غزلیں ۔۔۔ تابش صدیقی

وفا کا اعلیٰ نصاب رستے

صعوبتوں کی کتاب رستے

 

ہیں سہل الفت کے رہرووں کو

ہوں چاہے جتنے خراب رستے

 

جو عذر ڈھونڈو، تو خار ہر سو

ارادہ ہو تو، گلاب رستے

 

چمک سے دھندلا گئی ہے منزل

بنے ہوئے ہیں سراب رستے

 

رہِ عزیمت کے راہیوں کو

گناہ مسکن، ثواب رستے

 

کمی ہے تیرے جنوں میں تابشؔ

جو بن گئے ہیں عذاب رستے

٭٭٭

 

وہی صبح ہے، وہی شام ہے

وہی گردشوں کو دوام ہے

 

نہ چھپا سکا میں غمِ دروں

کہ مرا ہنر ابھی خام ہے

 

شبِ انتظار ہے عارضی

یہی صبحِ نو کا پیام ہے

 

دمِ وصل، وقفِ جنوں نہ ہو

یہ بڑے ادب کا مقام ہے

 

رہِ عشق ہے یہ سنبھل کے چل

بڑے حوصلے کا یہ کام ہے

 

وہی بے کنار سا دشت ہے

یہی منظر اپنا مدام ہے

 

کبھی دُکھ ملے، کبھی سُکھ ملے

یہی میرے رب کا نظام ہے

 

پسِ پردہ رہتے ہیں نیک خو

جو شریر ہے، سرِ عام ہے

 

نہیں فکر تابشِؔ کم نظر

کہ امام خیر الانامؐ ہے

٭٭٭

 

 

 

درِ مخلوق پہ سر اپنا جھکاتا کیا ہے

رب کے ہوتے ہوئے اوروں کو بلاتا کیا ہے

 

کامیابی کے لیے چاہیے سعیِ پیہم

ہاتھ پر ہاتھ دھرے خواب سناتا کیا ہے

 

وادیِ عشق میں کافی ہے مجھے راہِ حسینؓ

مجھ کو رستہ کسی مجنوں کا بتاتا کیا ہے

 

حاکمِ شہر! ترے ہاتھ پہ خوں ہے اِس کا

تربتِ شہر پہ اب پھول چڑھاتا کیا ہے

 

گر تجھے وقت ملے اپنے گریباں میں بھی جھانک

ہر گھڑی دوسروں پر خاک اڑاتا کیا ہے

 

ہے ترا قول و عمل نورِ ہدیٰ سے عاری

تو محبت میں فقط گھر کو سجاتا کیا ہے

 

ہر کوئی اپنے مفادات میں گم ہے تابشؔ

خود غرض دور میں زخم اپنا دکھاتا کیا ہے

٭٭٭

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے