زمین تیری ہے اور آسماں بھی تیرا ہے
مکاں بھی تیرا ہے اور لا مکاں بھی تیرا ہے
خوشی کے سارے خزانے ہیں بخششیں تیری
مصیبتوں کا ہر اک امتحاں بھی تیرا ہے
نہ جانے کب یہ بدن پیڑ سوکھ کر گر جائے
بہاریں تیری ہیں، دورِ خزاں بھی تیرا ہے
قدم تلے یہ ہری گھاس ہے ترے دم سے
سروں پہ دھوپ کا یہ سائباں بھی تیرا ہے
تری ہی دین ہے طوفان بھی سمندر بھی
ہیں کشتیاں بھی تری، بادباں بھی تیرا ہے
نزولِ قہر بھی تجھ سے نزولِ رحمت بھی
ہے چاندنی تری، آتش فشاں بھی تیرا ہے
تُو ہی لگائے گا منزل پہ ہے یقیں ہم کو
کہ راستے بھی ترے کارواں بھی تیرا ہے
ہے فکرِ شعر بھی مجھ میں تری عطا کردہ
زباں بھی تیری ہے اور یہ بیاں بھی تیرا ہے
٭٭٭