ستیہ پرکاش کو آخر کار اس بات کا احساس ہو گیا کہ وہ اب کسی کی رہنمائی کرنے کے قابل نہیں ہے۔ در اصل اس کو ہمیشہ یہ زعم رہا کہ وہ بہت ہی تعلیم یافتہ ہے، اس نے دنیا دیکھی ہے اور گھاٹ گھاٹ کا پانی پیا ہے، اس لیے اس کے تجربات وسیع اور مشاہدات عمیق ہیں۔ اسے اس بات کا بھی احساس تھا کہ ان تجربات کی بدولت وہ اس لائق بن چکا ہے کہ دوسروں کو زندگی کے اتار چڑھاؤ سے آگاہ کر سکتا ہے اور ان کو جینے کا ڈھنگ سکھا سکتا ہے۔ سبکدوشی سے پہلے ستیہ پرکاش کو کبھی بھی خیال نہیں آیا کہ جاہ و منزلت کی بات الگ ہوتی ہے، لوگ آدمی سے زیادہ اس کی کرسی اور رتبے کی عزت کرتے ہیں، اس کے پاس اعلیٰ سرکاری عہدہ ہوتا ہے، دولت کی ریل پیل ہوتی ہے اور اس کے ساتھ بہت ساری توقعات وابستہ ہوتی ہیں۔ لوگ اس کی باتیں سنتے ہیں اور ہاں میں ہاں ملاتے ہیں پھر چاہے وہ ان پر عمل کریں یا نہ کریں۔ رفتہ رفتہ اس کی عمر ڈھلتی چلی گئی۔ وہ ریٹائر ہو گیا۔ نہ سرکاری عہدہ رہا اور نہ ہی جاہ و حشمت۔ سب کچھ بلبلے کی مانند غائب ہو گیا۔ لوگوں کی تو بات ہی نہیں اپنے بال بچے بھی اب اس کی بات سننے کو تیار نہ تھے۔
ریٹائرمنٹ کے بعد ستیہ پرکاش کو اکیلا پن سا محسوس ہونے لگا۔ چنانچہ بے حد اصول پرست اور ضابط تھا اس لیے بیوی بچے سبھی اس سے دور دور ہی رہنے لگے۔ بڑے بیٹے نے امریکہ میں ڈاکٹری کی اعلیٰ تعلیم حاصل کر لی اور شادی کر کے وہیں رہائش پذیر ہو گیا۔ چھوٹا انجینئر تھا، اس کو کینیڈا میں اچھی نوکری مل گئی اور فوراً وہاں کا رخ کر لیا۔ ان کے علاوہ ایک بیٹی تھی جس نے اپنے پتی کے ساتھ آسٹریلیا میں سکونت اختیار کر لی۔
بیوی تو ویسے ہی خار کھائے بیٹھی تھی، عمر بھر اس کو نظر انداز کیا گیا تھا اس لیے اس نے موقع غنیمت جان کر اپنے چھوٹے بیٹے کے پاس شرن لی۔ یوں بھی شادی شدہ عورتیں بڑھاپے میں بچوں کو شوہر پر ترجیح دیتی ہیں کیونکہ شوہر سے اس عمر میں کوئی توقع نہیں رہتی۔ انجام کار ستیہ پرکاش بالکل اکیلا رہ گیا ہے۔ گھر میں کام کرنے کے لیے ایک فُل ٹائم نوکرانی ہے جو اس کی دیکھ بھال کرتی ہے۔ البتہ تبادلۂ خیالات و خدشات کے لیے آس پاس کوئی ہمدرد دستیاب نہیں۔ تاہم آسٹریلیا میں رہائش پذیر بیٹی گاہے گاہے موبائل پر خیر خبر پوچھتی ہے، سال میں ایک دو بار ہندوستان آتی ہے اور باپ کے ساتھ کچھ وقت گزارتی ہے۔
بھائی بہن دوسرے شہروں میں مقیم ہیں مگر ہر کوئی اپنی گھر گرہستی میں الجھا ہوا ہے۔ اس کے چھوٹے بھائی کو، جو نزدیک ہی فریدآباد میں رہتا ہے، جب کبھی موقع ملتا ہے تو اس کے پاس چلا آتا ہے۔ کچھ دیر کھل کر باتیں ہوتی ہیں۔ چنانچہ بھائی اے جی آفس میں اکاونٹنٹ ہے اس لیے وہ زیادہ تر حساب کتاب کی باتیں سناکر یہ جتلاتا ہے کہ دنیا میں اگر کچھ ہے تو وہ پیسہ ہے اور اس سے بڑھ کر دوسری کوئی چیز نہیں۔ رشتے ناتے تو ضمنی ضروریات ہیں۔ اس کے رخصت ہونے کے بعد ستیہ پرکاش گہری سوچ میں پڑ جاتا ہے کہ یہ آدمی ابھی نا تجربہ کار ہے، زندگی کی سچائیوں کو نہیں جانتا، میرے پاس تو اتنی ساری دولت ہے پھر میں تنہا زندگی کیوں گزار رہا ہوں؟ میں تو پانی کی طرح روپیہ پیسہ بہاتا ہوں اس کے باوجود کوئی اپنا کیوں نہیں بنتا؟
ستیہ پرکاش کی بڑی بہن کئی سال پہلے ریٹائر ہو چکی ہے اور حیدرآباد میں رہتی ہے۔ وہ مہینے میں ایک دو بار موبائل پر بات کرتی ہے۔ گفتگو کا موضوع اس کے موڈ پر منحصر ہوتا ہے۔ جب موڈ ٹھیک نہیں ہوتا تو ایک دم فون لگاتی ہے اور اپنے دکھڑے روتی ہے مگر جن دنوں زندگی آرام و سکون سے گزر تی ہے اسے بھائی کی یاد نہیں آتی۔ جب دیکھو تب اپنی بہو کی نافرمانیوں کے بارے میں شکایت کرتی ہے۔ اس کی بہو کافی تعلیم یافتہ اور نوکری پیشہ ہے، صبح سویرے نو بجے نکلتی ہے اور رات کو آٹھ نو بجے واپس گھر میں قدم رکھتی ہے۔ ساس کے زمانے تو مختلف تھے، سرکاری نوکری تھی، جب مرضی چلی جاتی اور جب مرضی چھٹی لیتی۔ صبح دیر سے پہنچنا تو معمول بن گیا تھا کیونکہ وہاں پوچھنے والا کوئی نہ تھا۔ اس کے برعکس بہو پرائیویٹ نوکری کر رہی ہے، وہ یہ سب کچھ نہیں کر پاتی۔ گھر میں نوکر چاکروں کی کمی نہیں مگر ساس جس خوش خلقی اور تابع داری کی متقاضی ہے، وہ ممکن نہیں۔ انہی باتوں کا ذکر وہ ہر بار کرتی ہے اور جب ایک بار اس کا ٹیپ شروع ہو جاتا ہے تو پھر رُکنے کا نام نہیں لیتی۔ کئی بار ستیہ پرکاش کو خیال آیا کہ اسے ان دنوں کی یاد دلائے جب وہ خود اپنی ساس کے ساتھ غیر مہذبانہ سلوک کرتی تھی یہاں تک کہ بات بات پر طنز کے نشتروں سے اس کے دل کو چھیدتی تھی۔ اس کی ساس نے تو جیسے تیسے زندگی کے باقی ماندہ دن کاٹ لیے مگر اب وہ خود اسی منزل پر کھڑی ہے اور اس کے لیے ایک ایک لمحہ گزارنا مشکل ہو رہا ہے۔
اُدھر ستیہ پرکاش کی چھوٹی بہن آئے دن موبائل پر اپنی ساس اور نند کی زیادتیوں کا رونا روتی ہے اور یہ ظاہر کرنے کی کوشش کرتی ہے کہ اس جیسی مظلوم عورت اس دنیا میں نہ کوئی ہے اور نہ کوئی ہو گی۔ بہرحال یہ ساس بہو کے جھگڑے تو ہر کنبے میں ہوتے ہیں اور ہر عورت ان کے بارے میں شکایتیں کر کے اپنے دل کا غبار کم کرتی ہے۔ البتہ ستیہ پرکاش کو یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ اپنا دکھڑا کس کو سنائے اور کون اس کا مداوا کر سکے۔ سچ تو یہ ہے کہ ہم سب اپنے اپنے دائروں میں سمٹ کر رہ گئے ہیں اور ان پر روشنی ڈال کر اپنے خلاؤں کو پُر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جس کے پاس دولت نہیں وہ مساوات کی بات کرتا ہے، جو گھریلو زندگی سے خوش نہیں وہ ساس یا بہو کی شکایت کرتا ہے اور جو ازدواجی زندگی سے تنگ آ چکا ہے وہ اپنی شریک حیات کی بے وفائی کو اجاگر کرنے میں مصروف رہتا ہے۔ ستیہ پرکاش کو سب کی باتیں سننی پڑتی ہیں لیکن اس کی بات کوئی نہیں سنتا۔ وہ ہوں ہاں کرنے کے لیے مجبور ہے جبکہ دوسرا سمجھتا ہے کہ ستیہ پرکاش نے بڑے غور سے اس کی بات سن لی، اس لیے مطمئن ہو کر موبائل منقطع کر دیتا ہے۔ خیر ستیہ پرکاش کو اتنی تسلی ہو جاتی ہے کہ چلو اسی بہانے زندگی کا کچھ وقت تو صرف ہو گیا۔ باقی وقت وہ تنہائیوں کے ساتھ جوجھتا رہتا ہے۔
آج کل اسے اپنے بچپن کے دن بار بار یاد آتے ہیں۔ ان دنوں بزرگوں کی باتیں سننے میں کوئی پس و پیش نہیں کرتا تھا۔ کان دھر کے سنتا اور منہ سے کچھ بھی نہ بولتا۔ کیا مجال کوئی سوال پوچھنے کی جسارت کرے۔ بچے بزرگوں کے تجربات سے مستفید ہو جاتے، ان کی ہدایتوں پر عمل کرتے اور ان کے نقش قدم پر چل کر اپنی زندگی کو راہِ راست پر لانے کی کوشش کرتے۔ قیاس یہ کیا جاتا تھا کہ بزرگوں نے اپنے بال دھوپ میں سفید تو نہیں کیے ہیں، عمر بھر کا مشاہدہ ہے اور وسیع تجربہ ہے جو آنے والی نسلوں کے لیے کار آمد ہو سکتا ہے۔ ان دنوں نہ ٹی وی چینل تھے، نہ ویڈیو اور نہ موبائل۔ بس بزرگوں کو ہی علم کا خزینہ مانا جاتا تھا۔ اب تو انٹر نیٹ ہے، گوگل ہے، جو معلوم کرنا ہو پھٹ سے گوگل سے پوچھ لو، چند ثانیوں میں جواب مل جاتا ہے۔ گوگل انکل کی علمیت تو بزرگوں کی طرح محدود نہیں ہوتی۔ کسی بھی سوال کا فوراً جواب نکال کر سامنے رکھ دیتا ہے۔ پھر وہاٹس اَپ یونیورسٹی بھی ہے جو سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ ثابت کرتی ہے، جعلی ویڈیو بنا کر سامنے رکھ دیتی ہے اور ان میں ایسی ہنروری سے مورف کر کے شکلیں بدل دی جاتی ہیں کہ دیکھنے والا مصرفہ کو ہی سچ مانتا ہے۔ یقین کرنا تو دیکھنے والے پر منحصر ہوتا ہے۔
ستیہ پرکاش بھی موبائل پر وقت گزاری کرتا ہے۔ فیس بُک اور ٹویٹر تو اس کے پسندیدہ سوشل میڈیا ہیں۔ صبح شام لگا رہتا ہے۔ دنیا میں کیا کچھ ہو رہا ہے اسے پوری خبر رہتی ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس نے طالب علمی کے زمانے میں جو تاریخ پڑھی تھی وہ اب سوشل میڈیا میں غلط قرار دی جار ہی ہے۔ اب تو وہ نئے سرے سے تاریخ سیکھ رہا ہے۔ تب تو اشتراکی نظام کو ایک نعمت سمجھا جاتا تھا اور اب ایک لعنت۔ نئے نئے تاریخی ہیرو ابھر رہے ہیں جبکہ پرانے ہیرو نیست و نابود ہو رہے ہیں۔ ستیہ پرکاش ان سب چیزوں سے لطف اندوز ہوتا ہے اور اس کا وقت یونہی کٹ جاتا ہے۔ دن بھر وہ اپنے بے باک خیالات کا اظہار کرتے ہوئے نہیں تھکتا اور جب اس کے پوسٹ کو ڈھیر سارے لائک ملتے ہیں تو بہت خوش ہو جاتا ہے کہ چلو اسی بہانے کسی نے اس کے خیالات کی قدر تو کی۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ اس نے پوری عمر ووٹ ڈالنے سے گریز کیا۔ سوچتا تھا کہ جہاں کروڑوں ان پڑھ جاہل لوگ جذبات میں بہہ کر بغیر سوچے سمجھے ووٹ ڈالتے ہیں وہاں میرے ووٹ کی کیا اہمیت ہے؟ کیا فرق پڑے گا اگر میں ووٹ نہ ڈالوں؟ مگر اب وہ سبکدوش ہو چکا ہے، وقت تو گزارنا ہی ہے اس لیے صبح سویرے ہی الیکشن بوتھ پر پہنچ جاتا ہے اور اپنا ووٹ ڈال کر واپس آ جاتا ہے۔ وہ چاہے نگر نگم کے انتخابات ہوں، اسمبلی کے ہوں یا پھر لوک سبھا کے ہوں۔ وہ اب ووٹ ڈال کر بہت خوش ہو جاتا ہے اور محسوس کرتا ہے کہ اچھا ہوا میں نے اپنی مرضی کی سرکار چننے میں یوگدان دیا ہے۔ اسے اپنے ووٹ کی قدر و قیمت کا احساس ہو چکا ہے۔ لگتا ہے اس کا اعتماد ابھر کر آیا ہے۔ وہ کئی دن انتخابات کے نتائج کا انتظار کرتا رہتا ہے۔
کل ایک عجیب سا واقع پیش آیا۔ آسٹریلیا سے ٹیلی فون پر اس کی بیٹی نے بات کی اور پھر موبائل اپنے دس سالہ بیٹے کو پکڑا دیا۔
بیٹے نے پوچھا: ’’ہیلو نانو! آپ کیسے ہیں؟‘‘
’’ارے سونو، تم، بیٹے کیسے ہو؟ پڑھائی وڑھائی ہوتی ہے کہ نہیں؟‘‘
’’نانو، مجھے پڑھائی میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ میں کتابی کیڑا نہیں بننا چاہتا۔ میں تو روجر فیڈرر اور رافیل نڈال کی طرح ٹینس کھلاڑی بننا چاہتا ہوں۔
’’بیٹے ہمارے زمانے میں یہ سب چیزیں کہاں تھیں۔ ہمیں تو صرف یہ کہا جاتا تھا کہ اپنی زندگی سنوارنی ہے تو اعلیٰ تعلیم حاصل کر لو۔‘‘
’’یو آر رائٹ! ممی تو جب دیکھو تب یہی کہتی ہے کہ نانو گیان کا ساگر ہیں، نانو کو ہر بات معلوم ہوتی ہے۔ ہمیں تو انھوں نے ہی اس مقام تک پہنچایا ہے۔ کیا یہ سچ ہے؟‘‘
’’بیٹے، اس کی باتوں میں مت جاؤ، چونکہ میں اس کا پتا ہوں اس لیے وہ میری عزت رکھنے کے لیے کہتی ہے۔‘‘
’’اچھا نانو، آئی ہیو اے کوسچن فار یو۔ نظام شمسی میں سورج کے گرد کتنے سیارے گھومتے ہیں؟‘‘
’’اوہ، یہ تو معمولی سی بات ہے، بیٹے نو سیارے گھومتے ہیں۔ عطارد، زُہرہ، زمین، مرِّیخ، مُشتری، زُحل، یورینس، نیپچون اور پلوٹو۔
’’یُو آر رونگ، آپ ٹیسٹ میں فیل ہو گئے۔ سیارے تو آٹھ ہی ہیں، پلوٹو کو انٹرنیشنل ایسٹرونومیکل یونین نے اگست ۲۰۰۶ء میں نظام شمسی سے خارج کر دیا تھا۔‘‘
ستیہ پرکاش مخمصے میں پڑ گیا۔ سوچنے لگا کہ میں تو دنیا کی ہر خبر پر نظر رکھتا ہوں پھر یہ چوک کیوں کر ہو گئی؟ بعد میں اپنے آپ کو دلاسہ دینے لگا کہ در اصل گذشتہ صدی میں دنیا اتنی تیز رفتاری سے ترقی کرتی رہی کہ انسان کے لیے تمام جانکاریاں حاصل کرنا مشکل ہو گیا۔
بیٹے کی گفتگو سن کر ماں نے اس کے ہاتھ سے موبائل چھین لیا اور پھر خود باپ سے باتیں کرنے لگی۔ ’’پاپا، اس کی باتوں پر مت جائیے، یہ تو شرارتی لڑکا ہے، ہر کسی کا ٹیسٹ لیتا رہتا ہے۔ پتہ نہیں کونسا بخار چڑھا ہوا ہے اس کو۔ خیر اپنی صحت کا خیال رکھیں اور ڈاکٹر سے وقتاً وقتاً مشورہ لیتے رہیں۔ ہم بھی شاید اکتوبر کے مہینے میں بھارت آئیں گے۔‘‘ اتنا کہہ کر اس نے موبائل کاٹ لیا۔
ستیہ پرکاش گہری سوچ میں پڑ گیا۔ اس بچے نے تو میری آنکھیں کھول دیں۔ معلوم نہیں میں اس حقیقت سے کیوں انکار کرتا رہا کہ میں بیتے زمانے کا آدمی ہوں اور خواہ مخواہ خود کو عالی فہم سمجھتا ہوں۔ در اصل بچے اب ہم سے زیادہ ذی علم ہیں اور ہمیں بہت کچھ سکھا سکتے ہیں۔ ٹیکنالوجی میں ان کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا۔ مجھے تو ایسا لگتا ہے کہ اب مجھے نئی نسل سے مقابلہ کرنے کی بجائے بھگوان کے بھجن گانے چاہئیں۔ یہ دور تو نئی نسل کا ہے، ہم تو آثار متحجر کی مانند دقیانوسی ہو چکے ہیں اور اس بات کا ہمیں اعتراف کرنا چاہیے۔
انھیں خیالات کے ساتھ اس کی آنکھ لگ گئی اور وہ خوابوں کی دنیا میں کھو گیا۔
٭٭٭