نظمیں ۔۔۔ مصحف اقبال توصیفی

وہ سنگھار کرتی ہے؎

 

مرد ہی سکھاتا ہے

ایک پل کے جادو میں

زاوئیے بدن کے سب

سارے دائرے، قوسین

کیسے رقص کرتے ہیں

پھر وہ بھول جاتا ہے

سچ ہے۔ کوئی جذبہ ہو

چائے کی پیالی ہو

میز۔ آدمی۔ کرسی

ہجر۔ وصل، ہر شئے کی

ایک عمر ہوتی ہے

مرد اپنی ہی دھن میں

اپنی راہ چلتا ہے

کچھ بھٹک بھی جاتا ہے

یاد تک نہیں آتا

گھر سے کب وہ نکلا تھا

مرد بھول جاتا ہے

دوستوں کی محفل میں

اپنی کامرانی کی

داستاں سناتا ہے

قہقہے لگاتا ہے

 

وہ سنگھار کرتی ہے

اک پرانا آئینہ

اپنے ہاتھ میں لے کر

اس کو یاد آتا ہے

اپنا ایک گزرا پَل

ایک بند کمرے میں

اک چٹائی۔ اک کمبل

اور صحن میں باہر

پھول، پھل درختوں پر

ساری خوشبوئیں لیکن

جیسے اس کے تکیے پر

سارے ذائقے جیسے

اب بھی اس کے ہونٹوں پر

ایک قطرہ آنسو کا

مسکرانے لگتا ہے

اس کی آنکھ کا کمرہ

جگمگانے لگتا ہے

 

وہ سنگھار کرتی ہے

بات ہو وہ صدیوں کی

یا وہ بات ہو کل کی

اس کو یاد آتی ہے

مرد بھول جاتا ہے

٭٭٭

؎ یہ نظم منٹو کے اس خیال کی صدائے بازگشت ہے جب کچھ ایسی ہی بات منٹو نے ’’نگارخانہ‘‘ ( دو ہزار برس پرانی دامودر گپت کی نظم ’’کٹنی متّم‘‘ کا ترجمہ از میراجی) پر پیش لفظ لکھتے ہوئے کہی تھی۔

٭٭٭

 

 

اک انجانی بستی میں

 

دنیا تجھ سے پوچھوں گا

کیوں پھیلائے

مجھ پر اپنے جال

 

تو کیوں میرے آگے

ایسی بن ٹھن کے آئی

میں نے اپنی سدھ بدھ بسرائی

میرے دل میں

بس تیرا ہی ایک خیال

 

تیری گٹھڑی میں

میرے روز و شب کے

سارے آئینے

میرے خد و خال

میرے ہجر وصال

 

دنیا نے تجھ سے ملوں گا

اک انجانی بستی میں

تیرے محور تیرے ثقل کے مرکز سے

نوری سالوں دور

دنیا تجھ سے ملوں گا ضرور

اور کروں گا تجھ سے کئی سوال!

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے