ٹانگ کی بوٹی ۔۔۔ شکیل خورشید

’’یہ مرغی صبح تک بچنے والی نہیں، مولوی صاحب سے چھری پھروا لو‘‘

پڑوس والے قاضی صاحب نے بیمار مرغی کی حالت دیکھتے ہوئے کہا تو کُکو کو بیک وقت مرغی کی ممکنہ فوتگی پر افسوس اور گھر میں مرغی کا سالن پکنے کی امید پر ایک گونہ خوشی بھی محسوس ہوئی۔

لاہور کے مضافاتی علاقے میں رہن سہن شہری اور دیہاتی طرزِ معاشرت کا ملا جلا مزاج لئے ہوئے تھا۔ لوئر مڈل کلاس کے گھر میں مرغی کا سالن پکنے کی تین ہی صورتیں ہوا کرتی تھیں۔ مہمان کی مہمانداری کے لئے، بیمار کی تیمار داری کے لئے یا پھر مرغی کی بیماری کے سبب۔ کُکو بارہ افراد کے کنبے میں سب سے چھوٹا تھا۔ ابا، امی، دو بھائی، چار بہنیں، ایک دادی، ایک چچا اور ایک ماموں۔ ایک مرغی کا سالن تقسیم کے کس کلئے کے تحت بارہ پلیٹوں میں پورا پڑتا تھا، اس کا جواب اس کی تیسری جماعت کی ریاضی کی کتاب میں نہیں لکھا تھا۔ البتہ ریاضی کے اس لاینحل سوال سے مدنیت کا ایک اصول ضرور اخذ ہوتا تھا، وہ یہ کہ مرغی کے سالن کی عوام میں ٹانگ کی بوٹی ایک اشرافیہ کی حیثیت رکھتی تھی۔ اپنی ہڈی کی ساخت کی بدولت یہ بوٹی مرغی کے دوسرے حصوں کی طرح بغدے کے پے درپے واروں سے قدرے محفوظ رہتی اور نتیجتاً باقی بوٹیوں کے مقابلے میں نسبتاً زیادہ گوشت کی حامل ہوتی۔ اپنی اسی فربہی کی بدولت ٹانگ کی بوٹی مرغی کے سالن میں اشرافیہ کا درجہ پاتی تھی۔

طبقاتی تمدن کے حساب سے سالن کی یہ اشرافیہ کھانے کے حقدار بھی اشرافیہ ہی ٹھہرتے تھے۔ کھانے کی تقسیم کار ماں کے نزدیک درجہ بدرجہ یہ اشرافیہ مہمان، بیمار، گھر کے بزرگ اور لاڈلے بچے قرار پاتے تھے۔ ماں کے لئے تو سارے بچے ایک سمان لاڈلے ہوتے ہوں گے لیکن جب معاملہ سات بچوں اور دو ٹانگوں کی تقسیم کا ہو تو آخری استحقاق اکثر حصہ بقدر جثہ ہی ٹھہرتا تھا۔

****

 

مہمانوں کے آگے سالن کا ڈونگا پڑا تھا، اور کُکو کی نظریں اس میں تیرتی سالن کی اشرافیہ پر جمی تھیں۔ مہمان خاتون نے بچہ سمجھ کر ڈونگا اس کے آگے کر دیا۔

’’پہلے آپ ڈال لو بیٹا‘‘ کُکو نے بے یقینی کے عالم میں ماں کی طرف دیکھا۔ نظروں ہی نظروں میں تنبیہ نما پیغام رسانی ہوئی اور کُکو نے خاموشی سے شوربے اور ایک چھوٹی بوٹی پر قناعت کر لی۔

’’بیٹا ٹانگ کی بوٹی لے لو ناں‘‘

’’نہیں اسے پسند نہیں، آپ لیجیئے ناں‘‘ کُکو سے پہلے اس کی ماں بول پڑیں۔

****

 

کُکو کو یاد نہیں تھا اس دن ذبح ہونے والی قریب المرگ مرغی کی ٹانگ کس لاڈلے کے حصے میں آئی تھی۔ ایسا بھی نہیں تھا کہ اسے کبھی ٹانگ کی بوٹی نہ ملی ہو، البتہ اس کے شعور، لا شعور یا تحت الشعور میں کہیں نہ کہیں مرغی کی ٹانگ کی تمنا رکھنا جیسے ایک لالچ، طمع، حرص یا ندیدے پن کا مظہر بن چکا تھا۔

وقت کے ساتھ ساتھ گھر کے حالات بدلنے لگے تھے۔ کُکو بڑا ہو کر اچھی تعلیم مکمل کر کے آفیسر گریڈ کی ملازمت کرنے لگا تھا۔ گھر کے طور طریقے بدلے تھے، لیکن کفایت شعاری اب بھی لازمی تھی۔ البتہ اسے اس بات کا شدت سے احساس تھا کہ اس کے بچوں میں کوئی احساسِ محرومی نہ رہے۔

’’ماما، ٹانگ کی بوٹی!!!!‘‘ فراز نے ضد کی، بیوی کچھ بولنے لگی تو کُکو نے ٹوکا، دے دو بھئی، دو ہی تو بچے ہیں ہمارے، جھگڑا کس بات کا، ایک ایک دونوں کو دے دو۔

’’اور آپ؟‘‘

’’میں کیا ساری عمر ٹانگ کی بوٹی کھاتا آیا ہوں جو مجھے عادت ہو گی‘‘

****

 

بچے بڑے ہو رہے تھے اور ساتھ ساتھ گھر میں روپے پیسے کی ریل پیل بھی ہو رہی تھی۔ لوئر مڈل کلاس کے کنبے سے نکلا ہوا کُکو اب اپر مڈل کلاس سے نکل کر ایک خوشحال طبقے میں داخل ہونے کو پر تول رہا تھا۔

مال سے ماہانہ گروسری کرتے ہوئے چکن شاپ سے چکن آرڈر کیا تو کاؤنٹر والے نے پوچھا

’’ سر آٹھ پیس کر یا بارہ؟‘‘

پہلی دفعہ اس غیر متوقع سوال پر گڑبڑاتے ہوئے اس نے کہا

’’پتہ نہیں، بھئی جتنے لوگ عموماً کرواتے ہیں اتنے ہی کر دو‘‘

’’سر آٹھ ٹھیک رہتے ہیں، بارہ میں تو کچھ بھی نہیں بچتا‘‘

کُکو کے ذہن میں بچپن کا منظر ابھر آیا، ایک مرغی کا سالن اور بارہ افراد کی تقسیم۔ لیکن اب گھر میں مرغی کا سالن نہیں پکتا تھا۔ چکن قورمہ بنتا تھا۔ بلکہ اکثر بچے بروسٹ آرڈر کر لیتے تھے۔ بچوں کے نزدیک لیگ پیس یا بریسٹ پیس میں چوائس کا تعلق ٹیسٹ سے تھا سٹیٹس سے نہیں۔

’’پاپا!، بروسٹ منگوا رہے ہیں، کون سا پیس لیں گے؟‘‘ منصور نے پوچھا

’’کچھ بھی کر لو‘‘

بل کُکو نے ہی دینا تھا، اور اب اس کے لئے یہ بل کوئی معنی نہیں رکھتا تھا لیکن اب بھی اپنے لئے لیگ پیس کی فرمائش کرتے ہوئے جھجکتا تھا۔ جیسے یہ کوئی ندیدہ پن ہو۔

****

 

کُکو کو احساس نہیں ہوا کہ کب اس نے بولنا چھوڑ دیا تھا

ریٹائرمنٹ ہوئی تو بولنے کی ضرورت کم ہو گئی۔ شریکِ زندگی رخصت ہوئی تو بولنے کی خواہش بھی کم ہو گئی۔ بچے اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہوئے تو بولنے کے مواقع بھی محدود ہو گئے۔ اپنی گفتگو میں ربط کی کمی محسوس ہوئی تو اس نے چپ کا روزہ رکھنے میں عافیت جانی۔ یہ اختیاری خاموشی کب خاموشی کے جبر میں بدل گئی، اس کا احساس کُکو کو بڑی دیر سے ہوا۔

آج گھر میں سب اکٹھے ہو رہے تھے۔ فراز کئی سال بعد بیوی بچوں سمیت قطر سے پاکستان آیا تھا۔ منصور بھی اپنی پاکستان نژاد جرمن بیوی کو پاکستان دکھانے لایا ہوا تھا۔ کھانے کی میز پر آج بھی بارہ افراد جمع تھے کُکو، دو بیٹے دو بہوئیں، چار پوتے دو پوتیاں اور کُکو کا کیئر ٹیکر۔ میز پر چار پانچ قسم کی ڈشز سجی تھیں۔ کُکو کی نظریں روسٹ چکن کے ٹانگ کے بڑے بڑے پیسز پر جمی تھیں۔

فراز نے اپنی بیگم سے کہا ’’پاپا کو پلیٹ میں کھانا نکال دو‘‘

ضعف تھا یا بیزاری، اب زبان سے بڑھ کر کُکو کے ہاتھوں تک بھی آ چکی تھی۔

’’دیکھنا لیگ پیس مت ڈالنا، پاپا کو پسند نہیں، میں نے انہیں کبھی کھاتے نہیں دیکھا‘‘

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے