ریشم کے ریشے ۔۔۔ محمد حامد سراج

پرانی بس کا ہینڈل پکڑ کر میں اس میں سوار ہوا۔ مجھے معلوم تھا وہ تیس کلو میٹر کا سفر ڈیڑھ گھنٹے میں طے کرے گی لیکن اور کوئی راستہ ہی نہیں تھا۔ کندیاں سے میانوالی تک کڑاک خیل ٹرانسپورٹ کی اجارہ داری تھی۔ بس کندیاں موڑ پندرہ منٹ قیام کرتی اور ہاکر اتر کر میانوالی ملتان روڈ پر نظریں جمائے ملتان بھکر، کلورکوٹ، پپلاں اور چکوک کی جانب سے آنے والی بسوں اور ہرویگن کا انتظار کرتا اور ان میں سے سواریاں اترنے پر ان کی طرف لپکتا۔ کندیاں موڑ پر کڑاک خیل بس سروس کا ایک منیجر جس کی مونچھیں نوکیلی اور چہرہ کرخت تھا وہ کسی بھی سواری کو تانگے، یا مال بردار ڈالی پر سوار نہ ہونے دیتا۔ سر پھٹول اس اڈے کا معمول تھا۔

میں رینگتی بس میں گرد و پیش کے منظروں سے لطف اندوز ہوتا عطا اللہ عیسیٰ خیلوی کی آواز میں گیت سن رہا تھا۔

کوئی گڈی دیاں دو لیناں

جتھے ماہی یاد آوے اتھے بیٹھ کے رو لیناں

میانوالی اڈے پر اتر کر میں نے ریلوے اسٹیشن کراس کیا اور نانبائی بازار کی جانب مڑ گیا۔ کھوے سے کھوا چھل رہا تھا۔ مجھے گروبازار سے گزر کر کلوریاں والی گلی میں جانا تھا۔

’’ریشماں والی گلی میں ایک دکان ہے کشیدہ کاری کی۔۔۔ اور کلوریاں والی گلی!‘‘

ریشماں والی گلی کا نام میرے لیے مانوس نہ تھا تاہم کلوریاں والی گلی میرے دھیان میں آتے ہی ایک مہک سے جڑ گئی تھی۔

میں ایک مدت بعد یہاں آیا تھا اسی بیچ والے عرصہ میں بہت کچھ بدل گیا تھا لیکن کلوریاں والی گلی کے ساتھ ریشماں والی گلی کا اجنبی نام آیا تو عین اسی سمے اس کی نامانوسیت معدوم ہو چکی تھی کہ اس کے ساتھ میرا بچپن جڑا ہوا تھا۔ تب میں گؤ شالہ پرائمری سکول میانوالی میں پانچویں کا طالب علم تھا اور میں اسی گلی سے ہو کر گزرا کرتا تھا۔

کشیدہ کاری کی دکان سے مجھے ایک سوٹ لینا تھا۔

کلوریاں والی گلی تک میں اپنے بچپن کی انگلی تھام کر پہنچ گیا اس گلی میں داخل ہو کر مجھے یوں لگا کہ کچھ بھی نہ بدلا تھا۔ مانوس دیوار و در سے  جا چکے وقت نے پلٹ پلٹ کر مجھے بلانا اور بہلانا شروع کر دیا تھا۔ میں گلی کے اندر دور تک گھستا چلا گیا حتیٰ کہ مسجد لوھاراں کے بغل میں موجود حافظ والی ہٹی آ گئی جہاں سے ٹافیاں، بتاشے، ریوڑیاں، ٹانگری، اور مونگ پھلی لینا معمول تھا۔ یہیں قلفی والی ریڑھی لگا کرتی جو شام ڈھلنے تک گلی میں موجود رہا کرتی تھی۔ اس ریڑھی سے ہم ایک آنہ، دو آنہ کی قلفیاں لیا کرتے تھے۔ کچھ آگے نکڑ پر منیاری کی دکان تھی اور پھر وہ مکان جہاں سے روزانہ شام، میں نانی اماں کے کہنے پر میں دودھ لایا کرتا تھا۔

اس سے آگے بھی گلی کلوریاں چلتی تھی مگر میں ایک مہک کی گرفت میں آ گیا تھا جو یہاں آتے ہی میرے تعاقب میں تھی۔ بھیڑ کے اندر جس میں، میں گھسا ہوا یہاں تک پہنچ گیا تھا، ایک جھپاکے کے اندر سے اس مانوس مہک کو اٹھتا اور بھیڑ کے اندر گم ہوتا دیکھ رہا تھا۔ اب میں اس کے تعاقب میں تھا۔ ادھڑے وقت کے سارے رخنے جیسے اس مہک نے پاٹ دئیے تھے۔ مہک معدوم ہو گئی یا پھر وہ گلی ختم ہو گئی تھی جو دھرم شالہ کے پاس پہنچ کر کھل جاتی تھی۔

کھلی گلی کے اجالے نے مجھے چونکایا تو مجھے احساس ہو چکا تھا کہ میں بہت آگے نکل آیا تھا۔ آ گے نہیں، بہت پیچھے۔

میں اپنے قدموں پر گھوم گیا۔ عجلت مجھے آگے کو کھینچتی تھی کہ ہزار کام تھے جو نمٹانا تھے۔۔۔ میں نے ایک راہ گیر سے پوچھا۔

’’بھائی ریشماں والی گلی کون سی ہے۔۔۔ ؟‘‘

’’یہ سامنے ریشماں والی ہی تو ہے‘‘۔

’’اور کلوریاں والی۔۔۔ ؟‘‘

’’وہ اس کے ختم ہوتے ہی شروع ہو جائے گی‘‘۔

مجھے یاد آیا کہ آتے ہوئے مجھے بتایا گیا تھا کہ جب کلوریاں والی گلی ختم ہو گی تو ریشماں والی گلی نے آ جانا تھا۔

جہاں میں تھا وہاں سے بتائی گئی حقیقت اوندھی ہو گئی تھی۔

پہلے جس گلی کو جہاں ختم ہونا تھا وہ وہاں سے شروع ہو رہی تھی اور شروع ہونے والی ختم۔

جب میں ریشماں والی گلی میں پھر سے داخل ہوا تو مجھے یہ تخمینہ لگانے میں دیر نہ لگی تھی گلی کا یہ حصہ جو پہلے کلوریاں والی گلی ہی تھا منیاری کپڑے اور درزیوں کی غیر معمولی دکانوں کی تعداد زیادہ ہو جانے سے ریشماں والی گلی ہو گیا تھا۔

میں بچپن کی گرد جھاڑتا اپنا نام بدل لینے والی گلی کے وسط میں موجود کشیدہ کاری کی دکان میں داخل ہو گیا۔

زگ زیگ مشین پر دکاندار اپنے کام میں مگن تھا۔ میں نے ہاتھ ملایا تعارف کرایا اور بیٹھ گیا۔ اسے وقت پیچھے دھکیلنے میں ذرا دقت نہ ہوئی تھی۔ چائے منگوائی اور بہت کچھ ایک ہی سانس میں پوچھ ڈالا۔ اسی دوران ایک نوجوان نے اپنی سائیکل دیوار کے سہارے کھڑی کی اور اندر داخل ہوا۔ اس کی بغل میں کالی شال تھی۔ نکلتا ہوا قد، نوکیلی مونچھیں، پاؤں میں میانوالی کی روایتی تلے والی کھیڑی، بوسکی کا لمبا کرتا، لٹھے کی شلوار، وہ وجیہہ لگ رہا تھا۔

’’یہ میری شال ہے بہت شوق سے بنوائی تھی میں نے۔ سائیکل کے پہیے میں آ کر برباد ہو گئی۔ کیا یہ مرمت ہو سکتی ہے۔۔۔؟‘‘

دکان نے شال کو دیکھا، پرکھا اور کہا:

’’رفو ہو جائے گی‘‘۔

جوان نے دکان میں چہاروں طرف نظر ڈالی۔ جیسے اسے یقین نہ آ رہا ہو۔ کیلنڈر پر، دیوار چسپاں ایک ایکٹریس کی تصویر پر بہت دیر تک اس کی نظریں ٹکی رہیں۔

اس جیسی دوسری تصاویر پر سے اس کی نظریں پھسلتی پھر اپنی شال پر آ کر ٹک گئیں۔ اس بار اس کا مخاطب میں تھا:

’’روپیہ روپیہ جوڑ کر یہ شال بنوائی ہے میں نے۔ رفو کرنے سے یہ اوڑھنے کے قابل تو ہو جائے گی نا۔۔۔ ؟‘‘

’’ہاں بالکل۔۔۔ رفو ہو کر ٹھیک ہو جائے گی‘‘۔

’’بہت سال بعد اللہ نے خواہش پوری کی، لیکن سائیکل کے پہیے میں آ کر شال ادھڑ گئی‘‘۔

جتنی دیر شال مرمت ہوتی رہی میں وہ رفو گری کا عمل غور سے دیکھتارہا۔

دکان کے سامنے والے تھڑے پر ایک شخص، جس کے لباس میں بے شمار پیوند تھے، بیٹھا اپنی جوتی گانٹھ رہا تھا۔ وقفے وقفے سے اس کے حلق سے حق ہو کی آواز نکلتی جو میرا دھیان کھینچ رہی تھی۔ بوڑھا خود دنیا و ما فیہا سے بے خبر جوتی گانٹھنے میں مگن تھا۔ گویا وہ گلی اور اس میں موجود بھیڑ اس کے لیے جیسے تھی ہی نہیں۔

میں سارے منظر سے لاتعلق اپنی دنیا میں مگن اس شخص کی طرف پوری طرح متوجہ نہ ہو پا رہا تھا کہ منقسم ہونے والی گلی، ادھڑی ہوئی شال کے ریشے اور معدوم ہو جانے والی مہک بیچ میں آ کر میرا دھیان کاٹ رہے تھے۔

جوتی گانٹھتے گانٹھتے اس شخص نے سر اٹھایا، یہاں تک کہ اس کی نگاہ آسمان پر جا کر ٹک گئی۔ اس کے حلقوم سے حق ہو کی صدا نکلی۔ میری گردن تیزی سے اس کی جانب گھومی، عین اسی لمحے میں اس کی نگاہیں آسمان پر جا کر الجھ گئیں۔ اس بارحق ہو کی پکار اس کے تنے ہوئے حلق کو چیرتے ہوئے نکل کر پھٹ گئی تھی۔

ادھڑی ہوئی شال کی طرح ادھڑی ہوئی آواز نے میرے دھیان کی گٹھڑی باندھ کر اپنے پاس دھر لی تھی۔

اوپر کو اٹھا ہوا سر تیزی سے واپس اس کی جھولی میں گر گیا تھا۔ مجھے لگا جیسے کٹے ہوئے حلق کے کنارے بج رہے تھے:

’’عشق کہے تساں چنگا کیتا، بوہے یاردے واڑیاسی‘‘۔

یہی وہ لمحہ تھا جب میں نے اپنے دھیان کی گٹھڑی اپنی گرفت میں لے لی تھی۔ اب مجھے اس کی پروا نہیں تھی کہ گلی کٹ کر جڑی تھی یا جڑ کر کٹ گئی تھی کہ ادھڑے ہوئے وقت کی شال کے ریشے رفو ہو کر اپنی جگہ پر پھر سے بیٹھ گئے تھے اور میں ادھر ادھر سے بے نیاز اس سمت جست لگا چکا تھا جہاں معدوم ہونے والی مہک کے وسیلے سے کٹنا اور جڑنا ایک سا ہو گیا تھا۔

٭٭٭

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے