خاکستری خواب کا موجد
بے مثل فکشنسٹ، قدیم دوست اسلم سراج الدین کی یاد میں
خوابِ خاکستری کا سفر
طے نہیں ہو سکا
کُنجِ دل میں کہیں
کوئی حسرت
اُٹھاتی ہے سر
عشق کے کھیل میں
قرمزی حرف جیسے
کبوتر تخیّل کی چھتری سے اُتریں
غُٹر غُوں .. غُٹر غُوں
تواریخ کے
سال ہا سال ادراک سے
اَن چھُوئی کینوس پر بناتا ہے تصویریں
’وہ‘
’ٹِلے باشے کا چھجوا‘
’یہ پینٹنگ ہے ‘
لیکن
کسی جسم کے جلنے کی بُو پہ رُو مال کیوں
آج کے مُنصفوں نے رکھا
ناک پر
یہ جو BIG BANG کے بعد کی
اوّلیں ساعتیں
صاف و شفاف پانی کے
چاندی کٹوروں میں
اس عہد کا گدلاپن
دیکھ سکتے ہیں ہم
بانٹتا ہے تہی ہاتھ لوگوں میں
اَن دیکھی جاگیریں
سُرخاب کے پر تھماتا ہے
ویران آنکھوں کو
سوچوں کی قندیل کی آنچ میں
نرم نیلاہٹیں پھیلتی ہی چلی جا رہی ہیں
اگرچہ ابھی خوابِ خاکستری کا سفر
طے نہیں ہو سکا
ماورائی منازل کی سطحوں کو
چھُوتا ہوا
ایک ذہنِ رسا
زندگی کے ORIGIN کی
جِدّت کا رَسیا
پرندہ کوئی
اپنی حیرت میں گُم
اور نہتّی مسافت کے تلوؤں کے
خارِ مُغیلاں کا حسّاس
اک داستاں گو
٭٭٭
اسلم صاحب 3 دسمبر 2013 کو وفات پا گئے تھے
ادرک کا قہوہ
ہاتھ
میں
ہاتھ ہے
ایک پری کا
ادرک کے قہوے کا
خُوشبُو دار دھُواں
گھنے اشجار کے کُنج تلک لے جاتا ہے
خوابوں کی کُٹیا ہو جیسے
چرواہی کی
بھیڑوں کے پیچھے پیچھے
بھیڑیئے کی ہے تھوتھنی خون آلُود
قطرہ قطرہ
لہُو
چراگاہوں کو
چاٹ رہا ہے
سرما کی آمد پر
اُون
خریدنے آئے تھے
واپسی کا رستہ کھو بیٹھے ہیں
گرمائِش لیتے لیتے
غیر آباد سفر کی دُوری کی دلدل میں
مچھلیاں بن جاتے ہیں
برفانی ریچھوں کے زمِستاں کی
منظر کور بہانہ
کسی مہک کا حیلہ ہمیں لِئے پھرتا ہے
٭٭٭