نعت کہنے کی جسارت کی ہے۔ قلم کانپتا ہے۔ نعت کی مہک سورہ آل عمران کی آیت 61 یعنی آیت مباہلہ سے کشید کرنے کی سعادت حاصل کی ہے۔ نعت آزاد نظم میں ہے۔
’’تم اپنے مرد لے آؤ
ہم اپنے مرد لاتے ہیں
تم اپنی عورتیں لاؤ
ہم اپنی عورتیں لاتے ہیں
اور پھر خود کو لے آؤ
ہم اپنے خود کو لاتے ہیں
تمہیں ہم یوں بلاتے ہیں۔۔۔۔۔!!!‘‘
یہ جو نجران سے نصرانیوں کا وفد آیا ہے
بڑا ہنگام لایا ہے
چنیدہ
سربرآوردہ بشپ اور پادری
انجیل کے حافظ
پرانے عہد نامے کے مفسّر اس میں شامل ہیں
نہایت شان و شوکت اور شکوہ و تمکنت ہے
سطوت و جبروت ہے
بس جس طرف دیکھو
ہر اک فرغل میں موتی ہیں
ہر اک جبّے میں تارے ہیں
ہر اک کی ریشمی چادر میں سونے کے شرارے ہیں
یہ جب پلّو جھٹکتے ہیں
تو جھلمل اس قدر بوچھاڑ کرتی ہے
کہ گلیوں میں مچلتی ریت کے ذرے چمکتے ہیں
مدینے کے در و دیوار پر جگنو دمکتے ہیں
انہیں کتنی سہولت ہے
کہ سارے مسجد نبوی کے اندر
رو بہ مشرق ہو کے اپنے عہد نامے کی عبادت کر رہے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گفتگو آغاز کرتی ہے
جو اک جانب ہر اک برہان پر مہرِ نبوت ثبت ہے
تو دوسری جانب
مسیحی گردنوں میں بھاری مالائیں ہیں
جن میں گفتگو کرتی صلیبیں جھولتی ہیں
جھنجھناتی ہیں
تو پھر تثلیث اور وحدانیت کی بحث طولانی ہوئی
اور حجتی لہجوں میں شدت آ گئی
اب پیشتر اس کے
کہ کج بحثی در آئے
خَلطِ مَبحث بات کی منطق پراگندہ کرے
تو طے ہوا
کہ اب ترازو درمیاں لانی پڑے گی
جو بھی جھوٹا ہو
اسے اپنی ہلاکت کی قسم کھانی پڑے گی (Imprecation تو بس اک duel ہوتا ہے
کہ اس میں ایک جانب کی ہلاکت لازمی ہے)
طے ہوا آخر
تم اپنے مرد لے آؤ
ہم اپنے مرد لاتے ہیں
تم اپنی عورتیں لاؤ
ہم اپنی عورتیں لاتے ہیں
اور پھر خود کو لے آؤ
ہم اپنے خود کو لاتے ہیں
مباہَل اپنی بیٹھک شہر سے باہر لگاتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تو پھر
یہ دیکھنے والوں نے دیکھا
ایک جانب ساٹھ نصرانی
چنیدہ علم سلطانی
صحیفوں کی عبارت میں اتر کر آسماں کی سیڑھیاں چڑھتے
فلک پیما
مقدس آیتوں کی راہداری میں سفر کرتے
مسافر
شہر سے باہر کھلے صحرا میں بیٹھے ہیں
یہی وہ لوگ ہیں
جو حال ماضی اور آئندہ کو
اپنے علم کے ہاون میں رکھ کر پیستے ہیں
اور پھر اس کا سفوف
آبِ حیات اور سوم رس میں گھول کر پیتے ہیں
روشن ہو کے وہ
کون و مکاں کو ایک خط پر اس طرح سے دیکھتے ہیں
جس طرح تحریر ہو
جیسے کوئی تصویر ہو
پھر دیکھنے والوں نے دیکھا
دوسری جانب
اچانک روشنی نے اپنی مٹھی کھول دی ہے
اور پانچوں انگلیاں چمکار دیتی ہیں
تو ایہم نے کہا:
’’اے حارثہ بن علقمہ!
یہ کون بچہ ہے جو ان کی انگلی تھامے چل رہا ہے؟
ہو بہو ان سا ہے
یوں لگتا ہے ان کا ہاتھ تھامے ان کا بچپن چل رہا ہے‘‘
بشپ حارث یہ سن کر مسکرایا
اور بولا:
’’سیدی!
یہ تو شباہت کا اثاثہ ہے
نواسہ ہے۔۔۔۔!!!‘‘
تو پھر عاقب نے پوچھا:
’’قیس بتلاؤ
شب معراج جیسی اون کی کالی عبا سے جھانکتا
یہ کون بچہ ہے
جو ان نے گود میں لپٹا کے رکھا ہے
اور اس بچے کے پیاسے ہونٹ کتنے خشک ہیں
اب دیکھئے
حلقوم پر اک چیر آ جاتا ہے
اور جب دیکھئے
اڑتے فرشتے ہاتھ کے پھاہے سے
گردن کے لہو کو صاف کرتے ہیں۔۔۔؟‘‘
خویلد قیس سے پہلے ہی بول اٹھا:
’یہ ظلمت کے مقابل روشنی کا استغاثہ ہے
نواسہ ہے۔۔۔۔۔!!!‘
اوس بن حارث نے پوچھا:
’’سیدی ایہم!
یہ بی بی کون ہے
جو ان کے پیچھے
ان کے نقش پا پہ اپنے پاؤں دھرتی آ رہی ہے؟
اور کلائی کے کڑے میں
آستیں سے جھانکتی
جنت کے دروازوں کی ساری چابیاں لٹکی ہوئی ہیں
جن کے گردا گرد
فردوسِ بریں کے جھنڈ سے چلتی ہوا مہکار دیتی ہے
وہ چلتی ہے تو اس کی آستیں جھنکار دیتی ہے‘‘
تو ایہم نے کہا:
’’پیارے
رئیل اسٹیٹ اس کی ہے
یہ جس نے کہکشاؤں سے بنی چادر لپیٹی ہے
یہ بیٹی ہے۔۔۔۔!!!‘‘
خویلد نے کہا:
’’یہ کون ہے
جو سب سے پیچھے آ رہا ہے
جس طرح طوفان آتا ہے؟‘‘
تو عاقب نے کہا
’’بھائی
یہی تو ہے
جو سب کچھ ہے
یہ جب یلغار کرتا ہے
تو دیو اندام دروازوں کی کیلیں ٹوٹ جاتی ہیں
یہ جب نہج البلاغہ میں قدم رکھتا ہے
تو مد مقابل کی دلیلیں ٹوٹ جاتی ہیں۔۔۔۔۔!!!‘‘
’’یہ کِن کا کوندتا کنبہ ہے
کن کا ہے؟‘‘
’’یہ ان کا ہے۔۔۔۔!!!‘‘
’’یہ کس کا خاندان آتا ہے
صحرا جن کے قدموں سے لپٹ کر آج رشکِ آسماں ہے
یہ پریوار اس طرح سے پاؤں دھرتا ہے
کہ جیسے کوئی فاتح
اپنے مفتوحین کی سہمی ہوئی گلیوں میں چلتا ہے
یہاں تو نوریوں کے نور دیتے پنکھ جلتے ہیں
سو بہتر ہے
کہ ہم نجران چلتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔!!!!‘‘
٭٭٭