صبح نو ۔۔۔ وسیم عقیل شاہ

آفس سے بری ہو کر، گردن جھکائے یہاں وہاں دن گزار لینے کے بعد وہ گھر پہنچا، پھر جب سورج نے آنکھیں موند لیں اور آسمان تاروں کی چادر اوڑھ کر گہری نیند سو گیا، تو وہ اپنے ہالے کی روشنی میں تنہا جاگتا رہا صبح کو اس سوال سے اس کی آنکھ کھلی کہ، ’آخر آنکھ لگی کب تھی؟‘

اس نے بستر پر پڑے ہی پڑے ہاتھ سے کچھ ٹٹولا کچھ نہ پا کر اسی جگہ اٹھ کر بیٹھ گیا اس کی نظر سامنے دیوار پر قطار سے آویزاں آرائشی فریمز پر پڑی، جس میں مذہبی طرز کی تصاویر اور تحریریں رقم تھیں اس نے چاروں طرف نگاہ دوڑائی ہنگر میں ٹنگا گاؤن، کچھ دوسرے کپڑے اور ایک نیا سا نرسری اسکول بیگ اسکول بیگ کے ٹھیک نیچے فرش پر ایک گڑیا بے حال پڑی تھی دائیں طرف پلائی ووڈ کی ایک میز تھی جس پر کئی ساری چیزیں ایک دوسرے میں الجھی ہوئی نظر آ رہی تھیں غرض کہ ہر چیز بے ترتیب اور بکھری بکھری سی تھی کمرے کا یہ بکھرا بکھرا سا منظر یقیناً اس کے لیے ذہنی تناؤ کا باعث تھا لیکن کمرے کی ہر شئے اسے اپنے پن کا انوکھا سا احساس دلا رہی تھی اس کے چہرے پر ہلکا سا تبسم نمودار ہوا وہ مسکراتے ہوئے زیر لب منمنایا، لیکن ایک بار پھر چونک کر کچھ ٹٹولنے کے لیے ہاتھ کو زحمت دینے لگا اسی لمحے اسے کسی کے اپنے قریب ہونے کا احساس ہوا اس نے سر اٹھایا تو دیکھا کہ اس کی ماں اس کے پاس کھڑی تھی اور بڑی ہی شفقت سے اسے کچھ کہہ رہی تھی ماں کا مامتا بھرا مقدس احساس اسے عجیب خوشگوار کیفیت سے سرشار کر گیا ماں کے جانے کے کچھ دیر بعد اس کی چار سالہ بیٹی دوڑتی ہوئی کمرے میں داخل ہوئی اور خرگوش کی طرح اچھل کر اس کی گود میں بیٹھ گئی بچی اپنی توتلی زبان میں دیر تک اسے کچھ سمجھاتی رہی بچی کا معصومانہ انداز اور پرندوں کی سی چہکار سے اس کے دل میں مسرت کے سو دیپ جل اٹھے اسے یہ بات عجیب مگر بے حد خوش کن لگی کہ اس کی ننھی سی بیٹی اتنی پیاری اور اتنی ساری باتیں کر لیتی ہیں بچی نے فرش پر اپنی بے حال پڑی گڑیا کو اٹھا کر سینے سے لگایا اور دروازے سے باہر چلی گئی

اس نے محسوس کیا کہ روز کی طرح آج اسے کسی قسم کا ذہنی تناؤ نہیں تھا، بیدار ہوتے ہی وہ اپنے اندر انوکھی سی قلبی مسرت محسوس کر رہا تھا البتہ ایک بے چینی ضرور تھی، کچھ تو کمی تھی جو بار بار اسے اپنے نہ ہونے کا احساس دلا رہی تھی اسی ادھیڑ بن میں وہ کمرے سے باہر جانے کے لیے پلنگ سے اترا اور دروازے کا رخ کیا اس کمرے کے بغل میں ایک اور کمرہ تھا جس پر ایک سرخ رنگ کا پردہ جھول رہا تھا دائیں طرف کچن تھا جہاں سے ہلکا ہلکا گرم بھپکا اٹھ رہا تھا اور جس جگہ وہ کھڑا تھا وہ اس مکان کا ہال تھا وہ ابھی ہال میں آیا ہی تھا کہ معاً دھاڑ سے گھر کا صدر دروازہ کھلا اس کا دس برس کا گول مٹول بیٹا ہاتھوں میں فٹ بال لیے اندر داخل ہوا اور سلام کرنے کے بعد اس کی طرف مسکرا کر دیکھتے ہوئے سرخ پردے والے کمرے میں جا گھسا بیٹے کو دیکھ کر وہ اس طرح خوش ہوا جیسے مہینوں بعد اسے دیکھ رہا ہو بیٹے کے کمرے میں داخل ہو جانے کے بعد بھی دیر تک اس کے چہرے پر خوشی مسکراہٹ بن کر سجی رہی کچھ دیر بعد بیٹا ہاتھ میں موبائل فون لیے ہال میں آیا اور صوفے پر بیٹھ کر فون میں منہمک ہو گیا بیٹے کو یوں دیکھ کر اسے لگا کسی نے اس کے ذہن پر زور سے دستک دی اسے کچھ یاد آنے لگا، مگر دھندلا سا اس نے دماغ پر زور دیا "کچھ تو ہے جو مس ہو رہا ہے اسی درمیان کچن سے کھٹر پٹر کی آواز آئی تو وہ اس طرف متوجہ ہوا اگلے ہی پل اس کی خوبصورت بیوی ڈوپٹے سے پیشانی پوچھتی ہوئی باہر نکلی اسے دیکھتے ہی وہ ایکدم سے گویا ساکت ہو گیا بیوی کے چہرے کی تازگی، تیکھے نقش نگار اور سَڈول جسم کا لبھاؤ اسے بے قابو کر گیا ایک غیر مرئی قوت اسے بیوی کے قریب لے آئی یک لخت اس نے مضبوطی سے اسے اپنی طرف کھینچ لیا بیوی نے پہلے نرم نرم سا احتجاج کیا، پھر جلدی ہی سل سل کرتی مچھلی کی طرح ہاتھ سے پھسل گئی اور پرے ہٹ کر خود کو سمیٹنے لگی وہ پھر سے چونک پڑا کہ یہ اس کی اپنی ہی بیوی تو ہے، آج اتنی پر کشش کیسے لگ رہی ہے اسی اثنا بیوی کی فون کی رنگ بجی جو اس کے بائیں ہاتھ میں تھا فون کی گھنٹی کی آواز سنتے ہی اس کی کیفیت تبدیل ہو گئی ‘کچھ تو ہے جو مس ہو رہا ہے ‘

"عجیب بے ہودگی ہے دکھائی نہیں دیتا گھر میں ممّی ہیں، بچے ہیں

بیوی کی آواز پر وہ گویا نیند سے جاگا، بیوی کے لہجے میں کچھ حیا بھی تھی اور کچھ ناراضی بھی

"پاپا سنڈے ہے نا آج، آج تو لیے چلو پلیز… ”

بیٹے نے موبائل فون سے سر اٹھاتے ہوئے پر اشتیاق لہجے میں کہا

ہاں ہاں پاپا، پلیج چلو نا گاردن چلتے ہیں

بیٹی بھی کہیں سے ہال میں آ گئی اور اس نے بھی چہکتے ہوئے اس کے پیر کھینچے

اس ادھیڑ بن میں بچوں کا یہ پرجوش اِصرار اسے بھلا لگا اور ابھی وہ اس احساس کی مٹھاس کو اپنے اندر سمو بھی نہ پایا تھا کہ بیوی طنزیہ انداز میں بڑ بڑائی:

"ہفتہ بھر آفس، آفس اور آفس سے موبائل، موبائل ….؟ اس کے علاوہ کچھ ہے بھی کہ نہیں زندگی میں ….؟ ”

یہ کہہ کر وہ براہ راست اس سے مخاطب ہوئی:

گھڑی دیکھی ہے آپ نے؟ بارہ بجے صبح ہو رہی ہے آپ کی زرا اپنے موبائل میں گھڑی بھی دیکھ لیا کیجیے ”

اب کے وہ گویا ہل سا گیا، اس کے چہرے کے الجھے خطوط سلجھ گئے، گویا سارا عقدہ اس پر کھل گیا ہو ابھی آ کر بات کرتا ہوں یہ کہہ کر وہ بڑی سرعت سے اپنے کمرے کی طرف دوڑا کمرے میں پہنچ کر ہانپتے ہوئے بستر کو اتھل پتھل کرنے لگا، میز پر رکھی چیزوں کو مزید بکھیر کے رکھ دیا آخر پلنگ کے نیچے جھانکنے کے لیے جھکا اور جھک کر جب اٹھا تو اس کے چہرے پر یک گونہ اطمینان اور ہاتھ میں اپنا موبائل فون تھا اس نے موبائل فون کو الٹ پلٹ کر دیکھا، رات کو نیند میں موبائل پلنگ کے نیچے گر پڑا تھا اور شاید سوئچ آف ہو گیا تھا وہ کچھ دیر تک بند موبائل فون کو غور سے دیکھتا رہا، پھر کچھ سوچ کر فون کو آن کیے بغیر ہی تکیے کے نیچے رکھ دیا اور مڑ کر ہال کی طرف چل پڑا، جہاں اس کے بیوی بچے اس کا انتظار کر رہے تھے

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے