور اپنی ذات سے متفق ہو کر ایک پُر عزم کائنات پیدا کر دی ہے۔ یہ تخلیقی جہت جسے میں عملیت کا نام دینا چاہتا ہوں۔ کسی کشٹ اور کشف کو جنم دے کر شدید تغیر خیال کو ممکن بناتی ہے۔ ’’ایک رات کا ذکر‘‘ میں تخلیقی جذبے کی رہنُمائی کا پتہ چلتا ہے اور’’ استرداد‘‘ کا مفہوم اُبھر کر سامنے آتا ہے اور  واضح ہوتا ہے کہ رفیق سندیلوی اپنے عہد کے مقبول اسالیب اور موضوعات کو مسترد کر کے نئی سوچ کی بُنیاد ڈال کر اپنے آپ کو ادبی سفر میں زندہ رکھنا چاہتا ہے۔

رفیق سندیلوی نے یکسوئی اور مسلسل تبدیلی کی حسّیات کے ساتھ غزل میں اپنا  وجود ثابت کیا ہے۔ اس نے یوٹوپیائی تصوّر کے خاتمے اور ماورائے ادراک کی نفی کرتے ہوئے رات کی روشنی میں انسانی خیال کی آزادی کی ضمانت دی ہے۔ اِس طرح انسانی خواہش زمیں کی کوکھ سے لے کر آسمانی وسعتوں تک ناممکن کو ممکن بنانے میں کامیاب ہوتی ہے۔ اِس کامیابی اور اِس تحریک کا سہرا رفیق سندیلوی کے سر سجتا ہے۔ واقعی شاعری کی سطح پر فلکیات اور ارضیات کی سائنس میں ایک نئی دستک اور ایک نئی دھمک کا احساس منصۂ شہود پر آیا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے