میں نے دیکھ لیا تھا
وہاں آگ بھڑکنے والی ہے
تاریخ کے باب سے کئی صفحات میری آنکھوں کو گرد آلود کر رہے تھے۔
میں آنکھیں بند نہیں کر سکتی تھی
کان پر انگلیاں رکھیں تو میرے اندر کی گونج نے کہا
بانسری ہے یہ
دعائیں مت مانگو اب اس کا وقت نہیں رہا
جسے تم اذان سمجھ رہی ہو وہی آواز ہے جو شہر کے جلتے وقت بھی آ رہی تھی۔۔
میں نے آسمان کی طرف دیکھا، کوئی چڑیا نہیں تھی
جو پانی کا قطرہ لا کر میری آنکھوں پر گرا دیتی۔۔
پرندے ہجرت کر گئے تھے
اس بار بھڑکنے والی آگ کا حاصل کوئی گلزار نہیں
میں نے مٹھی میں ریت اٹھائی اور شعلوں کی طرف اچھال دی
لا حاصلی میں یہی ممکن تھا
٭٭٭