نئی تنقیدی جہات۔ ایک جائزہ ۔۔۔ سلیم انصاری

عبدالمتین جامی اڑیسہ کے قابل ذکر قلم کار ہیں، وہ بنیادی طور پر شاعر ہیں اور غزل کے علاوہ رباعیات ان کی تخلیقی ریاضت کا حصہ ہیں۔ اب تک ان کی غزلوں کا ایک مجموعہ نشاطِ آگہی کے نام سے منظرِ عام پر آ چکا ہے جبکہ ان کی رباعیات کے دو مجموعے بساطِ سخن اور مونسِ سخن کے نام سے شائع ہو چکے ہیں، جس سے ان کی شعری اور تخلیقی دلچسپیوں کا پتہ چلتا ہے۔ ان کی نئی کتاب ’’نئی تنقیدی جہات‘‘ کے نام سے حال ہی میں شائع ہوئی ہے جس سے ان کے نثری رجحانات کا نہ صرف اندازہ ہوتا ہے بلکہ ان کے تنقیدی رویوں کا بھی پتہ چلتا ہے۔

’’نئی تنقیدی جہات‘‘ میں شامل مضامین کی نوعیت مختلف ہے جس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ عبدالمتین جامی ایک کثیر المطالعہ شخص ہیں اور ان کی دلچسپیاں شاعری کے علاوہ نثر سے بھی گہری ہیں اور وہ ادب میں نئے تخلیقی تجربات، رجحانات اور تحریکات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ کتاب میں شامل پہلا مضمون ’’جدیدیت، مابعد جدیدیت‘‘ ہی میری اس رائے کی دلیل کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔ ما بعد جدیدیت کا تصور مغرب میں اگرچہ خاصا پرانا ہے مگر بر صغیر میں یہ رجحان ذرا دیر سے آیا۔ ما بعد جدیدیت اور جدیدیت میں واضح فرق ہے جسے ہندوستان میں اس کے بنیاد گزاروں ڈاکٹر گوپی چند نارنگ اور نظام صدیقی وغیرہ نے بہتر انداز سے سمجھایا ہے خصوصاً۱۹۸۰ء کے بعد کی جانے والی شاعری میں جدیدیت کے دور کی شاعری کے مقابلے فکر و احساس کی سطح پر زیادہ تازہ کاری محسوس کی گئی، شاید اسی لئے اسے مابعد جدیدیت سے موسوم کیا گیا۔ ۱۹۸۰ء کے بعد کے ادب میں فرد کی تنہائی، بکھراؤ، تشکیک، بے یقینی، بے چہرگی اور بے زمینی سے آگے فکر و اظہار کی آزادی اور کھلے پن پر زیادہ زور دیا گیا ہے۔ عبد المتین جامی نے اپنے اس مضمون میں اردو کے مستند اور معتبر ناقدین کی آراء کے حوالے سے جدیدیت اور مابعد جدیدیت کی بنیادی اور موجودہ صورتِ حال پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ مگر وہ خود اسے جدیدیت کی توسیع سمجھتے ہیں، جس سے ہمارے بہت سے اکابرینِ ادب اختلاف رکھتے ہیں۔

اپنے ایک اور مضمون ’’غزل نما کے بانی ظہیر غازی پوری اور آزاد غزل‘‘ میں عبدالمتین جامی نے آزاد غزل اور غزل نما کے بنیادی محرکات اور ان اصناف کے امکانات اور موجودہ صورتِ حال پر عمدگی سے اظہارِ خیال کیا ہے یہ بات سچ ہے کہ آٹھویں دہائی میں آزاد غزل پر بہت مباحثے ہوئے بلکہ دیکھا جائے تو قلم کاروں کی پوری برادری ہی دو حصوں میں تقسیم ہو گئی، ایک آزاد غزل کی حمایت میں دوسری اس کی مخالفت میں۔ کئی رسائل نے آزاد غزل کی ترویج و اشاعت میں اہم رول ادا کیا جن میں کوہسار بھاگلپور، اسباق پونے وغیرہ اہم ہیں، آزاد غزل کے کئی مجموعے بھی شائع کئے گئے، اس کی حمایت اور مخالفت میں ڈھیر سارے مضامین شائع کئے گئے، بے شمار مباحث ہوئے، یہاں تک کہ پابند غزل کی مخالفت میں بھی باقاعدہ تحریک چلائی گئی۔ مگر اب موجودہ صورتِ حال یہ ہے کہ آزاد غزل اور غزل نما سے لوگوں کی دلچسپی تقریباً ختم ہے جبکہ پابند غزل کی مقبولیت میں اضافہ ہی ہوا ہے اور اس نے اپنا دائرہ اردو کے علاوہ ہندوستان کی دیگر زبانوں تک وسیع کیا ہے۔ آزاد غزل جس میں ہر مصرع بحر میں ہوتے ہوئے بھی مساویِ الوزن نہیں ہوتا، جب کہ غزل نما میں ہر شعر کے دونوں مصرعے مساویِ الوزن ہوتے ہیں۔ یہی فرق ہے آزاد غزل اور غزل نما کے فارمیٹ میں۔ عبد المتین جامی نے اپنے اس مضمون میں تفصیل سے ذکر کرتے ہوئے کئی متنازعہ فیہ باتیں بھی لکھ دی ہیں۔ مثلاً ’’ظہیر غازیپوری نے اگرچہ اپنے چند احباب و مدیر کوہسار کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے اپنی پابند غزلوں کی شکل بگاڑ کر آزاد غزل لکھنے کی ابتدا کی مگر ان کی یہ کوشش تین چار غزلوں سے آگے نہیں بڑھی، بعد میں موصوف نے غزل نما کی تخلیق کا آغاز کیا جس کی ادبی حلقوں میں کافی پذیرائی ہوئی۔‘‘ یہاں اس بات سے اختلاف کی گنجائش موجود ہے کہ ظہیر غازیپوری نے جو آزاد غزلیں لکھی ہیں وہ در اصل ان کی پابند غزلوں کی بگڑی ہوئی شکل ہے، میرے خیال میں ایسا محض اس بنیاد پر کہا گیا ہو گا کہ بعد میں ان کی آزاد غزلوں بشمول مظہر امام پابند غزلوں میں کامیابی سے تبدیل کر دیا گیا۔

شفق کے ناول ’’کانچ کا بازیگر‘‘ کا مطالعہ کرتے ہوئے عبدالمتین جامی نے نہایت عرق ریزی کر کے اس ناول کے محرّکات ور مضمرات کو سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ ملک کی تقسیم کے پس منظر میں لکھے گئے اس ناول کے بارے میں وہ رقم طراز ہیں کہ ’’شفق کے ناول کو پڑھنے سے قبل قاری کو اپنے ذہن میں امیج یا علامت کو قبول کرنے کا موڈ پیدا کرنا ضروری ہے، تبھی جا کر صحیح لطف حاصل کیا جا سکتا ہے۔ محض خالی الذہن ہو کر اس کے مطالعے میں کوئی لطف نہیں آئے گا۔ شفق کی علامتیں عجیب و غریب ہیں، مگر مافوق الفطرت ہستیاں ہر گز نہیں ہیں۔ ہمارے ہی معاشرے میں چلتے پھرتے مختلف لوگ ہیں جو مختلف اوقات میں مصنف کے ذہن میں بدلی ہوئی شکلوں میں ابھرتے ہیں۔‘‘

سعید رحمانی کی شاعری پر شامل مضمون میں عبدالمتین جامی نے ان کی شاعری کا عروضی مطالعہ کیا ہے جو ایک خوش آئند امر اس اعتبار سے بھی ہے کہ اب ہماری نئی نسل کے شعراء میں عروض سے دلچسپی بہت کم ہوتی جا رہی ہے جو یقینی طور پر ایک افسوسناک صورتِ حال ہے۔ اس مضمون میں عبد المتین جامی نے روشن عبارت کی غزلوں کا تفصیلی جائزہ لیا ہے اور یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ سعید رحمانی کی شاعری میں ایک طرح کی سادگی اور پُرکاری ہے، شاعری کی گرامر اور فنی باریکیوں پر وہ خاصی دسترس رکھتے ہیں اس کے علاوہ یہ انکشاف کرنے میں وہ حق بجانب ہیں کہ سعید رحمانی کے یہاں بعض اوقات شعروں میں ایسے مضبوط مصارع بھی ظہور پذیر ہوتے ہیں جو اپنے طور پر ہی مکمل خیال کو ادا کرنے پر قادر ہوتے ہیں۔ اپنی اس رائے کے ثبوت میں انہوں نے کئی بہترین مثالیں بھی پیش کی ہیں۔

میرے نزدیک زیرِ نظر کتاب کا سب سے اہم مضمون ’’جدید تر شاعری کی چند معتبر آوازیں‘‘ ہیں جس میں انہوں نے کئی ما بعد جدید شعراء کی شاعری پر اظہارِ خیال کیا ہے، جن میں احتشام اختر، منیر سیفی، عالم خورشید، خاور نقیب، اظہر نیر، اور خاکسار یعنی سلیم انصاری پر مضامین ہیں۔ خاص بات یہ ہے کہ یہ تمام شعراء وہ ہیں جنہوں نے اپنی شعری شناخت ۱۹۸۰ء کے بعد قائم کی ہے، اور فکر و اسلوب میں یہ شعراء ایک دوسرے سے یکسر مختلف ہیں۔ مثلاً احتشام اختر کی شاعری پر گفتگو کرتے ہوئے عبد المتین جامی لکھتے ہیں۔ ’’در اصل احتشام اختر کے اندر ایک ایسا شاعر موجود ہے جوحسن پرستی اور عشقیہ جذبات کے اظہار کو اپنی شاعری کا وسیلہ بنانے کا خواہاں ہے لیکن جدید ترقی یافتہ معاشرے کی مشینی زندگی اس کو ایسا کرنے سے باز رکھتی ہے، کیونکہ موجودہ عہد کے انسان کا مشینوں میں پِسنا مقدر بن چکا ہے۔‘‘

عبد المتین جامی منیر سیفی کی شاعری میں ایک نیا زاویہ تلاش کرتے ہوئے لکھتے ہیں ’’منیر سیفی کے یہاں گھر کا استعمال کثرت سے ملتا ہے۔ مگر ان کا گھر ہر جگہ ایک نئی علامت بن کر ابھرتا ہے۔ کبھی اپنے گھر کے زمیں بوس ہونے کا خطرہ محسوس کرتے ہیں۔ ( یہ جدید انسان کا احساسِ بے حسی ہے) ، کبھی اپنے گھر سے بیزار نظر آتے ہیں، کبھی باہر کی دنیا سے اُوبھ کر گھر میں تلاشِ سکوں میں محو ہو جاتے ہیں۔ در اصل شاعری میں نئے امکانات و رجحانات اور نئی دشاؤں کو تلاش کرنا ہی تنقید کا منصب ہے مگر ان کے اس خیال سے اختلاف بھی کیا جا سکتا ہے کہ خود اعتمادی کا فقدان جدید شعراء کی سب سے بڑی کمزوری ہے یہ صفت نہ ہی صرف شاعروں میں پائی جاتی ہے بلکہ ہر جدید انسان اس کمزوری کا شکار ہے۔ میرے نزدیک یہ بات صحیح نہیں کہ جدید شعراء میں خود اعتمادی کا فقدان ہے۔ میرے نزدیک سچ تو یہ ہے کہ آج کا شاعر انٹرنیٹ اور سائبر عہد کے گمبھیر مسائل و مصائب اور تقاضوں سے نبرد آزما ہونے کے با وجود شاعری میں نئے امکانات کے پھول کھلا رہا ہے۔ عالم خورشید نئی نسل کے منفرد اور قابلِ ذکر شاعر ہیں ان کی غزلوں کا رنگ ہمعصر شعراء سے یکسر مختلف ہے، ان کے یہاں نامانوس الفاظ اور غیر مستعمل تراکیب کی مدد سے شعری لہجہ ترتیب دینے کی صلاحیتیں ہیں جس کا اعتراف ناقدینِ شعر و ادب نے بخوبی کیا ہے۔ عالم خورشید کی شاعری پر عبد المتین جامی کا مضمون قابلِ مطالعہ اور لائقِ توجہ ہے۔ انہوں نے نہایت عرق ریزی سے عالم خورشید کی شاعری کے مختلف گوشوں پر نہ صرف خاطر خواہ گفتگو کی ہے بلکہ ان کی شاعری میں نئے رُجحانات اور میلانات نیز نئے امکانات کی نشان دہی کی ہے۔ خاور نقیب کی شاعری پر اظہارِ رائے کرتے ہوئے ان کی طویل نظم ’’قلم فردوس‘‘ کا تفصیلی تجزیہ کیا ہے اور یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ اس نظم کا کینوس وسیع ہے اور اس میں مترنم لہجہ، رجائی آہنگ اور فکری عناصر کی کار فرمائی دیکھی جا سکتی ہے، نیز اس نظم میں موجودہ مسائل و مصائب کی عکاسی بھی نہایت تخلیقی انداز میں کی گئی ہے۔ میرے نزدیک خاور نقیب عمدہ شاعر ہیں اور اپنی شاعری کے فکری اور اسلوبیاتی نظام کو جدید عہد کے مسائل سے ہم آہنگ کرنے کا ہنر جانتے ہیں۔

راقم الحروف یعنی سلیم انصاری کی شاعری پر تبصرہ کرتے ہوئے عبدالمتین جامی لکھتے ہیں ’’سلیم انصاری ہمارے عہد کے ایک معتبر شاعر ہیں۔ انہوں نے نہ صرف یہ کہ نظم و غزل دونوں ہی صنفوں پر کامیابی سے طبع آزمائی کی ہے بلکہ انہوں نے نظم کے شاعر کی حیثیت سے اپنا لوہا منوا لیا ہے۔‘‘ مصنف کے یہ حوصلہ افزا کلمات میرے لئے یقینی طور پر قابل، قدر ہیں جس کے لئے میں ذاتی طور پر ممنون ہوں۔

نئی تنقیدی جہات میں کئی اور مضامین شامل ہیں جن پر میں اپنی رائے اس تبصرے کی طوالت کے سبب نہیں دے رہا ہوں، ایسے ہی چند مضامین ہیں ترجمہ کا فن اور کرامت علی کرامت، ڈاکٹر نریش کی افسانہ نگاری، لاکلام کا شاعر۔ غلام مرتضیٰ راہی، مظفر حنفی کا ذہنی ارتقا۔ پرچمِ گرد باد کی روشنی میں، قمر جمالی کے افسانوں کا تجزیاتی مطالعہ، اڑیسہ میں اردو تقدیسی شاعری کی سمت و رفتار اور عزیز اندوری کی غزل گوئی شامل ہیں۔ ان تمام مضامین میں بھی عبد المتین جامی نے نہایت عرق ریزی سے اپنے مطالعاتی ذہن اور تجزیاتی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنی بے باک رائے کا اظہار کیا ہے جس کے لئے وہ یقینی طور پر قابل، مبارک باد ہیں۔ چونکہ وہ بذاتِ خود تخلیق کار ہیں اور تخلیقی عمل کے رموز اور آداب سے واقف ہیں لہٰذا غیر جانب داری سے تنقید کا منصب نبھانے میں کامیاب رہے ہیں۔

٭٭٭

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے