غزلیں ۔۔۔ ڈاکٹر رؤف خیر

تمھیں تو چاہیئے بس مختصر در و دیوار

اٹھاؤ مت در و دیوار پر در و دیوار

 

بدلتے رہتے ہیں اہل ہنر در و دیوار

بنا کے رکھتے ہیں دیوار و در در و دیوار

 

ترے بغیر ہوئے بے قمر در و دیوار

تو پھر تڑپتے رہے رات بھر در و دیوار

 

عجیب بھول بھلیوں میں گھر گیا ہوں میں

اِدھر بھی ہیں درو دیوار اُدھر در و دیوار

 

ہمارے سامنے میدان ہو گئے آخر

ہماری راہ میں تھے سر بہ سر در و دیوار

 

ہمارے نام کی تختی لگی ہے جس دن سے

کچھ اور ہو گئے ہیں معتبر در و دیوار

 

زمین خیر پہ کس طرح دیر بنتے ہیں

بتاہی دیتے ہیں سب ٹوٹ کر در و دیوار

 

رؤف خیرؔ سنبھل کر زمین غالبؔ میں

اٹھاؤ قطعۂ تاریخ پر در و دیوار

٭٭٭

 

 

مانا چلو ہمارے لیے بحر و بر نہیں

دکھ تو یہ ہے خود اپنا ہی گھر اپنا گھر نہیں

 

میں خوش اگر نہیں نہ سہی تم مگر نہیں

میرے لیے تواس سے بُری کچھ خبر نہیں

 

کرتے نہیں ہیں بات کبھی بے دلیل ہم

ہم مستند نہیں تو کوئی معتبر نہیں

 

جو ڈالتا ہے تاج محل پر بری نظر

دنیا میں اس سے بڑھ کے کوئی بد نظر نہیں

 

کیا بجھ سکوں گا میں ترے اندر ہوں ضو فگن

میں تو کوئی چراغِ سرِ رہگذر نہیں

 

یک طرفہ اشتیاق کا قائل نہیں ہوں میں

گر کچھ اُدھر نہیں ہے سمجھنا اِدھر نہیں

 

جھوٹی تسلیوں سے وہ ٹالیں گے کب تلک

ہم لاکھ سادہ لوح سہی اس قدر نہیں

٭٭٭

 

 

معصوم چہچہاتے پرندے ہیں ڈال ڈال

ایسے میں اے شکاری خدارا نہ جال ڈال

 

اس حسن بے مثال پہ کچھ تو گلال ڈال

منوا کے چھوڑ عشق کے مارے دھمال ڈال

 

ایسا نہ ہو دماغ سے نفرت نہ جا سکے

آنکھوں میں اور شیشۂ دل میں نہ بال ڈال

 

تجھ کو تو کھیلنا ہے فقط جیت کے لیے

سکے کا رخ نہ دیکھ ہوا میں اچھال ڈال

 

ہو لاکھ سنگ دل وہ رہے گا پسیج کر

تو اس کے آگے اپنا کلیجہ نکال ڈال

 

شام اودھ نہ صبح بنارس کی سوچ اب

دل سے خیال کوچۂ جاناں نکال ڈال

 

مالک مرے دماغ پہ چھایا ہوا ہے وہ

اس نا سمجھ کے دل میں بھی میرا خیال ڈال

 

اچھا نہیں ہے جان ہلاکت میں ڈالنا

بہتر یہی ہے خاک میں مال و منال ڈال

 

یا مان لے ہماری طرح کوئی بھی نہیں

جا ماننا نہیں ہے تو دنیا کھنگال ڈال

 

امجدؔ، صفیؔ و جامیؔ و مخدومؔ و خیرؔ ہیں

یوں چشم کم دکن پہ نہ باد شمال ڈال

٭٭٭

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے