ابتدا کی طرف واپسی ۔۔۔ احمد رشید (علیگ)

میت کی تجہیز و تکفین کے بعد، دعائے مغفرت ہوئی۔ آہستہ آہستہ لوگ واپس ہو گئے کہ واپسی ان کا مقدر ہے۔ قبرستان میں سناٹا پھیل گیا۔ درختوں کے درمیان سے نکل کر سر پر تیز دھوپ کا بوجھ لیے اپنے بوجھل قدموں کو دھیرے دھیرے سمیٹتے ہوئے قبرستان کے دروازے پر آ گیا۔ سر کو ہاتھوں کی رحل میں رکھے تین سیڑھیوں والے زینہ کے آخری پائیدان پر پریشان حال بیٹھ گیا۔ چہرے کے ورق ورق پر چنتا درج ہے دونوں آنکھوں میں آنسو رکھے ہیں۔ کائنات کی بے ثباتی اور زندگی کے عارضی ہونے کے احساس سے حیران و پریشان ہو کر وہ سوچنے لگا سب بیکار ہے۔ کائنات بے حقیقت اور حیات بے معنی۔ سب فانی، باقی ہے صرف ذات اللہ کی۔ اچانک آہٹ ہوئی، سر اُٹھایا، آنکھیں وا کیں، سامنے کھڑی پُر نور شخصیت کو اپنی نگاہوں کے دائرے میں سمیٹنے کی کوشش کی۔ ایک سفید ریش انسان، رنگ برف کی مانند، چمک دار آنکھیں، کشادہ پیشانی کی سرخی کے درمیان سیاہ گول نشان، جنت نشاں، سفیدبرّاق لباس، کرتا گھٹنوں سے نیچا، پائجامہ ٹخنوں سے اونچا، کُرتے کی جیب سے مسواک کا سر جھانک رہا ہے:

’’تمہارے غم زدہ ہونے کا مجھے کوئی غم نہیں، کیوں کہ راستہ گھر کو گیا ہے اسی ویرانے سے، انسان کو گود میں بھی گور کی یاد رہنی چاہیے۔ گورستان کی وحشت یاد رکھنے سے موت کی دہشت ختم ہوتی ہے۔‘‘

اس کے گوش میں نور کی بوندیں ٹپکاتے ہوئے بزرگ نے اس کی آنکھوں میں جھانکا، ایک نور کی لکیر برق رفتاری سے اس کی آنکھوں میں داخل ہوئی جسم کی تمام شریانوں میں دوٗدھیا لہر کی طرح پھیل گئی۔ اس روشنی میں اس نے اپنی زندگی کے اندھیروں کا احتساب کیا۔ دل بے چین، قلب بے سکون ہوا۔ وہ سبک سبک رونے لگا۔۔ ۔ آنسوؤں کے راستے سیاہی رفتہ رفتہ زائل ہوئی۔ وہ اُٹھا، بزرگ نے کمر پر دائیں ہاتھ رکھا ان کے ساتھ ساتھ دھیرے دھیرے نظر جھکائے چلنے لگا۔ اچانک دھیان آیا وہ جھٹکے کے ساتھ بزرگ کے بائیں جانب آ گیا۔ راہ گیروں سے بے خبر وہ نہایت خاموشی سے با ادب چل رہا ہے۔

بزرگ گویا ہوئے ’’میزان حقوق العباد پر بنے گی اور تمہاری آزمائش حقوق اللہ میں ہے۔ خدمت خلق کائنات کی سب سے بڑی عبادت ہے۔ کتاب و سنت کی اتباع میں اللہ کی رضا ہے۔ ہر باطن، جس کا ظاہر مخالف ہے باطل ہے۔ ذکر و فکر اور شکر فصل کو وصل میں بدلنے کا راستہ ہے۔‘‘

شراب طہورہ میں اس کا روم روم ڈوب گیا۔ اس کی آنکھیں نشہ کی کیفیت سے بند ہو گئیں جب کھلیں تو گھر کے دروازے پر تنہا کھڑا تھا… کیا تھا؟… کیا ہوا؟… خواب تھا؟… حقیقت تھی!… غم تھا نہ خوشی۔ بس ایک ناقابلِ بیان سرور کا احساس باقی تھا۔

گھر میں داخل ہوا۔ بوسیدہ دیواریں چڑیلوں کی طرح کالے کالے دانت نکالے، خوف ناک قہقہے لگا رہی ہیں، برسوں سے ان میں ٹیپ بھری گئی اور نہ مرمت ہوئی۔ قلعی ہونے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ڈیڑھ یا دو فٹا پتلے زینے کی نو سیڑھیاں چڑھ کر چھ بائی نو کا چھوٹا سا کمرہ جو مہمان خانہ بھی ہے، میں چار بائی چھ کے ایک تخت پر پرانا سا بستر بچھا ہے جس پر بوڑھے والد عمر تقریباً اسّی سال لیٹے بیٹھے، سوتے جاگتے، نماز و تسبیح پڑھتے رہتے ہیں۔ کھانا پینا، چیخ پکار، سخت کلامی اسی تخت پر بیٹھ کر کرتے ہیں۔ اب بھی تخت پر بیٹھے تسبیح کے دانے اُلٹ رہے ہیں۔

’’السلام علیکم‘‘ اس نے ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھیری والدین کو مسرور نگاہوں سے دیکھنے سے ایک مقبول حج کا ثواب ملتا ہے اور جتنی بار دیکھا جائے گا۔ اتنے ہی مقبول حجوں کا ثواب ملے گا۔

’’وعلیکم السلام‘‘ اپنی گدیلی سی بڑی بڑی آنکھیں کھولیں جو کبرسنی کی وجہ سے خرگوش کی طرح چھوٹی چھوٹی دکھائی دے رہی ہیں۔

’’بڑی دیر لگا دی، کہاں گئے تھے؟‘ ابّا نے دھیمی آواز میں پوچھا۔

’’میرے ایک دوست کا انتقال ہو گیا۔ رات کے آخری حصہ میں بے چینی ہوئی، دل گھبرایا، ہارٹ اٹیک ہوا، موت واقعہ ہو گئی، فرسٹ ایڈ کی بھی مہلت نہیں ملی۔‘‘ اس نے آہستہ آہستہ روداد سنائی جس کے ایک ایک لفظ سے درد ٹپک رہا ہے۔

بوڑھا شخص خاموش بیٹھا اسے ٹُکر ٹُکر دیکھ رہا ہے اس کی آنکھوں سے زار و قطار آنسو بہہ رہے ہیں۔۔۔۔

’’کیوں روتا ہے ؟ اللہ کی امانت تھی اس نے واپس لے لی۔‘‘ اچانک باریش بزرگ کی آواز اس کے کانوں میں گونجنے لگی۔

اس نے جلدی جلدی آنسو پونچھے، امّی کی تلاش میں ادھر اُدھر آنکھیں چلائیں۔ دوسرے کمرے کے دائیں جانب دروازے پر نظر ڈالی۔ اسٹوو کی سَن سَن میں روٹی پکنے کی پھٹ پھٹ کی آواز دب رہی ہے۔ کمزوری اور بیماری کی وجہ غریبی ہے، حالاں کہ بوڑھا ہونے کے لیے ساٹھ سال کوئی زیادہ عمر نہیں ہوتی۔ مگر وہ کیا کرے ؟ جو نصیب میں لکھا ہے وہی تو ہو رہا ہے۔ اگر دولت صرف محنت سے ملتی تو ہر مزدور دولت مند ہوتا۔ دولت کا تعلق قسمت سے جڑا ہے … وہ سوچتا ہے اماں کو کھانسی کا ٹھسکا، ابّا کو استھما۔ جب انھیں پھندا لگتا، سانس لینا مشکل ہو جاتا ہے … چہرہ انگارے جیسا سرخ، آنکھوں سے سرخی مائل پانی، سینہ پر دونوں ہاتھ رکھے جیسے دل کو دبانے یا روکنے کی ناکام کوشش کے اس منظر کو دیکھ کر آنکھیں آنسوؤں سے بھر جاتی ہیں … اس کے علاوہ چارہ کیا ہے، سوائے صبر و شکر کے ؟ وہ والدین کی خدمت میں حاضر باش رہتا۔ باپ باب الفردوس، ماں کے پیروں تلے جنت، مسلمان کے لیے یہی تحفۂ آخرت بھی ہے۔

پڑوسیوں کا خیال رکھنا، مخلوق کے ساتھ حسنِ اخلاق کے ساتھ پیش آنا، پنج گانہ نماز با جماعت خشوع و خضوع کے ساتھ ادا کرنا اس کی زندگی کا معمول تھا لیکن باریش بزرگ کے دیدار کے بعد معمولات نے عادت کی صورت اختیار کر لی جس میں خلوصِ نیت اور خشیت بھی شامل ہو گئی ہے۔ ادھر کچھ عرصہ سے بے چینی کی شدت میں اضافہ ہو گیا ہے۔ شب بیداری نیند سے راضی با رضا کا معاملہ ہوتا ہے، یہاں تو نیند پر شب خوں راضی بے رضا کا سلسلہ سا بن گیا ہے۔ ان دنوں چین کے ساتھ نیند بھی کھو گئی ہے۔

’’بیٹا اُٹھ جا، اذان ہونے والی ہے۔‘‘ اماں نے آواز لگائی۔

’’میں جاگ رہا ہوں۔ ‘‘ وہ اُٹھا… جاڑوں کی آدھی رات گزر چکی ہے، وضو کیا، تہجد پڑھی۔ ابھی فجر ہونے میں چار گھنٹے باقی ہیں۔ اماں کو بڑھاپے اور کمزوری کی وجہ سے نیند نہیں آتی، اُٹھا کر خود سو گئی، چڑیا جیسی نیند اور جگار… ابا جاگتے زیادہ ہیں، زیادہ کھانسی یا دماغی خشکی کی وجہ سے۔ لیکن یہاں نہ بڑھاپا ہے، نہ کھانسی نہ دماغی کمزوری۔ بستر پر لیٹے ہوئے بھی ذہن جاگتا ہے۔ وہ جائے نماز پر بیٹھا رہا… تلاوتِ قرآن کرتا رہا۔۔ ۔ یادِ الٰہی میں مصروف رہا۔ فجر کی اذان ہوئی… با جماعت نماز پڑھنے کے لیے مسجد دوڑ لگائی… اشراق کی نماز ادا کر کے گھر واپس ہوا۔ اماں دسترخوان لگائے انتظار کر رہی ہے۔ خشک بیسنی روٹی ایک چھوٹی سی تھالی میں رکھی ہے … دو پیالیوں میں چائے سے بھاپ نکل رہی ہے۔

’’بیٹا تجھے پسند ہے! بیسنی روٹی خستہ ہوتی ہے آسانی سے چبنے میں آ جاتی ہے … تیرے ابا کا بھی اسی سے پیٹ بھر جاتا ہے۔‘‘ اماں نے دھیرے دھیرے بات کہی۔

وہ اماں کی باتوں کو خوش اخلاقی سے سن رہا ہے۔ سوچ رہا ہے بیسنی روٹی مجھے اصلی گھی میں تر پسند ہے۔۔ ۔ لیکن اصلی گھی مہنگائی کی وجہ سے نصیب کہاں! بچپن سے مزدوری کی، ابا بھی مزدوری کرتے تھے دونوں کی کمائی ملا کر گھی جیسی جنس میسر آتی۔ پھر اماں اور ابا کے دانت کہاں جو گیہوں کی روٹی چبا سکیں۔ ہردن بیسنی روٹی پسند اور ناپسند کے دائرے میں نہیں آتی… بلکہ یہ تو مجبوری ہے … اور… مجبوری بندہ کا مقدر اور مختاری تو اللہ ہی کو حاصل ہے۔ اماں ابا کے ساتھ کھانا نہیں کھاتی چوں کہ ابا کھانے میں کھانستے زیادہ ہیں۔ اماں کو کراہیت ہوتی ہے۔ ہاں مجھ اور خود سے پہلے کھانا اور ناشتہ ابا کو پہلے سجاتی۔ یہ اس کی شوہرپرستی کی دلیل ہے بھلے ہی شوہر پسندی نہ ہو چوں کہ جوان بیٹے کے سامنے باپ دوئم درجہ کی چیز ہو جاتی ہے۔

’’کھا بیٹا… روٹی ٹھنڈی ہو جائے گی۔ ‘‘

’’ہاں …‘‘ اس نے آدھی روٹی کھا کر چائے پی لی۔

اماں خاموشی سے گردن جھکائے سوچ رہی ہے۔ عبد الحنان کو یہ کیا ہو گیا ہے کہ کم بولتا ہے، اگر اس کے ابا بولیں تو بھی مختصر جواب پھر خاموشی۔ میں بولوں ہونٹوں پر خفیف سی مسکراہٹ اور ’’ہاں ہوں‘‘ مختصر جواب کے بعد خاموشی۔ اس قدر خاموشی سے گھر میں قبرستان جیسی خاموشی چھائی رہتی ہے۔ رات رات بھر جاگتا رہتا ہے، جانے کیا کیا سوچتا ہے؟ وہ سمجھتا ہے اماں سوتی ہے لیکن اماں کروٹیں بدلتی ہے۔ اس کے ابا کو بھی یہ معلوم ہے کہتے ہیں ’’اب ہمارا بیٹا بہت کم بولتا ہے پہلے ٹکر ٹکر بولتا تھا۔ جب ٹوکا جاتا تھا تب ہی خاموش ہوتا تھا۔۔ ۔۔‘‘ میں نے بوڑھی ہو کر ڈیڑھ روٹی کھائی اور وہ آدھی روٹی کھاکر دسترخوان سے اُٹھ گیا۔ مجھے اپنے بڑھاپے پر غیرت آئی کہ وہ جوانی میں کم کھاتا ہے … میں نے اپنی اس تشویش کا اظہار اس کے ابا سے کیا۔ انھوں نے کہا تمہیں بات کرنا مجھے ٹھسکا آتا ہے، بات کرنے میں دقّت ہوتی ہے۔

اترتی سردی کی کھلتی ہوئی رات ہے۔ آسمان پر مسکراتے ہوئے ستارے رقص و سرود میں مست ہیں۔۔ ۔ خنک ہوا، سبک خرامی سے موسم کی خوش گواری میں اضافہ کر رہی ہے۔ آنگن میں بچھی چارپائی پر چت لیٹا عبد الحنان جھلملاتے آسمان کو آنکھوں میں سمیٹنے کی کوشش میں مگن ہے۔

’’بیٹا۔‘‘

’’جی اماں۔‘‘

’’میرا بڈھاپا ہے … اب کھانا مجھ سے بنتا نہیں ہے، ایک بہو لے آ۔‘‘

اس کا چہرہ فق پڑ گیا… کچھ بات نہیں بنی… منمنا کر رہ گیا اور ہونقّوں کی طرح ماں کو دیکھنے لگا۔

’’میرے کام میں ہاتھ بٹائے گی… گھر میں رونق آ جائے گی۔‘‘

’’اس عمر میں تم اتنا کام کرتی ہو۔ مجھے احساس ہے … مگر ماں میں ابھی شادی نہیں کرنا چاہتا… (چند لمحے توقف کے بعد) عبد المنان کی کر دو۔ ‘‘

’’وہ ابھی چھوٹا ہے … پھر یوں تھوڑی ہوتا ہے کہ چھوٹا بھائی کی شادی ہو جائے اور بڑا بیٹھا رہے۔ ‘‘

اس طرح کی ٹوکا ٹاکی کرنا اماں کا معمول بن گیا تھا۔ وہ سوچتا ہے ادھر تو اماں کا بڈھاپا اوپر سے بے حد کمزوری… ابا کی حالت بھی قابلِ رحم ہے … اپنی بیماری کی وجہ سے اماں کی مدد بھی نہیں کرپاتے … سانس ان کو چین نہیں لینے دیتی۔ سانس کا ہونا، سانس کا لینا، زندگی کی علامت ہے … لیکن ابا کے لیے موت کی علامت بن گیا ہے … لے۔ کن… لیکن موت تو حقیقت ہے، مالک حقیقی سے ملاقات کرنے کا ایک سفر… اور سفر انسان کی تقدیر ہے … کائنات میں آنا، کائنات سے جانا… ایک مقام سے دوسرے مقام تک کا سفر… تلاش، جستجو، آرزو سب ہی سفر ہی کے دوسرے نام ہیں … اور ایک رات کے آخری حصہ میں وہ ایک سفر میں نامعلوم منزل کی تلاش میں نکل پڑا… چلتے چلتے چاروں طرف اندھیرے میں گونجتی ہوئی… چُر، چُر … پھٹ پھٹ… بگ ٹٹ… کی آوازوں کے درمیان سے چپکے چپکے صبح بتدریج نمودار ہوئی… جنگل کے بیچ سے گزرتی ہوئی پگڈنڈی کے دونوں اطراف اُگے گھنے درختوں کے، چھن چھن کر آتی ہوئی سورج کی کرنوں سے کبھی کبھی آنکھیں چکا چوند ہو جاتیں … پرندوں کے چہچہانے کی سریلی سُرتال اس کے کانوں میں رس سا گھول رہی ہیں۔ ان کے رسیلے گیتوں میں تقدیس و تہلیل کی خوشبو سے اس کا ذہن معطر ہو رہا ہے۔ وہ دل ہی دل میں انسان کی ناشکری پر اظہارِ تاسّف کرتا ہے کہ رب العالمین کی توصیف بیان کرنے اور ثنا خوانی کرنے میں لا پرواہی برتتا ہے۔

چلتے چلتے شہر سے بہت دور نکل آیا ہے۔ دھوپ چاروں اطراف پھیل چکی ہے۔ پگڈنڈی سے جڑی ہوئی کالی سڑک کے دونوں اطراف لق دق میدان میں دور دور اکّا دُکّا شیشم کے درخت نظر آتے ہیں۔ ایک پُلیا جس کے نیچے سے چوڑی نالی نکل رہی ہے، جو ٗن کی گرمی سے سوکھ چکی ہے۔ سرخ مٹی کی چٹختی ہوئی پپڑیاں پانی کی جگہ جم گئی ہیں۔ برسات میں نالا بھر کر چلتا ہے تو راہ گیروں کے لیے یہ پُلیا بڑی کار آمد ثابت ہوتی ہے … لیکن زیادہ بارش ہونے سے پانی اس کے اوپر بہنے لگتا ہے اور دور دور تک سڑک بھی پانی کے نیچے غائب ہو جاتی ہے۔ وہ تھکا ماندہ اس پُلیا پر سرجھکائے بیٹھ گیا۔ اچانک کوئی سایہ اس کے اوپر آ کر گرا، کانوں میں آہٹ سی ہوئی اس نے چونک کر دیکھا کہ وہی باریش بزرگ سامنے کھڑے ہیں۔

’’یا ارحم الراحمین کی ذات اقدس سے مایوس ہونا کفر ہے۔‘‘

’’جی… بزرگ‘‘ اس نے چونک کر کہا۔

’’خداوند تعالیٰ اس کو دوست رکھتا ہے، جس میں دریا جیسی سخاوت، آفتاب کی سی شفقت اور زمین کے مانند ضیافت ہو۔‘‘

’’جی…‘‘ وہ نیچی نگاہ کیے با ادب کھڑا رہا۔

’’فکر و عمل کے درمیان فاصلہ توڑنا ہے۔ عیب اپنے، نیکی دوسری کی دیکھنا ہے۔ نفس موٹا ہوتا ہے تو روح کمزور ہوتی ہے۔ سامنے کی حقیقت بھی خلاف شریعت ہو قبول نہ ہو گی۔ خارقِ عادت شے شریعت کی استقامت پر گواہ نہ ہو تو وہ مکر و فریب ہو گا۔ ظاہری طہارت بغیر باطنی طہارت کے منافقت ہے۔‘‘

’’بزرگ میرے سینہ میں آگ سی جلتی ہے لیکن میرے چاروں طرف اندھیرا ہی اندھیرا ہے … آنکھوں کو کچھ سجھائی نہیں دیتا۔‘‘ اس نے اپنی افسردگی کا اظہار کیا۔

’’اس آگ کو بجھنے نہیں دیتا… اسی کی روشنی میں صراطِ مستقیم تلاش کرو۔‘‘ بزرگ نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں۔

ایک روشنی کی لکیر اس کے جسم میں سرایت کر گئی… اس کے سحر اور سرور میں وہ ڈوب گیا جب آنکھ کھلی سامنے سے بزرگ غائب ہو گئے۔

گرمی سخت ہے، تپش کی شدت سے پسینہ میں شرابو وہ جانب منزل گامزن ہے۔ نئی توانائی کے ساتھ نہ تکان، نہ تھکن بس لگن اور جب لگاؤ ہوتا ہے تو کانٹے دار کمبل کی طرح دھوپ بھی مخملی چادر میں بدل جاتی ہے۔ وہ تیز قدموں سے سڑک پر چل رہا ہے، سامنے سے لال مٹی کی آندھی تیز رفتاری سے اس کے اوپر سخت دباؤ بنا رہی ہے۔ اس میں دھکا سا لگتا، کپڑوں کو سمیٹتا ہوا سنسان راستے سے گزر رہا ہے … دائیں ہاتھ پر قبرستان میں ہٗو کا سا عالم ہے۔ اس کے آخری سرے پر پیاؤ کے برابر سے پہاڑ کی اونچائی کے لیے ایک چوڑا راستہ لال پتھروں سے پختہ کر دیا گیا ہے۔ چوٹی پر شاہ ابدال بابا جو پہاڑ بابا کے نام سے مشہور ہیں، کے مزار شریف پر زائرین کی بھیڑ جمعرات کی فاتحہ خوانی کے لیے جمع ہے۔ باہر دروازے سے پانچ گز دور پیاؤ کے قریب وضو خانہ پر لوگ ٹھنڈا پانی پی رہے ہیں، وضو کر رہے ہیں اور ایک دوسرے کے پیچھے قطار میں کھڑے ہو جاتے ہیں۔ مزار کے اندر داخل ہونے کے لیے تین فٹ چوڑا اور پانچ فٹ اونچا دروازہ ہے۔ لوگ دروازے سے جھُک کر نکلتے ہیں کہ کہیں ما تھا دہلیز سے نہ ٹکرا جائے۔ آنکھوں کے سامنے پہاڑ والے بابا کا مزار شریف ہے۔ بھیڑ جب کم ہوئی وہ بھی پوری احتیاط سے اندر داخل ہوا ’’السلام علیکم یا اہلِ القبور‘‘ منھ ہی منھ میں کہا۔ اور شیشم کے درخت کے نیچے کھڑے ہو کر خاموشی سے نظارہ دیکھنے لگا۔ عصر و مغرب کے درمیان چڑھتا سورج مغرب میں اُتر رہا ہے، اس کے چاروں طرف خون کی سرخی پھیل رہی ہے … عورتیں اور مرد ایک پلیٹ میں گلاب اور گیندے کی پنکھڑیاں ایک ہاتھ میں بتاشوں کی پڑیا لیے سر جھکائے مزار شریف جا رہے ہیں۔ سیڑھیوں پر ماتھا ٹیکتے، مزار کے گرد چکر لگاتے۔ مجاور جو مزار کے قریب ستون سے کمر لگائے بیٹھا پھولوں کی پلیٹ اور بتاشوں کی تھیلی ہاتھ میں لیتا اور ایک کنسٹر میں ڈال لیتا۔ ہر شخص فاتحہ خوانی کر کے بڑے احترام سے مزار کی جانب چہرا کیے، کمر کی طرف سے سیڑھیوں سے اُتر جاتا۔ اگر بتی اور لوبان کا دھواں مزار کے چاروں طرف پھیل رہا ہے، مجاور مور پنکھ جھاڑو زائرین کے چہروں پر مارتا۔ کبھی کبھی مزار شریف کے اوپر بڑے احترام سے لہراتا، ’’آگے بڑھو… جلدی کرو کی آواز‘‘ لگاتا… تھوڑی دیر بعد مجمع ہلکا ہو گیا۔ مجاور بتاشے اور پھولوں کی ڈلیا لے کر چلا گیا۔ مزار کی سلطنت میں سناٹے کی حکومت قائم ہو گئی… اللہ ہوٗ، اللہ ہوٗ کی آوازوں سے سناٹا سحر انگیز ہو رہا ہے۔ پُر اسرار ماحول چاروں طرف طاری ہے۔ وہ ابھی تک گھنے درخت کی شاخ پکڑے خاموش کھڑا ہے۔ سامنے سبز لباس میں ملبوس شیخ ’’خانقاہ تمہاری کائنات ہے اس کے باہر جھانکا تو بھٹک جاؤ گے‘‘ کو دیکھ کر چونک گیا… شیخ نے بنا بولے اس کا بایاں ہاتھ اپنے داہنے ہاتھ میں لیا اور بایاں ہاتھ پشت پر رکھے۔ دھیرے دھیرے قدم دائیں جانب شانِ بے نیازی سے آگے بڑھائے اور ایک حجرے میں داخل ہوتے ہوئے ’’دنیا سے دشمنی گوشہ نشینی، مردم بے زاری، قربت الٰہی کے لیے ضروری ہے‘‘ سرگوشی کی۔

حجرے کا منظر پُر اسرار سناٹے میں ڈوبا ہوا ہے۔ پکی چھت کے نیچے چار ستونوں کے نیچے مریدین درجہ بندی کے لحاظ سے دنیا ما فیہا سے بے خبر اپنے اپنے ’’مرحلہ‘‘ میں غرق آنکھیں بند کیے ہیں۔ اوّل ستون سے کمر لگائے ’’ذکر بالجہر‘‘ قلب کی جانب ضرب کے ساتھ جاری ہے۔

’’قلب پر ضرب لگاتے ہوئے پوری قوت لگانی چاہیے تاکہ قلب اس کا اثر محسوس کرے اور ذہن کو یکسوئی حاصل ہو۔ یہاں ایسا عالم محسوس ہو کہ جہاں اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی چیز نہ مطلوب ہے، نہ محبوب‘‘ شیخ نے آہستہ سے کہا۔

اس کی نگاہ دوسرے ستون کی جانب گئی۔

شیخ نے کہا ’’ذکرِ خفی۔ پہلے مرحلہ میں عشق الٰہی کی آگ دل میں بھڑک اُٹھے گی… یہاں زبان خاموش ہو جائے گی۔ دنیا سے کلیتاً بے رغبت ہو کر صرف اللہ تعالیٰ کی ذات میں مستغرق ہو جائے گا۔‘‘

اس نے دیکھا سالک پر محویت کا عالم طاری ہے۔

’’یہ مقام فنا کی ابتدا ہے جیسے جیسے سالک مراقبے میں پیش رفت کرے گا کیفیت کا اعلیٰ مقام حاصل کرے گا۔‘‘ شیخ گویا ہوئے۔

اس کی حیران اور ششدر نگاہ تیسرے ستون پر گئی ایک مرید کائنات اور کائنات کی ہر شے سے بے خبر ہوش و ادراک سے دور، آنکھیں بند کیے مراقبہ کی حالت میں ہے۔

’’یہ سُکر کی کیفیت… سوائے خدا کے کچھ نظر نہیں آتا‘‘ اشارتاً شیخ نے کہا۔

وہ نہایت سنجیدگی سے جذب و کیف کے عالم کو دیکھ رہا ہے … اس کی آنکھیں آنسوؤں میں ڈوب گئیں، تھوڑی ہی دیر میں زار و قطار آنسو بہنے لگے۔

بزرگ نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا… ’’خاموش رہنا، غم و اندوہ میں ہونا، ایک راستہ ہے سلوک کا۔ سالک کی آخری منزل حالت صحو ہے یہاں وہ محسوس کرتا ہے کہ ہر عمل اللہ تعالیٰ کے قبضے میں ہے۔ حق تعالیٰ ہی اپنی قوت و جبروت سے اس کو بھی بخشتا ہے۔‘‘

یہ کہہ کر شیخ مراقبہ میں چلے گئے۔ حجرہ میں خاموشی چھا گئی فقط اللہ ہوٗ کا منظر طاری ہو گیا۔ چاروں طرف روشنی کی لکیریں تانے بانے کی مانند بُن گئیں۔

وہ سلوک کے پہلے مرحلہ کے لیے ذکر بالجہر میں شب و روز پوری ترتیب اور ضابطہ کے ساتھ مشغول ہو گیا۔ دو مہینہ کے عرصہ میں روزانہ چار ہزار درود کے بعد ذہن اللہ تعالیٰ پر مرکوز ہوا اور عشقِ الٰہی کی آگ دل میں بھڑک اُٹھی۔ اس کمال کے حاصل ہو جانے پر ذکرِ خفی ’’اللہ سمیع‘‘، ’’اللہ بصیر‘‘ اور ’’اللہ علیم‘‘ الفاظ کو عرشِ الٰہی سے کھینچ کر دماغ میں، پھر قلب اور پھر ناف میں، ذکر نفی و اثبات کے ساتھ کیا۔ زبان خاموش ہو گئی لوگوں سے میل جول ترک، دنیا سے بے رغبت ہو کر صرف اللہ تعالیٰ کی ذات میں مستغرق ہونے پر اس نے اپنے کو فانی محسوس کیا، اسے لگا راکھ کے ڈھیر کو ہوائیں اڑائے دے رہی ہیں، کائنات کی ہر چیز پارہ پارہ ہو گئی ہیں، صرف حق تعالیٰ شانہٗ کی ذات موجود ہے … کائنات کی ہر شے فانی باقی ذات صرف اللہ کی۔ سلوک کی دوسری منزل میں کثرت کے تمام جلوے یک لخت مٹ گئے، عقل کھو گئی، حیران و پریشان، کائنات کی کسی چیز کا ہوش نہیں رہا اور نہ اپنی ذات کا۔ اس کو سوائے خدا کے کچھ نظر نہیں آتا… اس پر سُکر کی کیفیت طاری ہو گئی۔ جب سُکر سے اصل حالت کی طرف واپس ہوا تو اس نے خدا اور بندے کے درمیان فرق کی طرف مراجعت کی، اسے محسوس ہوا کہ جیسے کوئی پہاڑ کے اوپر چڑھ کر نیچے گر پڑے۔

اب وہ حالت صحو میں آ گیا ہے، اس نے محسوس کیا کہ اس کا ہر عمل اللہ تعالیٰ کے قبضے میں ہے۔ حق تعالیٰ ہی قوت عطا کرتا ہے اور وہی اس کے تمام افعال و احوال کو اپنے علم اور ارادے کے مطابق وجود عطا کرتا ہے۔

جب وہ اسرارِ الٰہی کا راز دار اور انوار الٰہی سے منور ہوا، شیخ نے خصوصی نظر کرم کی۔ اس کا دائیں ہاتھ پکڑ کر اوپر کی طرف اُٹھایا اور آسمان کی طرف اشارہ کیا ’’کیا دیکھتا ہے؟‘‘

’’اب تو یہ عالم ہے کہ عرش اور حجاب عظمت تک کی چیزیں پوشیدہ نہیں ہیں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیسے آنکھوں کے سامنے کوئی پردہ ہی نہیں۔‘‘ اس نے محویت کے عالم میں کہا۔

شیخ نے سبز رنگ کا لباس پہنوایا، خرقہ خلافت سے سرفراز کیا۔ ’اس شخص کو جوانی میں مقتدایان کامل کا مقام بلند حاصل ہو گیا۔‘‘

حلقہ میں بیٹھے تمام مریدین کے چہروں پر خفگی کے آثار نمایاں ہو گئے۔

’’خلافت کا عمر سے کوئی تعلق نہیں، یہ سعادت، ریاضت اور عبادت سے ملتی ہے۔‘‘ شیخ نے کہا۔

فوراً سمع کی محفل کا اہتمام ہوا۔ حمد اور نعت کی گونج میں ماحول ڈوب گیا۔ خوش گلو شخص کی پُر درد اور پُرسوز آواز سے ’’حال‘‘ کی کیفیت طاری ہو گئی۔

چند لمحے بعد، چنگ و رباب اور مردنگ کی تھاپ پر جب قوالیوں کا دور شروع ہوا تو وہ چونک کر بیدار ہو گیا۔ اچانک اس کے منھ سے نکلا ’’سماع میں ذوق، دردِ دل اور سوزِ قلب سے ہوتا ہے، نہ کہ مزامیرسے۔‘‘ نظر اُٹھائی دیکھا شیخ غیر حاضر تھے۔

اس نے مریدوں سے کہا ’’خلافِ شرع ہے‘‘ کہہ کر اُٹھ گیا… اور مزار شریف سے باہر نکل کر قصد سفر کیا اور جنگل کی جانب چل دیا۔

سڑک درمیان میں پل صراط کی طرح پڑی ہے، بائیں جانب چٹیل میدان پر آگ برس رہی ہے، سورج سوا نیزے پر اُتر آیا ہے اور سرخ مٹی شعلے اُگل رہی ہے۔ چاروں طرف مٹی کے غبار مٹی کی طرح اڑتا ہوا محسوس کر رہا ہے۔ دائیں جانب طویل القامت درخت صف باندھے کھڑے ہیں۔ پستہ قد رکوع میں جھکے ہیں، خنک ہوا شانِ بے نیازی سے پیر و مرشد کی طرح چل رہی ہے۔ اسے کاروبار زندگی سے کوئی مطلب نہیں، نہ دنیا سے کچھ لینا دینا۔ فقط نیک چلنی سے چلنا ہے کبھی شدہ شدہ روی سے کبھی تیز قدموں سے۔ چھوٹے چھوٹے پودے ہوا کے دباؤ سے سربہ سجود ہیں۔ برگ و بار جھوم جھوم کر درود و سلام پڑھ رہے ہیں۔ ایک عجیب و غریب کیف و سرور کا منظر ہے۔ اس نے نظر اُٹھائی، دور پہاڑ کی اودی چوٹی پر نیلی چادر کی اونچائی کوہساروں کی تنی ہوئی گردن کا غرور چکنا چو‘ر کر رہی ہے۔ عرش بریں کے سامنے آسمان گردن جھکائے دست بستہ کھڑا ہے۔ درختوں کے درمیان ایک خانقاہ کے پیچھے وسیع و عریض نہر دیکھی جس میں اشیا کی صورتیں سایوں کی طرح نظر آ رہی ہیں اور اس میں نئی نئی موجیں اُٹھ اُٹھ کر انوارِ الٰہی کے نغمے گنگنا رہی ہیں۔ اس نے خوش نما منظر کا خوب لطف اُٹھایا۔ جب اس پر سحر اور سرور کی کیفیت طاری ہوئی، سامنے باریش بزرگ اپنی خانقاہ میں مراقبہ کی حالت میں ہیں وہ دو زانو، ذرا فاصلے پر بیٹھ گیا۔ جب باریش بزرگ بیدار ہوئے ان کی نظر کیمیا اثر اس پر پڑی اور یوں مخاطب ہوئے۔

’’عقل مند کون ہے؟‘‘ بزرگ نے پوچھا۔

’’دنیا کو ترک کرنے والا۔‘‘

’’بزرگ کون ہے؟‘‘

’’جو کسی چیز سے متغیر نہ ہو۔ ‘‘

’’دولت مند کون ہے؟‘‘

’’قناعت کرنے والا۔‘‘

’’محتاج کون ہے؟‘‘

’’قناعت نہ کرنے والا۔‘‘

’’اس کائنات کو بے ثبات جان، جان کو بے جان، حیات عارضی، ذاتِ الٰہی باقی ہے۔‘‘ اس نے خاموشی سے گردن ہلائی۔

’’تارک الدنیا ہونا، رہبانیت اختیار کرنا، دوسرے ادیان کی پیروی ہے ورنہ اسی دنیا میں تقویٰ کے ساتھ رہ کر دنیا سے بے رغبت رہنا اصل صوفی کا مسلک ہے۔‘‘

’’جی۔‘‘

’’حیات و کائنات، تہذیب و تمدن، آفتاب و مہتاب، ستارے و سیارے سب ابتدا کی طرف واپس ہو رہے ہیں۔‘‘

’’ابھی دو دن ہی گزرے ہیں کہ روحانی لذت و حلاوت دل و دماغ پر چھا گئی ہے۔‘‘ اس نے بزرگ سے کہا۔

’’جنگل میں رہنے کے بجائے مخلوق خدا کے درمیان میں رہ۔ میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ تجھے نیک بخت بنائے۔ انشاء اللہ تم ایسا درخت ہو گے جس کے سایہ میں مخلوق خدا آرام پائے گی اور فیض پائے گی۔ تم مجاہدہ برابر کرتے رہنا، اس سے غافل نہ ہونا۔‘‘ باریش بزرگ نے اس کے سر پر ہاتھ رکھا اور اس نے گھر کی واپسی کے لیے قصد سفر باندھا۔ نئی صبح کا سورج اندھیرے کی چادر پھاڑ کر طلوع ہو رہا ہے اور سارا منظر انوارِ الٰہی میں ڈوب رہا ہے۔

٭٭٭

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے