انڈیا کے ادبی حلقوں میں حال ہی میں منظر عام پر آنے والے انگریزی ناول The Mirror of Beauty نے ہلچل مچا دی ہے جو دراصل نو سو چوراسی صفحات میں اردو کے مشہور شاعر داغ دہلوی کی والدہ وزیر خانم کی حیات اور ان کے زمانے پر مبنی ایک افسانوی داستان پر مشتمل ہے۔ نیز زیادہ تر انیسویں صدی سے تعلق رکھنے والے دلی شہر اور اس کے مضافاتی ماحول پر مبنی ہے۔ وزیر خانم ایک خوبصورت اور پُر جوش عورت ہے جو بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے مغل دربار سے وابستہ نواب زادوں، ایسٹ انڈیا کمپنی کے انگریز افسران، معاصر شعراء اور دیگر بہت سے ناقابل فراموش کرداروں سے میل جول رکھتی ہے۔ مذکورہ ناول دراصل، 2006ء میں شائع ہونے والے شمس الرحمن فاروقی کے اردو ناول بعنوان ’’کئی چاند تھے سر آسمان‘‘ کا انگریزی ترجمہ ہے۔ (جولائی 2013ء میں دیے جانے والے اس انٹرویو کے موقع پر) اٹھہتر برس کے فاروقی صاحب جو بھارتی پوسٹل سروس سے ایک اعلیٰ بیوروکریٹ کی حیثیت سے سبکدوش ہوئے، اردو کے ادبی حلقوں سے تعلق رکھنے والی ایک نہایت سرکردہ شخصیت ہیں۔ انھوں نے دہلی میں انڈیا انک (India Ink) کے ساتھ اس حوالے سے بات چیت کی کہ اس ناول کے واسطے انیسویں صدی کے دلی پر مبنی ایک دنیا کیسے تخلیق ہوئی نیز انھیں نوجوان قارئین سے کیا توقع ہے کہ وہ اس کتاب سے کیا کچھ حاصل کر پائیں گے۔
سوال: آپ الٰہ آباد میں رہائش پذیر ہیں، جو کہ نسبتاً ایک چھوٹا شہر ہے، اور آپ کی تحاریر کے قارئین زیادہ تر وہ لوگ ہیں جو اردو بولنے والوں میں سے ہیں یا علمی دنیا سے۔ حال ہی میں اورحان پاموک (Orhan Pamuk) جیسے نامور مصنف نے بھی آپ کی کتاب کو ’’ایک معتبر اور حیرت انگیز تاریخی ناول‘‘ کہا ہے۔ آپ کے لیے عالمی سطح پر ادبی توجہ حاصل کرنے کا تجربہ کیسا رہا ہے؟
شمس الرحمن فاروقی : میں اس تمام معاملے سے متعلق بے یقینی محسوس کرتا ہوں۔ میں اپنے آپ کو اس تمام تر توجہ اور بڑائی کا مستحق نہیں سمجھتا ہوں۔ میں نے اپنے مدیر سے کہا کہ اس امر کو جاننے کے باوجود کہ آپ لوگ مجھے ایک دیو قامت شخص کی حیثیت سے پیش کر رہے ہیں، میں اپنے آپ کو چھوٹا محسوس کرتا ہوں۔ مجھے ان چیزوں کو پیچھے چھوڑے ہوئے عرصہ دراز بیت چکا ہے۔ میں نے اپنی زندگی میں، اپنے ہی لوگوں کی جانب سے ہونے والی بے پناہ تنقید کا سامنا کیا ہے اور اس کے ساتھ ہی ستائش، محبت اور شاباشی بھی حاصل کی ہے۔ مجھے اس بات سے فرق نہیں پڑتا، خواہ عالمی ماحول ہو یا الٰہ آباد جیسی دور افتاد جگہ ہو۔ اگر اورحان پاموک میری تعریف میں لکھتے ہیں تو مجھے خوشی ہے؛ اگر وہ نہ لکھیں، تو مجھے کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔
سوال: انگریزی زبان میں لکھاری حضرات عالمی سطح پہ قارئین کو بالعموم فرض کر سکتے ہیں۔ اگرچہ ڈیڑھ سو برس پہلے، اردو زبان کم از کم ہندوستان کی حد تک ایک مشترکہ زبان (یا باہمی رابطے کی زبان یعنی لینگوا فرینکا) تھی، معاصر ادب میں اردو قارئین کی تعداد ایک مخصوص حلقے تک ہی محدود ہے۔ قارئین کے حوالے سے آنے والی یہ تبدیلی، آپ کے ترجمے پر کیسے اثر انداز ہوئی؟
شمس الرحمن فاروقی : اردو مسودے کی بہ نسبت، انگریزی زبان میں مترجمہ ناول کی طوالت قدرے زیادہ ہے، کیونکہ مجھے چند خاص چیزوں کی وضاحت کرنا تھی۔ اور یہ بات قدرے یقینی ہے کہ اردو زبان کے دو مصرعوں کے انگریزی ترجمہ کی خاطر چار پانچ سطریں درکار ہوں۔ ایک نظریۂ ترجمہ کے مطابق، ترجمہ اس وقت تک بے کار ہے تاوقتیکہ ترجمے کی مانند دکھائی نہ دیتا ہو۔ میں اس بات سے بالکل اتفاق نہیں کرتا، کیونکہ جب آپ ایک خاص قسم کے ثقافتی ضابطے اور علامتیت کو ایک یکسر اجنبی زبان میں منتقل کرتے ہیں، تو قاری کو ہر لحظہ اس بات کا احساس دلانا زیادتی ہے کہ ’’ہاں، میں ایک اعلیٰ درجہ کی اردو تحریر کو انگریزی زبان میں پڑھ رہا ہوں‘‘۔ اس کی مثال یوں ہے کہ کسی انگریز خاتون نے ہندوستانی کپڑے زیب تن کیے ہوں۔
سوال: آپ کو انیسویں صدی کے دلی کی دنیا یعنی قالین بافی کی تفصیل سے لے کر درباری آداب تک، تحقیق کرنے اور ا س کی تشکیل ِ نو پر کس چیز نے آمادہ کیا؟
شمس الرحمان فاروقی : میں نے کسی طرح کی منظم اور باقاعدہ تحقیق نہیں کی۔ جیسا کہ میں نے لکھا تھا، میں نے چند کتابوں سے مدد لی جب مجھے کچھ خاص تفصیلات، اور وہ بھی زیادہ تر تاریخوں کی تصدیق کرنے کی ضرورت پڑی۔ یہ کہنا مبالغہ آرائی نہیں ہو گا کہ یہ ناول بے ہنگم اور بے شناخت وجود کی حیثیت سے میرے ذہن میں ہمیشہ ہی موجود تھا۔ حقائق، یا د داشتوں، تاثرات اور یقینی طور پر ناول کو کسی قسم کی شکل دینے سے قبل میرا مطالعہ، یہ سب کچھ ایک بکھری ہوئی صورت میں موجود تھا خصوصاً اس لیے کیونکہ میرے پاس وزیر خانم جیسے اہم کردار کو لکھنے کے واسطے کوئی تصور موجود نہیں تھا۔ بلاشبہ، ماقبل جدید عہد کی فارسی اور اردو شاعری سے اپنی محبت کی دولت کے سبب، میں بے حد و حساب چیزوں سے مالا مال تھا۔ بعد ازاں، میرے گمان سے بھی زیادہ، میرے لاشعور میں اترنے والی شے داستان امیر حمزہ کا مطالعہ تھا۔ جو کہ ڈھیلے ڈھالے انداز میں بیا ن ہونے والا زبانی عشق کا ایک تسلسل ہے جس کی 46 جلدوں، بیالیس ہزار سے زائد صفحات، اور دو کروڑ (بیس ملین) الفاظ کو میں نے پڑھا اور بعض صورتوں میں با رہا پڑھا، تقریباً 1980ء تک۔ میں ہمیشہ کولمبیا یونیورسٹی کی پروفیسر ایمریطس فرانسز پریچٹ (Frances Pritchett) کا احسان مند رہوں گا جنہوں نے داستان کو میری توجہ کا مرکز بنایا۔
سوال: اردو اور انگریزی زبان میں موجود دونوں ناولوں کے لیے آپ نے خود کو انیسویں صدی کی لغت تک پابند رکھا۔ ’’دی مرر اوف بیوٹی‘‘ بہت آسان کتاب ہے، لیکن کیا اردو زبان میں لکھا جانے والا اصل ناول، دیسی اردو بولنے والوں کو چیلنج دیتا ہے؟
شمس الرحمان فاروقی : لوگ اس کی وسعت اور پھیلاؤ کی بدولت سراہ رہے ہیں، لیکن سبھی اس بات پر شکوہ کناں ہیں کہ : آپ نے حاشیہ نہیں دیا، آپ کو ترجمے میں فارسی متن کو شامل کرنا چاہیے تھا۔ یہاں تک کہ پاکستان میں بھی لوگوں نے شکایت کی۔ ایسا نہیں ہے کہ یہ مقبول عام کتاب نہیں تھی، چار سالوں میں وہ دو مرتبہ شائع ہوئی، جو کہ ایک اردو ناول کے لیے قدرے غیر معمولی بات ہے۔ میں نے شعوری طور پر اس ناول کو ایسے انداز میں تیار کیا، ایک ایسی لفظیات میں لکھتے ہوئے جو آج کل استعمال نہیں ہوتی یعنی قدیم اردو زبان جس سے بیشتر لوگ ناواقف ہیں۔ میں نے بالکل پرواہ نہیں کی۔ میں اپنا کام کر رہا تھا۔ مجھے اپنے تصور سے وفاداری نبھانی تھی۔
سوال: ہندوستان اور پاکستان کے انگریزی میں لکھنے والے مصنفین کے مابین ایک مضبوط رابطہ موجود ہے۔ وہ ایک دوسرے کی کتابوں پر تبصرہ کرتے ہیں، ایک دوسرے کی تقریبات میں شرکت کو جاتے ہیں، انعامات کی ایک جیسی فہرست تیار کرتے ہیں۔ اردو زبان میں لکھنے والے پاکستانی اور ہندوستانی مصنفین کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
شمس الرحمان فاروقی: ذاتی سطح پر بہت دوستی ہے۔ بہت حد تک آنا جانا، لکھنا اور تبصرہ نگاری بھی ہے، لیکن بھرپور حوصلہ افزائی نہیں ہے۔ میں بھرپور انداز میں پاکستانی کتاب یا مصنف کی حوصلہ افزائی کر سکتا ہوں لیکن پاکستان کے ادباء ہندوستانی مصنفین کی بھرپور حوصلہ افزائی کرنے سے کتراتے ہیں۔ تقریباً ہر ایک اہم لکھاری جس کی وفات پاکستان میں ہوئی یا جسے اب پاکستانی کہا جاتا ہے مثلاً فیض احمد فیض، ن م راشد، سعادت حسن منٹو، ہندوستان میں ان کے بارے میں سبھی نے لکھا ہے۔ اس کے مقابلے میں آپ کو پاکستان میں ایسی کوئی مثال نہیں مل سکتی۔ بجز اس کے، وہ محبت سے بھرپور ہیں؛ وہ آپ کو کھلائیں پلائیں گے، آپ کی خاطر تواضع کریں گے۔
سوال: آپ نے دیگر چیزوں کے علاوہ انتونیا سوزن بائٹ (Antonia Susan Byatt) اور پیٹر آکرائڈ (Peter Auckroyd) کے تاریخی افسانوں میں اپنی دلچسپی کا ذکر کیا ہے۔ کیا ہندوستان سے متعلق ایسی افسانہ نگاری موجود ہے بالخصوص اس کی مغل تاریخ سے متعلق، جس پر آپ نے نگاہ ڈالی ہے؟
شمس الرحمان فاروقی : انگریزی میں امیتاو گوش (Amitav Gosh) کے ناول ہیں جنھیں میں نے پڑھا اور سراہا: مثلاً بحر گل ہائے لالہ (Sea of Poppies) کے بعد دھوئیں کا دریا (River of Smoke)۔ ان کے اندر بے شمار تاریخ موجود ہے اگرچہ ایک بے حد محدود علاقہ کی تاریخ ہے، جس کا تعلق انیسویں صدی کے اوائل یا اٹھارویں صدی کے آخری دہائیوں کے بنگال سے ہے، بالخصوص افیم کی تجارت کے ساتھ۔ امیتاو گوش کو بلا شبہ اپنے ناول کے مواد پر پوری گرفت حاصل ہے۔
سوال: آپ نے کہا ہے کہ آپ نے ’’The Mirror of Beauty‘‘ کو صرف زمانی اعتبار سے ماضی کا سفر کرنے کے حوالے سے نہیں لکھا ہے۔ کیا آپ اس بات کی مزید وضاحت کریں گے؟
شمس الرحمان فاروقی: میں اس بات کی توقع کر رہا تھا کہ نوجوان لوگ اس کتاب کا مطالعہ کرنے کی بدولت خود اپنی ذات سے واقفیت حاصل کریں گے یعنی وہ کہاں سے آئے، ان کی تشکیل کیسے ہوئی، 1857ء سے پہلے کی دنیا سے جدائی اور کٹ جانے کا درد کے بارے میں۔ اگرچہ یہ پہلے ہی ریزہ ریزہ ہو رہی تھی، ان کے پاس وہ دنیا تھی جو خود شعوری کی حامل تھی، جسے اپنی قدرو قیمت پر یقین تھا، جس کا موازنہ کسی دوسری ثقافت یا کسی بھی معاشرے سے کیا جا سکتا تھا۔ لیکن ان کے استعماری آقا کی جانب سے فراہم کردہ ناموافق معلومات اور پروپیگنڈے کی بدولت ہمیں تھما دی گئی۔ بہرصورت، ہر قسم کے ماضی کی بازیافت سزاوار ہے خواہ ممکنہ طور پر بھدا ترین ماضی ہو۔ لیکن (اس ناول میں پیش کردہ) ہمارا ماضی بھدا نہیں ہے۔ یہ قابل ِ تعریف ماضی ہے۔ اور ہمارا ماضی معاصر عہد کے مقابلے میں نسبتاً زیادہ پڑھا لکھا، تہذیب یافتہ اور نفیس ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ اس ناول کو پڑھنے کی تکلیف اٹھانے والے لوگ، اس کتاب کو اس طور سے آسان محسوس کریں گے کہ کہانی ساتھ چلتی ہے اور قاری کی توجہ کو جذب کرتی ہے اور بالآخر وہ یہ جان لیں گے کہ وہ کہاں سے آئے اور کیا تھے۔
٭٭٭