سرحدو ہٹ جاؤ، مجھے حامد سراج سے ملنا ہے ۔۔۔ مشرف عالم ذوقی

غیر آں زنجیر زلف دلبرم

گر دو صد زنجیر آری بردرم  (رومی)

 

اگر دو سو زنجیریں بھی میرے پاؤں میں ڈال دو تو میں سب کو توڑ کر رکھ دوں گا۔  عشق کی زنجیر کے سوا کوئی زنجیر مجھے باندھ نہیں سکتی….

تم عشق کے بحر بیکراں تھے حامد سراج۔ تم نے قسم توڑ دی اور تم مجھ سے پہلے چلے گئے۔ تم سراپا عشق تھے اور میں ایک پیاسا کہ تمہارے نورانی چہرے میں سرحدوں کی زنجیروں کو ٹوٹتے ہوئے دیکھا کرتا تھا اور سوچتا تھا کہ تم اس صدی میں کیسے پیدا ہو گئے کہ میٹھے پانیوں کی آمد بند ہو گئی۔ ریگستانی گھوڑے رو پوش ہوئے۔ صوفیوں کی آمد کا سلسلہ رک گیا۔ معجزوں کا سلسلہ ٹھہر گیا۔ محبت کی بارشیں تھم گئیں۔ تم آئے اور تم نے لہروں کو جاگنے کا حکم دیا… تم خوشبودار درختوں اور شیریں چشمے سے محبت کو ڈھونڈ کر لے آئے۔ تم نے یا ران چمن کے لئے محفل سجائی اور موسم خزاں کو معجزے سے موسم بہار میں تبدیل کر دیا۔ تم اس دور میں انسان کی عظمت کی مثال بن گئے جب تاریخ کے پتھریلے جسم سے لہو بہہ رہا تھا اور سرحدوں پر آگ روشن تھی۔ تم نے حضرت ایوب کی طرح اذیت کی پرورش کی اور صبر کو مہرباں ساعتوں کا کلمہ بنا لیا۔ تم جا رہے تھے مگر تمھارے ہونٹوں پر حرف شکایت نہ تھی کہ ہزاروں لاکھوں شمعوں کو روشن کرنے کے بعد تم اس مقام پر تھے جہاں فرشتہ محبت کی کتاب میں سر فہرست تمہارا نام لکھ رہے تھے … تم کیسے جا سکتے ہو حامد سراج……

آج وہ تمام منظر زندہ ہیں اور ایک بانسری ہے جہاں سے درد کے نغمات ابھرتے ہیں۔ ایک سمندر ہے جوخاموش ہے۔ ایک آہ ہے، جو فلک سے رحم لانے نہیں، تمھیں دیکھنے کی آرزو کرتی ہے اور بادلوں کوراستہ دینے کے لیے کہتی ہے۔ ۸۲۔ ۱۹۸۰، ہم کب ملے، کیوں یاد کروں ….کیوں تصور کروں کہ تم نہیں ہو۔ پاکستان کے رسائل میں شائع ہونا شروع کیا تو سب سے پہلے تم ملے۔ تم ملے اور دوست بن گئے۔ ایک ماہانہ رسالہ تھا۔ اب نام یاد نہیں۔ میں مکتوب تمھارے نام لکھتا تھا اورتم میرے نام۔ پھر ہماری گفتگو فون پر ہونے لگی۔ ہر ملاقات میں تم کہا کرتے، ذوقی بھائی، چائے پی رہا ہوں۔ آپ کے لیے بھی منگواتا ہوں۔ ابھی دونوں بھائی مل کر گفتگو کرتے ہیں۔ حامد سراج، تم نے عشق میں محبت کا چراغ رکھ دیا اور سرحدوں کی زنجیریں اسی وقت توڑ دیں جب ہم پہلی بار فون پر باتیں کرتے ہوئے اس طرح ملے جیسے کوئی اپنا بھی اپنوں سے نہیں ملتا۔ پھر سال گزرتے گئے۔ تم مجھ میں سماتے چلے گئے۔ اگر میں شرح عشق بیان کروں تو خدشہ ہے کہ ایک قیامت آ جائے گی۔ کیا تمہاری طرح کوئی اور بھی محبوب تھا۔ یاران چمن کی رونقیں وہی ہیں اور میں سرحدوں کی زنجیروں کو وقت کی رومانی قندیل سے الگ کر رہا ہوں، تم تہجد کی نماز میں تھے اور تاریک فضا میں ایک دنیا کے لیے محبت کا صحیفہ لکھنے آئے تھے …

حامد پیارے .. تمہاری تمام کتابیں میرے پاس ہیں .. ابھی بہت کچھ لکھنا ہے مجھے .. مجھے خیال ہے، تم میا لکھنے کے دوران اداس تھے . تم اس سو سال کی اداسی کے درمیان تھے، جس کا حساب مارخیز نے بھی نہیں لگایا تھا . میا کی قرات کے دوران پتہ نہیں، کیسی بے قراری میرے وجود پر مسلط تھی اور مجھے کیا خبر تھی کہ بس کچھ برسوں بعد ہی یہ بے قراری خزاں موسم میں تبدیل ہو جائے گی .

میا … یاد ہے، میں نے کیا لکھا تھا پیارے حامد سراج . ابھی یادوں کا وہ صفحہ کھولتا ہوں جن کے بارے میں یقین ہے کہ یہ صفحے کبھی بوسیدہ نہیں ہوں گے ..نہ تمہاری یاد کی خوشبو سے خالی ہوں گے ….

………..

آنکیں کھلتے ہی، آنکھوں میں بسنے والا سب سے پہلا ’’روپ متی’’ چہرہ اِسی میّا کا ہوتا ہے۔ لیکن ماں کا دکھ کس نے دیکھا ہے۔ ماں کا سکھ کس نے جانا ہے ____ شری کرشن کی بنسریا چپکے چپکے، ایک سفید جھوٹ کو چھپانے کی کوشش کرتی ہے ____

’میآ موہے، میں نہیں ماکھن کھایو….‘

لیکن میآ تو صاف دیکھ رہی ہے۔ بال شری کرشن کے ہونٹوں پر مکھن لگا ہے …. اور شری کرشن اپنی میآ سے صفائی پر صفائی دیے جا رہے ہیں۔ ’میں تو گائے چرانے مدھوبن میں گیا ہوا تھا۔ دوستوں سے پوچھو___ سانجھ ڈھلے واپس آیا__میآ موہے، میں نہیں ماکھن کھایو….

محبوب نے اپنے عشق سے دریافت کیا____ بولو، تمہیں کیا چاہئے۔ ؟

عشق نے امتحان لیا____ ماں کا دل لے آؤ

رات آدھی سے زیادہ گزر گئی۔ آسمان پر ستارے واپسی کے آدھے راستے طے کر چکے ہیں ____ محبوب کے ہاتھوں میں خنجر چمکتا ہے ____ ماں بستر پر غنودگی کے عالم میں سوئی پڑی ہے ____ محبوب کا خنجر، ماں کے سینے کے آر پار اُتر جاتا ہے۔ ہاتھوں میں ماں کا دل ہے …. وہ ’دلِ بیتاب‘ سے ملنے کی آرزو لئے آگے بڑھتا ہے ____ ٹھوکر لگتی ہے ____ ماں کے دل سے آواز آتی ہے ____ بیٹا، تمہیں چوٹ تو نہیں لگی____‘

پیار تو دونوں کرتے ہیں۔ باپ بھی اور ماں بھی____ لیکن ’میآ‘ کی کہانیوں سے صفحے در صفحے آباد ہیں۔ باپ میں ایک ذمہ دار وجود سانس لیتا ہے تو ماں، بچے پرنہال ونہال____ بچہ چاہے جیسا بھی ہو، اچھا بُرا۔ چور ڈاکو یا پھر____ ماں تو ماں ہوتی ہے ____ عمر کے ’ڈینے ‘ نکلتے ہی، ہوا میں ہولے ہولے اُڑنے تک، بچہ، ماں کی نظر میں بچہ ہی رہتا ہے یعنی کائنات کا ایک ننھا سا کھلونا____ ماں دیکھتی ہے اور آنکھوں میں ایک نہ ختم ہونے والی چمک، ایک کبھی نہ بجھنے والی مسکان پیدا ہو جاتی ہے ____

..

میآ کے مطالعے سے گزرنے کے بعد میں ہفتوں سو نہیں پایا____ وہ رات بے قراری کی رات تھی۔ میں بالکنی پر آ گیا۔ دیر تک ٹہلتا رہا۔ ہاتھوں میں سگریٹ مچلتا رہا۔ ایک کے بعد ایک____ سامنے آسمان کھلا تھا۔ ستاروں کی چادر تنی تھی۔ مگر میں کیا دیکھ رہا تھا بہت سے چمکتے، ننھے منے ستاروں میں سے، کسی ایک ستارہ میں، کس کی جھلک دیکھنے کو بیتاب تھا____ اندر کے کسی گوشے میں چپکے سے ایک آواز تھرائی____

ڈیر حامد سراج!

میں تو فکشن لکھتا تھا____

تم نے میآ لکھ دی____ ماں کبھی فکشن، نہیں ہوتی۔ ماں تو بس ماں ہوتی ہے۔ صدیاں گزر جانے کے بعد بھی____

مومن کا زمانہ ہوتا تو کہتا____ ’’میرا سارا دیوان لے جاؤ۔ مجھے میآ دے دو۔ ’’

ڈیر حامد سراج، جن کے پاس میآ ہوتی ہے، وہی جانتے ہیں کہ اُن کے پاس دنیا کی کتنی بڑی طاقت ہے ____وہ کسی سے بھی مقابلے کے لئے تیار ہو سکتے ہیں۔ برسوں پہلے سلیم جاوید نے ایک فلم لکھی تھی ____دیوار ____امیتابھ کی زندگی میں یہ فلم ایک میل کا پتھر ثابت ہوئی۔ اِس فلم میں دو بھائی تھے۔ مفلسی اور ظلم سے لڑتا ہوا ایک بھائی انڈرورلڈ کا سرغنہ بن جاتا ہے۔ دوسرا بھائی ششی کپور ایک پولیس انسپکٹر۔ سرغنہ کے پاس آرام وآسائش کے سب سامان ہوتے ہیں۔ ایک بار وہ اپنی دولت کی چمک، کو بھائی کے سامنے گنواتا ہوا پوچھتا ہے ____ میرے پاس بنگلہ ہے، گاڑی ہے، دولت ہے، تمہارے پاس کیا ہے ؟

بھائی جواب دیتا ہے ____ ’’میرے پاس ماں ہے۔ ’’

شاید ماں پر لکھنا سب سے مشکل کام ہے۔ 1983 کے آس پاس کا زمانہ رہا ہو گا جب میری ماں دنیا کی تمام آرام وآسائش کو ٹھکرا کر ہمیشہ کے لئے وداع کی گھاٹیوں میں اُتر گئی۔ عرصہ گزر گیا____ برسوں کی تھکن اوڑھنے کے باوجود آج بھی وداع کی گھاٹیوں میں پلٹ کر دیکھنے کی ہمت نہیں ہوتی____ 21-22 برس گزرنے کے بعد بھی، آج بھی یہ عالم ہے کہ پلٹ کر البم سے ماں کی تصویر دیکھی نہیں جاتی۔ ماں چپکے سے، لاشعور کے ایک گوشے میں رکھ دی گئی ہے۔ یہ گوشہ کھولتے ہوئے بھی ڈر سا محسوس ہوتا ہے۔ ماں ہے، مگر نہیں ہے۔ ماں کہیں نہیں ہے۔ احساس اور البم کی تصویروں میں بھی____ کیونکہ وہاں سے ممتا کی جو سڑک شہر خموشاں تک جاتی ہے، وہاں تک تنہائی کے اداس قدموں کے ساتھ چلتے ہوئے بھی ہول آتا ہے ____!

لیکن مائی ڈیر حامد سراج، تم نے یہ معرکہ طے کیا ہے۔ گو کہ یہ کہانی ماں سے شروع ہو کر ماں پر ہی ختم ہو جاتی ہے اور کیسی نازک حقیقت کہ اِس کہانی میں جو جد و جہد ہے، کشمکش ہے، وہ سب ماں کےئے ہے۔ _ شاید یہ دنیا کی واحد کتاب ہے جہاں ایک بڑی جنگ صرف ماں کے لئے لڑی جا رہی ہے ____ ماں جو زندگی اور موت کی کشمکش میں بیٹے کے لئے دنیا کی سب سے بڑی جنگ بن گئی ہے ____ اور ایسے موقع پر دنیا کے سارے فلسفے سو گئے ہیں اور اگر کوئی فلسفہ باقی ہے تو صرف ___ماں !

’’میں نے لوح دل پر تیرا نام لکھا…. تم کو پکارا…. آواز دی

ماں ….

اور میری آنکھوں میں سمندر اُتر آئے

قلم کی ناؤ بے رحم سمندر کی سفاک موجوں کا کہاں تک مقابلہ کرے ….؟

یوں لگتا ہے دل کے توے پر لفظ جل گئے ہیں۔

جلے ہوئے لفظوں کی راکھ میں انگلیاں پھیرتے ان گنت قرن گزر گئے۔

آج پھر….

میں دشت تنہائی میں سوچ رہا ہوں کہ ماں کے بعد بھی کیا کہیں کوئی سایہ ہوتا ہے ؟‘’

..

’’ پیارے حامد سراج

تمہیں پت جھڑ کے موسموں میں ہی جانا تھا۔

تمہارے بعد موسم نہیں بدلیں گے

تمہیں لحد میں اُتار کر پلٹے تو زمانے بدل گئے تھے

ہم متروک عہد کے انسان دوبارہ غار کی تلاش میں ہیں۔

ایک ہی موسم ہے پت جھڑ…. کا….

 

ماں، جو زمین اوڑھ کر سو گئی____ جس کے جاتے ہی موسم پت جھڑ کا ہو گیا____ دھوپ غائب اور آنگن میں خاموشی اُتر آئی____پیارے حامد سراج، تم نے اردو فکشن کی تاریخ میں ’میآ‘ لکھ کر ایک ایسا کارنامہ انجام دیا ہے، جو اِس سے قبل کسی بھی قلم کار کے حصے میں نہیں آیا تھا۔ فرانز کفکا اگر باپ کی یادوں کو تحریری شکل دینے کی کوشش کرتے ہیں تو وہاں گلے شکووں کے ’طوفان‘ کے علاوہ احساس و جذبات کی وہ حکایت خونچکاں نہیں ملتی جو حامد سراج کی تحریر میں پائی جاتی ہے۔ میّا فکشن نہیں ہے۔ ایک ایسی درد بھری سچائی ہے، جس سے گزرنا بھی جگر والوں کا ہی کام ہے۔ میکسم گورکی کی ماں تو مزدوروں کی تھی ____

لیکن تمہاری میّا تو مزدوروں کی بھی اور ہم سب کی میّا ہے ____

تم نے تو میّا میں ’صدیاں ‘ رکھ دیں ____

تم نے میّا کو فکشن کی لا زوال بلندیوں پر پہنچا دیا____

…..

اب یہ باتیں کس سے کروں .. سانجھ بھیی چو دیس ..چل خسرو گھر آپنے .

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے