بھارت کے نوجوان شاعر سالم سلیم کی غزلوں کے مجموعے ’واہمہ وجود کا‘ کی ابتدا ریختہ کے بانی محترم سنجیو صراف صاحب کے اس جملے سے ہوتی ہے جو شاید ’ریختہ بُکس‘ کے تحت اس مجموعے کو شائع کرنے کا جواز بھی ہے کہ:
’’ریختہ فاؤنڈیشن کا ایک اہم اور بنیادی کام اردو شاعری کے لفظ و معنی کے حسن، رنگ و آہنگ اور لمس و ذائقے کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانا اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اس کے دائرہ اثر میں لانا ہے۔‘‘
صراف صاحب کے ابتدائیے کے بعد فرحت احساس صاحب کے استقبالیے کے الفاظ اگلے صفحے پر یوں دمکتے دکھائی دیے:
’’اب سے کوئی دس پندرہ برس پہلے تک، اکثر یہ گمان اور ملال گزر رہا تھا کہ ہماری عظیم شعری روایت شاید اپنا کام کر چکی اور اس کی رگوں میں تازہ خون کی آمد کے تمام راستے بند ہو چکے۔ مگر پھر کچھ آوازیں ایسی آنے لگیں بعض ایسے رنگ چمکنے اور آہنگ اڑنے لگے کہ ہجر کا یہ پھیلتا ہوا سیاہ منظر نامہ ایک نئے وصال کی آہٹوں سے روشن ہونے لگا۔
سالم سلیم اردو شاعری کے امکان زادوں کے اس چھوٹے سے قافلے کے ایک نہایت ممتاز فرد ہیں جس نے خانہ امکان کو اپنی مبارک دستکوں سے بار آور کیا۔ شکر ہے کہ یہ قافلہ اب روز بہ روز بڑھتا اور توانا تر ہوتا جا رہا ہے۔
سالم سلیم اور ان کے ہم قافلہ ہم نفسوں کا سب سے نمایاں اختصاص اپنی زبان، اس کی شعری (خاص طور پر غزل کی) روایت، اس کی قوت اور اس زمانے میں اس کے ممکن ہونے پر ان کا بے پناہ اور نا قابل شکست یقین ہے۔ انہوں نے اپنی عمر کو اردو شاعری کے گذشتہ مگر ہمہ موجود زمانے سے جوڑ لیا ہے، کچھ اس طرح کہ زماندان کی شعری نمود کا مکان بن گیا ہے۔‘‘
میں نے طے کیا کہ ’’واہمہ وجود کا‘‘ کی غزلوں کو ان دونوں بزرگوں کے دعووں کی روشنی میں پرکھا جائے اور یہ سمجھنے کی کوشش کی جائے کہ سالم سلیم واقعتاً ایسے اشعار تخلیق کر رہے ہیں یا یہ دفتر کے سینئروں نے ایک جونیئر کے لیے مروتاً لکھ دیا ہے۔
اس مجموعے میں کُل چورانوے 94 غزلیں شامل کی گئی ہیں اور آخر میں متفرقات کے عنوان تلے وہ اشعار جمع کر دیے گئے ہیں جو شاید اسی لیے کہے گئے ہیں کہ ان کو جب بھی پڑھا جائے تنہا پڑھا جائے۔
سالم سلیم ایک مکمل شعری مزاج کے مالک ہیں اور اطراف کے شعری ہنگاموں سے متاثر ہوئے بغیر سُدھا ہوا شعر کہنے پر یقین رکھتے ہیں۔ ریختہ جیسے بڑے پلیٹ فارم میں اہم عہدے پر فائز ہونے کے باوجود اپنا مقام شعر گوئی کے بل پر چاہتے ہیں تعلقات کی سیڑھی کو استعمال کر کے نہیں۔ ان کی طبیعت میں فطری ٹھہراؤ اور یک گونہ سنجیدگی ہے اور یہ خاصیت ان کی تخلیقات میں واضح طور پر محسوس کی جاتی ہے۔
سالم سلیم روایت سے جُڑے ہوئے ایک تربیت یافتہ شاعر ہیں جو زبان کی نزاکتوں کے ساتھ ساتھ فن عروض کی باریکیوں سے بھی کما حقہ واقف ہیں۔
میں فرحت احساس صاحب کے الفاظ کی روشنی میں ان کی غزلوں کو پڑھنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ان کے لیے توصیفی کلمات سینئروں نے نہیں بلکہ زبان شناسوں اور ادب کے پارکھوں نے لکھے ہیں جو حرف حرف درست ہیں اور سالم سلیم بجا طور پر اس توصیفی سند اور بڑوں کی داد کے مستحق اور اُن کے اعتماد کے اہل ہیں۔
’’واہمہ وجود کا‘‘ سے چند اشعار:
اپنے جیسی کوئی تصویر بنانی تھی مجھے
مرے اندر سے سبھی رنگ تمہارے نکلے
چٹخ کے ٹوٹ گئی ہے تو بن گئی آواز
جو میرے سینہ میں اک روز خامشی ہوئی تھی
پس نگاہ کوئی لو بھڑکتی رہتی ہے
یہ رات میرے بدن پر سرکتی رہتی ہے
میں آپ اپنے اندھیروں میں بیٹھ جاتا ہوں
پھر اس کے بعد کوئی شئے چمکتی رہتی ہے
ندی نے پاؤں چھوئے تھے کسی کے، اس کے
بعد
یہ موجِ تند فقط سر پٹکتی رہتی ہے
میں اپنے پیکر خاکی میں ہوں مگر مری روح
کہاں کہاں مری خاطر بھٹکتی رہتی ہے
ذرا سی دیر جو ہوتی ہے اس کی بارشِ لمس
تو مدتوں مری مٹی مہکتی رہتی ہے
سیاہ پڑتا گیا ہے وہ لمحۂ دیدار
مرے چراغ بھی کتنا دھواں بناتے ہیں
سرابِ جاں سے ہی سیراب ہو گئی مری پیاس
قریب ہی کسی آبِ رواں کے ہوتے ہوئے
یہ میں نہیں مری پرچھائیں ہے ترے آگے
کہ اپنا آپ تو میں گھر پہ رکھ کے آیا ہوں
ہر ایک سانس کے پیچھے کوئی بلا ہی نہ ہو
میں جی رہا ہوں تو جینا مری سزا ہی نہ ہو
جو ابتدا ہے کسی انتہا میں ضم تو نہیں
جو انتہا ہے کہیں وہ بھی ابتدا ہی نہ ہو
مری صدائیں مجھی میں پلٹ کے آتی ہیں
وہ میرے گنبد بے در میں گونجتا ہی نہ ہو
بجھا رکھے ہیں یہ کس نے مرے ہوس کے چراغ
کہیں گذشتہ کسی عشق کی ہوا ہی نہ ہو
عجب نہیں کہ ہو اس آستاں پہ جم غفیر
اور اس کو میرے سوا کوئی دیکھتا ہی نہ ہو
——
سوکھے ہوئے ہونٹوں کو بھگونے میں لگا ہوں
سیراب ہیں سب اور میں رونے میں لگا ہوں
اک روز مرا قتل ہوا تھا مرے ہاتھوں
پھیلا ہوا خون اپنا میں دھونے میں لگا ہوں
اک بار گراں ہے مرے کاندھے پر کہ سر ہے
میں اب بھی اسی بوجھ کو ڈھونے میں لگا ہوں
اس بار تو تم بھی مجھے پانے میں لگے ہو
اس بار تو میں بھی تمھیں کھونے میں لگا ہوں
۔۔۔۔۔۔۔
اچھا ہے سر شام پلٹ آئیں بدن میں
آشوب کچھ ایسا ہے کہ باہر نہ رہا جائے
کرنی ہے ہمیں ایک نئے دشت کی تعمیر
اس بار کسی شہر کا ہو کر نہ رہا جائے
۔۔۔۔۔۔
اندر دنیا بھر کی چپ ہے باہر شور بلا کا ہے
میرے مکاں کے آگے پیچھے پہرہ تیز ہوا کا ہے
اس کے خواب کو دیکھنے والی دونوں آنکھیں میری ہیں
اس کے بعد تو جو بچتا ہے سب سرمایہ خدا کا ہے
۔۔۔۔۔۔۔
سالم سلیم سے گزشتہ ماہ ستمبر ۲۰۲۱ میں پہلی ملاقات ہوئی جو کسی طرح بھی پہلی نہ لگی۔ اس ملاقات کے دوران انہوں نے از راہِ محبت اپنے مجموعے ’’واہمہ وجود کا‘‘ سے بھی نوازا۔ خدا ان کے رزقِ سُخن میں برکت دے اور ان کو بصحت و سلامت رکھے کہ اردو کو نام والوں سے زیادہ کام والوں کی ضرورت ہے اور اعظم گڑھ میں 1985 میں جنما یہ نوجوان اردو کے کام کا ہے۔
٭٭٭