ہندوستانیت کا نمائندہ شاعر فراقؔ ۔۔۔ ڈاکٹر رؤف خیر

فراق گورکھپوری ابتدا میں بڑے روایتی شاعر تھے۔ پیارے صاحب رشید کے جانشین شیخ مہدی حسن ناصری (1885-1931) میور سنٹرل کالج الہ آباد میں عربی و فارسی کے اسسٹنٹ پروفیسر تھے۔ آں جہانی کالی داس گپتا رضا کی تحقیق کے مطابق فراق نے 1915 میں اسی کالج سے ایف۔ اے کا امتحان کامیاب کیا تھا 1915 سے 1918 کے اپنے تعلیمی دور میں فراق نے ناصری سے اصلاح لی پھر امیر مینائی کے شاگرد وسیم خیر آبادی سے اپنے کلام پر اصلاح لیتے رہے۔ کم از کم چھ سال تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ ماہ نامہ ’’تحفۂ خوشتر‘‘ شمارہ اپریل 1926 میں فراق کی ایک غزل وسیم خیرآبادی کی اصلاح کے ساتھ شائع ہوئی ہے۔ وسیم خیر آبادی کے انتقال 1929 کے بعد فراق نے کسی اور کی شاگردی اختیار نہیں کی۔

فراق گورکھپوری ہندی سے اچھی طرح واقف تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ انگریزی کے پروفیسر ہونے کی وجہ سے مغربی ادب سے بھی کماحقہ، آشنا تھے چنانچہ ان کی شاعری پر ہندی اور انگریزی شاعری کے اثرات دیکھے جا سکتے ہیں بلکہ شعوری طور پر ہندی و انگریزی شعریات سے استفادہ کرتے ہوئے فراق نے اردو زبان و ادب کو ایک نئے ذائقے سے آشنا کیا۔

نظموں غزلوں کے ساتھ ساتھ فراق نے رباعیات بھی کہیں جن میں فارسی آمیز تراکیب کے بجائے سرل ہندی الفاظ برتے گئے جو ’’روپ ‘‘ کے نام سے منظر عام پر آئیں۔ ان رباعیات میں ہندوستانی عورت کی ذات و صفات کی عکاسی کی گئی۔ قلی قطب شاہ و نظیر اکبر آبادی کے فکری سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے فراق گورکھپوری نے اردو ادب کو ہندوستانی ادب بنانے کی جد و جہد کی۔

فراق کے بارے میں یہ بھی مشہور ہے کہ وہ اپنے فکر و فن پر خود ہی مضامین لکھ کر دوسروں کے نام سے شائع کرواتے تھے۔

(ملاحظہ ہو جگن ناتھ آزاد کا مضمون، مطبوعہ کتاب نما۔ جنوری ۱۹۸۳)

فراق گورکھپوری نے برج نارائن چکبست اور سرور جہاں آبادی کی طرح اردو میں ہندوستانی عناصر اور ہندو میتھولوجی پیش کی۔ کربلائی واقعات پر مشتمل مرثیوں کے نمونے پر چکبست نے رام چندر جی کی راجہ دسرتھ سے جدائی اور بن باس کے واقعات بیان کیے تھے اسی طرح فراق نے اپنی نظم ’’ہنڈولہ‘‘ میں ہندو کرداروں کا خاکہ کھینچا ہے۔

نظم ’’ہنڈولہ ‘‘ کا ابتدائی حصہ کچھ اس طرح ہے:

دیار ہند تھا گہوارہ۔ یاد ہے ہمدم

بہت زمانہ ہوا۔ کس کے کس کے بچپن کا

اسی زمین پہ کھیلا ہے رام کا بچپن

اسی زمین پہ ان ننھے ننھے ہاتھوں نے

کسی سمے پہ دھنش بان کو سنبھالا تھا

اسی دیار نے دیکھی ہے کرشن کی لیلا

یہیں گھروندوں میں سیتا، سلوچنا، رادھا

کسی زمانے میں گڑیوں سے کھیلتی ہوں گی

بستر علالت سے خیالات پریشاں کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں:

فراق گرم سخن ہے مذاق بند کرو

وہ دیکھو ہو گئے سنجیدہ سب در و دیوار

فراق نے اپنی رباعیات میں بھی آسان زبان میں ہندوستانی کلچر پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کی رباعیات کا مجموعۂ ’’روپ‘‘ ان کی ہندوستانیت پر مہر تصدیق ثبت کرتا ہے۔ ان کی ایک رباعی ہے:

ہر نقش اجنتا کا وہ چلتا جادو

وہ حسن و جمال کے بدلتے پہلو

وہ بت سازی کہ جان پتھر میں پڑے

ہے تاج کہ رخسار قضا پر آنسو

ایک اور رباعی میں فراق بعض ہندوستانی شاعروں کی فکر پیش کرتے ہیں:

شاعر ترے جس وقت صدا دیتے ہیں

سوئے ہوئے سپنوں کو جگا دیتے ہیں

آفاق کے مندر میں وہ نغمے ان کے

رہ رہ کے گھنٹیاں بجا دیتے ہیں

اجنتا میں گوتم بدھ کا ایک ایسا بت ہے جسے سامنے سے دیکھیں تو سنجیدہ تصویر لگتا ہے دائیں سے دیکھیں تو یہی بت مسکراتا دکھائی دیتا ہے اور بائیں سے اگر نظر ڈالیں تو یہی روتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ حسن و جمال کے ان بدلتے پہلوؤں کی فراق نے خوب عکاسی کی ہے۔

فراق نے تاج محل کی خوب صورتی بیان کرتے ہوئے اسے قضا کے رخسار پر ٹھیرے ہوئے آنسو سے تشبیہ دی ہے۔ آفاق کو دیکھنے کا فراق کا اپنا انداز ہے وہ آفاق میں گم ہیں۔

ان کی ابتدائی روایتی شاعری کی مثال کے طور پر کچھ اشعار پیش کیے جاتے ہیں:

کیا کہیں آئے تھے کس امید سے کس دل سے ہم

اک جنازہ بن کے اٹھے ہیں تری محفل سے ہم

 

اپنی نظر کا تجھ کو نہیں اعتبار کیا

یہ بار بار پرُسشِ بیگانہ وار کیا

 

وہ رات فراق ہے یاد مجھے اب تک وہ صبح نہیں بھولی

جو کٹتے کٹتے کٹتی تھی جو ہوتے ہوتے ہوتی تھی

 

اس کے بعد فراق گورکھپوری اپنا لب و لہجہ اختیار کر کے ایک منفرد اسلوب اپنانے لگے

 

بہت پہلے سے اُن قدموں کی آہٹ جان لیتے ہیں

تجھے اے زندگی ہم دور سے پہچان لیتے ہیں

 

طبیعت اپنی گھبراتی ہے جب سنسان راتوں میں

ہم ایسے میں تری یادوں کی چادر تان لیتے ہیں

 

کسی کا یوں تو ہوا کون عمر بھر پھر بھی

یہ حسن و عشق تو دھوکا ہے سب مگر پھر بھی

 

ہزار بار زمانہ ادھر سے گزرا ہے

نئی نئی سی ہے کچھ تیری رہگزر پھر بھی

 

سر میں سودا بھی نہیں دل میں تمنا بھی نہیں

لیکن اس ترک محبت کا بھرو سا بھی نہیں

 

دل کی گنتی نہ یگانوں میں نہ بیگانوں میں

لیکن اس جلوہ گہ ناز سے اٹھتا بھی نہیں

 

مہربانی کو محبت نہیں کہتے اے دوست

آہ اب مجھ سے تجھے رنجش بے جا بھی نہیں

 

ایک مدت سے تری یاد بھی آئی نہ ہمیں

اور ہم بھول گئے ہوں تجھے ایسا بھی نہیں

دیکھئے کیسی صاف ستھری آسان زبان اور کیسا دل نشیں اسلوب فراق نے اختیار کیا ہے۔

فراق کی شاعری میں مغربیت پر مشرقیت (ہندوستانیت) حاوی ہے۔ انھوں نے بھلے ہی انگریزی ادب کے اثرات قبول کیے ہوں، انھیں اس قدر ہندیالیا Indianised کر دیا کہ اس میں غیریت کی جگہ اپنائیت پیدا ہو گئی، ’’اردو غزل کی روایت اور فراق‘‘ پس نوشت میں جناب شمس الرحمن فاروقی نے فرمایا:

’’زبان و بیان اور اسلوب کی خامیوں کے باوجود فراق کی شاعری کی دو خصوصیات (کیفیت اور مغرب سے استفادہ) کے بل بوتے پر آپ چاہیں تو فراق کو غزل کا شہنشاہ اعظم مان لیں۔ جو پنچوں کی رائے وہ میری‘‘۔

فاروقی صاحب نے فراقؔ سے موازنہ کرتے ہوئے کبھی ناصر کاظمی تو کبھی احمد مشتاق کو فراق سے بڑا شاعر بھی قرار دیا ہے۔

ظفر ادیب نے اپنی کتاب گفت و شنید لکھا: ’’فراق گورکھپوری میرؔ و مومنؔ کے درمیان کی چیز ہیں‘‘

مگر نہ وہ میرؔ ہوئے نہ مومنؔ بنے بلکہ کہیں کہیں تو حسرتؔ موہانی کی پرچھائیں بھی ان پر پڑتی ہے۔ لیکن فراق نے اردو شاعری کی روایت سے انحراف کر کے اچھوتا خیال بھی پیش کیا ہے۔

 

ذرا وصال کے بعد آئینہ تو دیکھ اے دوست

ترے جمال کی دوشیزگی نکھر آئی

 

یہ زندگی کے کڑے کوس یاد آتا ہے

تری نگاہ کرم کا گھنا گھنا سایہ

 

اس دور میں زندگی بشر کی

بیمار کی رات ہو گئی ہے

 

اِکّا دُکّا صدائے زنجیر

زندان میں رات ہو گئی ہے

 

تم مخاطب بھی ہو قریب بھی ہو

تم کو دیکھوں کہ تم سے بات کروں

 

فراق جس خود اعتمادی سے شعر کہا کرتے تھے اسی خود اعتمادی سے آنکھیں گھما لھما کر شعر پڑھا بھی کرتے تھے۔

 

فراق گرم سخن ہے مذاق بند کرو

وہ دیکھو ہو گئے سنجیدہ سب در و دیوار

 

فراق کا جمالیاتی نقطۂ نظر یک لخت مادّی نوعیت کا تھا۔ ان کا عشق قطعی زمینی تھا اس میں روحانیت کے وہ قائل نہ تھے۔ اس معاملے میں وہ حسرتؔ و داغؔ سے بھی دو قدم آگے تھے۔ فراق پر ترقی پسندی کے اثرات بھی رہے ہیں۔ اس لیے ان کا لہجہ بے باک ہے اور وہ اپنی بے باکی پر شرماتے نہیں۔ اپنے نقطۂ نظر کے جواز کے پہلو ڈھونڈ کر اپنے قاری کو قائل کروانا بھی چاہتے ہیں۔ اس لیے ان کے اس پہلو پر گفتگو کرتے ہوئے ہمیں بھی جھجکنے کی اور کسی قسم کی ہچکچاہٹ کی ضرورت نہیں۔ شاعری کے علاوہ فراق نے تنقید نگاری بھی کی ہے اور اپنے نظریات کا دفاع بھی کیا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اردو ادب کے سنجیدہ قارئین ان کی جمالیات کی زمینی سطحیت سے متفق نہیں ہو سکتے۔ فراق کے عشق کی سطح ’’جمالیاتی‘‘ سے زیادہ ’’حیاتیاتی‘‘ نوعیت کی ہے۔ ’’اردو کی عشقیہ شاعری‘‘ میں فراق کہتے ہیں:

’’عشق ایک شدید ترین احساس کا نام ہے۔ بنیادی طور پر یا مرکزی طور پر اس کا مخزن یا تعلق جنسیات یا شہوانیات میں ملے گا‘‘

امرد پرستی کے تعلق سے بھی فراق جو کچھ کھل کر کہتے ہیں اس سے بہت ممکن ہے افتخار نسیم جیسے لوگ اتفاق کریں۔ فراق فرماتے ہیں:

’’آپ اِسے غیر فطری کہیں خواہ مکروہ اور ذلیل۔ خواہ آپ تعزیرات ہند کا سہارا لیں۔ یہ یاد رہے کہ جو لوگ امرد پرستی کے مرتکب ہیں وہ نہ تو جرائم پیشہ ہوتے ہیں نہ ذلیل نہ رذیل نہ کمینے۔ نہ عام طور سے خراب آدمی ہوتے ہیں بلکہ کئی امرد پرست تو اخلاق، تمدن اور روحانیت کی تاریخ کے مشاہیر رہے ہیں۔  جیسے سقراط، سیزر، مائیکل انجلو، (صوفی) سرمد، شیکسپئیر اور دنیا پھر میں لکھوکھا آدمی جو امرد پرست رہے ہیں، وہ نہایت شریف انسان رہے ہیں ‘‘

(صفحہ ۳۵۔ ۳۶۔ اردو کی عشقیہ شاعری )

فراق گورکھپوری بسیار گوئی میں اپنا جو اب آپ تھے ان کی بعض غزلیں تو ترسٹھ ترسٹھ اشعار پر مشتمل ہوتی تھیں۔ ان کی اس بسیار گوئی کے تعلق سے سوال کیا گیا تو فراق نے جواب دیا تھا کہ وہ اس طرح قافیے کے امکانات چمکاتے ہیں مگر یہ قافیہ پیمائی فراق کے کچھ کام نہ آئی بس چند شعر ہی چونکا سکے جو نئے اسلوب کے ترجمان تھے۔

فراق سے ان کے معاصر ین بھی متاثر تھے۔ ناصر کاظمی، احمد مشتاق، شاذ تمکنت پر فراق کے اثرات دیکھے جا سکتے ہیں۔ کچھ شاعروں نے تو فراق کی زمینوں میں غزلیں کہی ہیں۔

فراق کے مزاج میں ہندوستانیت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی لہذا شیریں فرہاد، لیلیٰ مجنوں، عذرا وامق کی جگہ انھوں نے سسی پنوں، نل دمن کو حسن و عشق کی علامتوں کے طور پر اپنی شاعری میں برتا۔ فارسی تراکیب سے اجتناب کیا۔ ان کے کلام میں ہندی کی سجل گھلاوٹ بلکہ نرماہٹ پائی جاتی ہے۔ ان کی تخلیقات ایرانی ذوق اور ہندوستانی مذاق سے عبارت ہیں۔ ایسی ہی ملی جلی کیفیت کے حامل ان کے کئی اشعار زبان زدِ خاص و عام ہیں۔ لوگ چاہے کتنا ہی دعویٰ کر لیں فراق کے مرتبہ و مقام کو پہنچ نہ سکیں گے۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے