غزلیں ۔۔۔ ڈاکٹر ثمیر کبیر

چاہت سے کسی کو تری انکار نہیں ہے

ہر دل میں مگر جرات اظہار نہیں ہے

 

صحرا کا سفر کاٹ کے لوٹا تو یہ دیکھا

شہروں میں بھی اب سایہ دیوار نہیں ہے

 

دیکھا نہ کرو سب کو مروت کی نظر سے

ہر شخص عنایت کا طلبگار نہیں ہے

 

آنے میں جھجک ہو گی نہ جانے میں تکلّف

اس گھر میں کہیں بھی در و دیوار نہیں ہے

 

اک تم ہی نہیں خواب میں ڈوبے ہوئے اے دوست

ہر جاگنے والا یہاں بیدار نہیں ہے

٭٭٭

 

 

 

 

رکھا تو ہے سنبھال کے پایا ہوا سا کچھ

لیکن ابھی بھی دل میں ہے کھویا ہوا سا کچھ

 

یہ کس دیار غیر میں ہے کارواں مرا

محسوس کر رہا ہوں میں بھٹکا ہوا سا کچھ

 

بیٹھا تو ہوں سمیٹ کے میں اپنے آپ کو

پر تیری رہگزر پہ ہوں بکھرا ہوا سا کچھ

 

کب تک سنبھال پاؤ گے رشتوں کی ڈور کو

سلجھا ہوا سا کچھ ہے تو الجھا ہوا سا کچھ

 

خاموشیوں کی عادت بیجا ہے اس قدر

پتہ بھی کھڑکھڑائے تو دھڑکا ہوا سا کچھ

 

ہم نے تمہارے نام پہ تحریر کر تو دی

سوچا ہوا سا کچھ ہے تو لکھا ہوا سا کچھ

 

آنکھوں میں اشک آئے تھے ہم نے چھپا لئے

ہنستا ہوا سا کچھ ہے تو روتا ہوا سا کچھ

 

زلفوں کے اس حصار سے باہر نکل ثمیر

زلفوں کے اس حصار میں پھنستا ہوا سا کچھ

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے