ایک خط ۔۔۔ گل اسلام

سمانہ گاؤں ریاست پٹیالہ انڈیا سے آج سے کئی سال پہلے ایک خاتون جس کا نام اوشا تھا اس نے پوسٹ آفس خوشاب کے پتے پر ایک خط بھیجا تھا۔ معلوم نہیں وہ خط اب کہاں ہو گا ؟ مجھے ایک دوست کی وساطت سے اس خط کا مضمون معلوم ہوا تو اپنے الفاظ میں اسے اوشا کی زبانی آپ تک پہنچا رہا ہوں۔

 

محترم پوسٹ ماسٹر صاحب

آداب عرض

آپ سوچ رہے ہوں گے کہ میں یہ خط آپ کو کیوں لکھ رہی ہوں؟ اور آپ سے میرا کیا واسطہ ہے۔ جی تو سنیے آپ کے پاس بہت سے ہرکارے (ڈاکیے) ہیں جو خوشاب کے مختلف محلوں میں دنیا بھر سے آئی ہوئی ڈاک پہنچاتے ہیں۔ ان ہرکاروں میں سے ایک ہرکارا بڑا خوش قسمت ہے جو روز اس دربار کی زیارت کر کے آتا ہے جس کی زیارت کو تا عمر میری نگاہیں ترستی رہیں گی۔ محلے سے مراد گلی ملکہ والی ہے اور دربار سے مراد اس محلے میں واقع میرا وہ گھر ہے جس کی خوشبو کے جھونکے ہر ساعت میرے دل پر دستک دیتے ہیں۔ اپنے ہرکارے سے کہیے یا خود تشریف لے جائیے۔ آپ ملکہ والی گلی میں داخل ہوئے۔ دائیں طرف سے مکان گنیے۔ جب آپ دسویں دروازے پر پہنچیں گے تو اپنے قدموں کو روک لیجئے۔ ہولے ہولے بڑے پیار سے قدم اٹھائیے، اگلا گھر اوشا کا گھر ہے۔ ہائے یہ کہتے ہوئے کلیجہ منہ کو آتا ہےکہ اوشا سے خوشاب شہر اور یہ گھر چھوٹ گیا ہے۔ اوشا اب خوشاب میں نہیں ہے۔ اب خوشاب اوشا میں ہے۔ پوسٹ ماسٹر صاحب آگے کا خط اس گھر کی نئی مالکن کے نام ہے۔ آپ دروازے پر دستک دیجئے۔ اس گھر کی مالکن تک میرا خط پہنچائیے۔ آپ کی بڑی مہربانی، آپ کی نوازش کہ آپ نے میرا خط اس گھر تک پہنچایا۔

 

میری بہن،

کاش میں تم سے ملی ہوتی کاش میں نے تم کو دیکھا ہوتا۔ شاید دنیا میں مجھے کسی دوسرے شخص سے ملنے کی اتنی تڑپ نہ ہو جتنی تم سے ہے۔ جس گھر میں تم رہ رہی ہو، یقین جانو، تم بڑی خوش قسمت ہو کہ تم کو رہنے کے لیے اوشا کا گھر ملا۔ مجھے تو یقین ہی نہیں آتا کہ خوشاب مجھ سے چھوٹ گیا ہے۔ صبح کو جب بھی جاگ آتی ہے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے میں خوشاب میں ہوں۔ پھر دھیرے دھیرے حقیقت کھلتی ہے کہ میں خوشاب سے بہت دور سمانہ میں ہوں۔ درمیان میں نہ جانے کتنے دریا ہیں، نہ جانے کتنے پہاڑ ہیں، صحرا، شہر اور آبادیاں ہیں۔ کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ وقت ہمیں ایسا پلٹا دے گا۔ بہت جی کرتا ہے کہ پر لگ جائیں اور میں۔۔۔۔۔۔۔

شاید اب تو عمر بھر یہ ارمان پورا نہ ہو۔ عمر بھر اسی کسک اور حسرت سے جینا پڑے گا۔

میں اپنا دکھڑا لے کر بیٹھ گئی، بہنا تم بھی نہ جانے کس دیس سے اور کتنی کٹھنائی سہ کر اوشا کے گھر پہنچی ہو گی۔ شاید میری طرح یہ اجنبی گھر تمہیں بھی ڈستا ہو ، شاید تم بھی راتوں کو اٹھ اٹھ کر فریادیں کرتی ہوں، شاید تمہارا بھی ہر پل بے قراری میں گزرتا ہو۔ میری بہنا، تم بھی میری طرح مجبور ہو گی۔ میں اپنے لیے کچھ نہیں کر سکتی تو تمہارے لیے کیا کر سکتی ہوں۔ ہاں مجھے تم سے ہمدردی ضرور رہے گی اور میری دعا ہو گی کہ تمہارا دل اوشا کے گھر میں لگ جائے۔

بہنا! اتنا تو تمہیں پتہ چل گیا ہو گا کہ اوشا نے یہ خط تمھیں کسی غرض کی بنا پر لکھا ہے۔ تمہاری محرومیاں اور بے بسیاں اپنی جگہ، کچھ پل کے لیے اوشا کے دل کا حال سن لو۔ بہنا یہ گھر مجھے بہت پیارا ہے۔ میری تمنا ہے کہ اس گھر میں تمہیں ڈھیر ساری خوشیاں ملیں۔ تمہارے سر کا سائیں سلامت رہے۔ تمہارے بچوں کی خیر ہو۔ اگر ہو سکے تو اس گھر سے محبت کرنا۔ نچلی منزل میں تین کمرے اور ایک کچن ہے۔ دائیں طرف کے کمرے کی ایک کھڑکی کچن کی طرف کھلتی ہے۔ اس کمرے کو اپنا مسکن بنانا۔ اس کے دو فائدے ہوں گے۔ آپ کے لیے کچن کی آمد و رفت آسان ہو گی۔ دوسرا باہر کا صدر دروازہ جب کھٹکھٹایا جاتا ہے تو اپ کو دستک آسانی سے سنائی دے گی۔ اس کمرے میں ملکیت کے عناصر بہت زیادہ ہیں۔ درمیان کا کمرہ بچوں کو اور بائیں جانب کا کمرہ بزرگ یا دوسری خواتین کے لیے خاص کر دیجئے گا۔ کچن میں کسی کی قسم کی تبدیلی مت کیجیے گا۔ برآمدے کے آگے انگور کی بیل لگی ہوئی تھی۔ اگر نامساعد حالات سے وہ فنا ہو گئی ہو تو دوسری بیل منگوا لیجے۔ آنگن میں میرے سر تاج کبھی کبھی کلہاڑی سے لکڑیاں چیرتے تھے۔ میرا اکثر ان سے اس بات پر جھگڑا ہوتا۔ اس وجہ سے آنگن کے کچھ ٹائل خراب ہو گئے تھے۔ مجھے امید ہے آپ نے آنگن کے ٹائل بدلوا لیے ہوں گے۔ اوپر والی چھت کو آپ اپنا دوسرا گھر سمجھیں۔ اگر کبھی صاحب سے لڑائی یا جھگڑا ہو جائے تو اور کہیں جانے کی ضرورت نہیں۔ آنکھ بچا کر اوپر چلی جائیے۔ ہو سکتا ہے انہیں تمہیں منانا ہو۔ اب نچلی منزل میں وہ سب کے سامنے تمہیں تھوڑی منا سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ اگر آپ کے گھر میں افراد زیادہ ہیں تو آپ اوپر والی چھت کے دو کمرے بھی استعمال کر سکتے ہیں۔ جنوب کی طرف کی پڑوسیوں سے ملحق دیوار تھوڑی سی اونچی کروا لیجیے۔

‏گرمیوں میں رات کو اگر اوپر والی چھت پر سونا ہو تو شام سے پہلے پانی کا چھڑکاؤ ضرور کیجئے گا۔ مجھے امید ہے آپ کے دائیں بائیں اور سامنے والے پڑوسی سب ہی بہت اچھے ہوں گے۔ دن اور رات میں ایک آدھ مرتبہ ان سے سلام دعا ضرور کیجئے گا۔ اوشا کی روح چونکہ ابھی تک وہیں ہے اس لیے اس سے بھی ملتی جلتی رہیے گا۔ اس سے شاید اوشا کو کچھ قرار سا آجائے۔ سال کے بعد ہم اپنے گھر کی چونا صفائی کرتے تھے۔ مجھے دروازوں کے لیے ہرا رنگ پسند تھا اور صاحب کو گلابی۔ تو طے یہ ہوا تھا کہ ایک سال دروازے ہرے رہیں گے اور اگلے سال ان پر گلابی پینٹ ہو گا۔ کمروں کے اندر ہلکا سبز رنگ کی مٹی کا برش دیا جاتا۔ تمام کمروں میں برتنوں کی لیے کانس اور باورچی خانے میں ایک بہت بڑا نعمت خانہ موجود تھا۔ نعمت خانہ کی جالی بہت مضبوط تھی۔ مجھے امید ہے اس نعمت خانے کو سو سال تک کچھ نہیں ہونے والا۔ اگر آپ کے پاس بجلی کا فالتو پنکھا ہو تو نعمت خانے کی بائیں جانب کی جالی کی طرف سے سخت گرمیوں میں لگا دیجئے گا۔

صبح صبح ایک دو آنے اپنے گھر اور بچوں کا صدقہ ضرور اتاریے گا۔

دعا ہے کہ سرحدوں کے تنازعے ختم ہوں اور ہم ایک دوسرے کے پاس جا کر رہ سکیں۔ بتائے دیتی ہوں اگر خوش قسمتی سے کہیں ایسا موقع آئے تو میں مہمان بن کر چھت پر نہیں ٹھہروں گی۔ اپنے کمرے میں ہی ٹھہروں گی۔ مجھے امید ہے چند دن کے لیے آپ مجھے برداشت کر لیں گی۔

ہجرت بہت بڑا عذاب ہے۔ یہ درد وہی محسوس کر سکتا ہے جو اس درد سے گزرا ہو۔ بہت سی قربانیاں دینا پڑتی ہیں۔

اوشا۔۔۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے