غریب الدیار۔ مسعود جاوید ہاشمی ۔۔۔ ڈاکٹر رؤف خیر

اللہ کا شکر ہے ہمارے دکن کی سرزمین سے بڑی بڑی قابل شخصیتیں اپنے فکر و فن کا لوہا منواتی رہی ہیں۔ شعر و ادب کے حوالے سے گفتگو کی جائے تو امجد حیدرآبادی کی رباعیات کی داد سلیمان ندوی اور جوش ملیح آبادی جیسی مستند ہستیوں نے دی، صفی اورنگ آبادی کی سہلِ ممتنع میں کہی ہوئی غزلیں عوام و خواص کی زبانوں پر رہیں، خورشید احمد جامیؔ جنھوں نے دکن میں نئی غزل کی آبرو قائم رکھی، مخدوم محی الدین جن کے منفرد اسلوب نے ہندو پاک کے خوش سخنوں سے اپنے آپ کو منوایا حتیٰ کہ فیض احمد فیض جیسے عالمی شہرت یافتہ شاعر نے مخدوم کی زمینوں میں غزلیں کہہ کر مخدوم کو خراج تحسین ادا کیا، سلیمان اریب جنھوں نے اپنے مشہور و ممتاز رسالے ’’صبا‘‘ میں ہندو پاک کے بعض لکھنے والوں کی تخلیقات شائع کر کے روشناسِ خلق کروایا، شاذ تمکنت جو اپنی رومانی غزلیں ایسے غنائی لہجے میں لہک لہک کر سناتے تھے جس پر ہزار ترنم قربان، سعادت نظیر جن کی نظمیں بچوں کے رسالوں میں اور غزلیں ماہ نامہ شمع اور ماہ نامہ بیسویں صدی جیسے رسائل میں اہتمام سے شائع کی جاتی تھیں۔ وقار خلیل نے تو ڈاکٹر محی الدین قادری زور کے ساتھ ساتھ مغنی تبسم کی نگرانی میں ادارۂ ادبیاتِ اردو اور سب رس کے لیے اپنی زندگی وقف کر دی تھی، ماہر اقبالیات مضطر مجاز جو محض غالب و اقبال کے مترجم ہی نہیں بلکہ بہت اچھے طبع زاد شاعر اور کاٹ دار نثر نگار تھے۔ طالب خوندمیری جنھوں نے مساجد کے شاندار مینار کے ساتھ ساتھ طنز و مزاح کے مینار بھی ’’سخن کے پردے میں‘‘ دیے۔ پھٹے لباس میں بھی اکڑ کر بیٹھنے والے ایک شاعر قمر رضا تھے جن کی بے نیازی نے انھیں نیاز مندوں سے دور رکھا مگر ان کے نام سے منسوب ایک ایوارڈ ان کی یاد دلاتا ہے۔

بہر حال ایسے بے شمار نام ہیں جن سے دکن کا منظر نامہ عبارت ہے۔ ایسے ہی طرح دار جیالوں سے دکن کا نام چلتا رہے گا۔ مگر افسوس ناک صورتِ حال یہ بھی ہے کہ اہل دکن اپنے سپوتوں کے لیے کسی قسم کا سیمینار اور یادگاری لکچرس کا اہتمام نہیں کرتے۔ 28؍ ستمبر 1908ء کی رودِ موسیٰ کی ہولناک طغیانی میں زندہ بچ جانے والے امجد حیدرآبادی کو اہلِ دکن نے انھیں آسودۂ خاک بنا کے چھوڑا، صفی اورنگ آبادی کی ’’پراگندہ‘‘ خیالی کو خوش خیالوں نے یکسر بھلا دیا، حیات و کائنات ساتھ لے کے چلنے والے مخدوم کی بساط رقص الٹ دی گئی، نئی غزل کے رخسار سحر پر تب و تاب دکھانے والے خورشید احمد جامیؔ کو برگِ آوارہ کی صورت آندھی اور گردباد کے حوالے کر دیا گیا۔ سلیمان اریب کو مور بے مایہ کی طرح گوشۂ نامی میں اُن کی کڑوی خوشبو کے ساتھ Defreeze کر ڈالا گیا، شاذ تمکنت کے تراشیدہ اسلوب کا ورقِ انتخاب بیاض شام سے الگ کر دیا گیا۔

ادارۂ ادبِ اسلامی قابل مبارک باد ہے کہ ملک گیر سطح پر اپنے ادیبوں شاعروں کی قدر افزائی میں کبھی کوتاہی نہیں کرتا۔ حفیظ میرٹھی کا جشن ان کی زندگی ہی میں دہلی میں منایا گیا جس میں پروفیسر عبد المغنی، ڈاکٹر ابنِ فرید، عزیز بگھروی، انتظار نعیم جیسے اکابرین نے ان کے فکر و فن پر مقالے پیش کیے تھے۔

حیدرآباد میں ادارۂ ادب اسلامی واحد فعال ادارہ ہے جو برسوں سے ہر ماہ دو دو تین تین محفلوں کا انعقاد کر کے ادبی برادری کے ذوق کی تسکین کے سامان کرتا رہتا ہے۔

جناب مسعود جاوید ہاشمی ایک قلندر مزاج ادیب و شاعر تھے۔ ترقی پسندوں کی اسلام بیزار تحریروں کے رد کے لیے انھوں نے ماہ نامہ ’’افق‘‘ جاری کیا ان کے ساتھ محترم سید مصلح الدین سعدی جیسے ماہر اقبالیات بھی تھے۔ اس کے بعد ماہ نامہ ’’فن کار‘‘ کے ذریعے بھی جناب مسعود جاوید ہاشمی نے اسلامی ادب کا چراغ جلائے رکھا۔ آخر آخر اس رسالے کو انھوں نے بچوں کی تربیت کا آلۂ کار بنا کر اردو کے ساتھ ساتھ انگریزی تحریر یں بھی شائع کیں۔ ان کے معاون مدیر قریبی دوست جناب سید مقبول حسن رضوی رہے جو امریکہ میں مقیم ہیں۔

مسعود جاوید ہاشمی ایک پُر گو شاعر تھے۔ ان کے کئی شعری مجموعے منظر عام پر آئے ان کا ایک شعری مجموعہ کراچی پاکستان میں بھی شائع ہوا اور ان کی موجودگی میں وہاں اس کی رسم اجرا عمل میں آئی۔ مسعود جاوید ہاشمی صالح فکر کے حامل شاعر تھے ان کی حمد و نعت اور غزل میں یہی صالح فکر کار فرما تھی۔ وہ نہایت منکسر مزاج و مخلص آدمی تھے۔ ایسے بے نیاز قلندر مزاج شاعر کو خراج عقیدت پیش کرنا میرے لیے عین سعادت کی بات ہے۔ نظم و نثر میں جناب مسعود جاوید ہاشمی کی یادگار کتابیں ان کی فکری پختگی کا شاہ کار کہی جا سکتی ہیں۔ ان کے شعری مجموعے ہیں: دسترس، حرفِ عطر بیز، روشنی کے پھول، دل کُشا، پیام دوست، نقشِ آرزو، صدف صدف گہر، گل گشت، منشورات کراچی کے زیر اہتمام نقشِ آرزوان کا پاکستانی ایڈیشن ہے 2016ء میں ان کی کلیات ’’نقش قدم‘‘ کے نام سے مکتبۂ الفاروق دہلی سے شائع ہوئی۔ مسعود جاوید ہاشمی نے بعض شخصیات پر خاکے لکھے اور تنقید اور تبصروں پر مشتمل ان کی کتاب ’’آبدار موتی‘‘ ادارۂ ادبِ اسلامی حیدرآباد کے زیر اہتمام 2012ء میں منظر عام پر آئی۔

راسخ العقیدہ مسعود جاوید ہاشمی نے حمد و نعت میں بھی اعتدال کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ ورنہ بعض شاعر غلو میں عشق نبی میں حد سے گزر جاتے ہیں:

عاجز و بندۂ ناچیز ہے جاویدؔ ترا

ہے مگر اس پہ بھی ہر آن عنایت تیری

بندۂ مومن صرف قرآن و سنت ہی سے وابستہ رہتا ہے۔ اسی خیال کو جاوید نعت میں فرماتے ہیں:

جادۂ حق کے سوا اور کہاں دیکھتے ہیں

ہم تو بس آپؐ کے قدموں کے نشاں دیکھتے ہیں

اور غزل بھی کہتے ہیں تو ان کے تیور سب سے الگ ہوتے ہیں:

دکھانے کرتب و جادو گری نہیں آیا

میں بانٹنے کو یہاں گم رہی نہیں آیا

اور ایک غزل کے بے پناہ شعر ہیں:

قربِ حبیب کے لیے سجدہ دیا گیا

مجھ کو حریمِ ناز میں پہنچا دیا گیا

حیوان کی جبلتیں مجھ میں رکھی گئیں

انسانیت کا تاج بھی پہنا دیا گیا

ادارۂ ادبِ اسلامی پورے ملک میں ہر ماہ ادبی سرگرمیوں کے ذریعے ادیبوں شاعروں کو جوڑے رکھتا ہے۔ نئی نسل کی ادبی تربیت کے ساتھ ساتھ معاصر قلم کاروں کو مشق و مزاولت کے مواقع ملتے رہتے ہیں۔ مسعود جاوید ہاشمی بھی حیدرآباد کے ادارۂ ادبِ اسلامی کے زیرِ اہتمام ایسے ہی طرحی مشاعروں میں پابندی سے شریک ہوا کرتے تھے اور اپنی اسلامی فکر سے مملو اشعار کی خوب داد بھی پایا کرتے تھے۔ ان کے شعری مجموعوں صدف صدف گہر، دل کشا، دسترس، گل گشت، پیام دوست اور نقش آرزو وغیرہ میں ایسی ہی غزلیں شامل ہیں۔

جناب مسعود جاوید ہاشمی نے ناچیز رؤف خیر ؔ کی زمینوں میں بھی نعتیں اور غزلیں کہی ہیں جو ان کے مجموعوں میں شائع ہوئی ہیں۔

جناب مسعود جاوید ہاشمی نہایت منکسر مزاج مخلص اور ہمدرد شخصیت تھے۔ انھوں نے ترقی پسند ادیبوں کی دہریت اور جدیدیوں کی لایعینیت کا رد کرنے کے لیے جناب مصلح الدین سعدی، بدنام رفیعی جیسے تجربہ کار ادیبوں کے ساتھ مل کر ماہ نامہ ’’افق‘‘ جاری کیا۔ اس کی پذیرائی کم کم ہوئی۔ ظاہر ہے چسکا تو غیر اسلامی فکر کو کھُل کھیلنے والے ادب ہی میں ملتا ہے۔ جنسی چٹخارے والے سیاہ حاشیے اور سرخ زاویے ان کے ’’افق‘‘ پر ہویدا نہیں ہو سکتے تھے۔ لہذا یہ ’’افق‘‘ حیاتِ جاوید نہ پا سکا اور تاریکی میں ڈوب گیا۔

انھوں نے دوسرا رسالہ ’’فن کار‘‘ جاری کیا اس میں بھی صالح ادب کی بے فیض ترجمانی جاری رکھی مگر ادب کا آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ ’’فن کار‘‘ کا چاک کوزہ گری کا ہنر نہ دکھا سکا۔ جناب مقبول رضوی مقیم امریکہ کے تعاون سے بچوں کی تربیت کی خاطر آدھا اردو آدھا انگریزی میں ’’فن کارِ نو‘‘ جاری کیا۔ یہ رسالہ بھی چند برس ہی زندہ رکھا جا سکا۔

جماعتِ اسلامی کے رکن جماعت جناب مسعود جاوید ہاشمی نے اپنے رسالوں اور مشاعروں کے ذریعے کا فی خدمت کی مگر دکن اور بیرونِ دکن ان کی خاطر خواہ پذیرائی ادبی سطح پر نہیں ہوئی۔ ادیبوں شاعروں کا ایک سنڈیکیٹ بنا ہوا ہے۔ کوئی ادبی سیمینار منعقد کیا جاتا ہے تو یونیورسٹی کی سطح پر بھی ایسے ہی پروفیسروں کو مدعو کیا جاتا ہے جن سے جواباً مدعو کیے جانے کی توقع ہوتی ہے۔ کل ہند مشاعروں کا بھی یہی حال ہے کہ متشاعروں اور شاعروں کا گروپ بنا ہوا ہے ہر گروپ اپنے طائفے کے شاعروں اور متشاعرات کو لے کر مشاعروں میں پہنچتا ہے۔ والی آسی لکھنؤ سے ایک غیر مسلم ریلوے آفیسر کو شاعر بنا کر اپنے ساتھ لاتے تھے جو ان کی آمدو رفت کا انتظام کرتا تھا۔ اکاڈمیوں کے انعامات و اکرامات بھی انہی کے حصے میں آتے ہیں جو ارباب مجاز کی Good Books میں ہوتے ہیں۔ مسعود جاوید ہاشمی کو انڈین ایمبسی ریاض کی طرف سے سعودی عرب میں مشاعرے میں مدعو کیا گیا تھا مگر لمحۂ آخر میں ان کی جگہ شاعروں کے کسی سنڈیکیٹ کے کسی اور شاعر کو شامل کر لیا گیا اور مسعود جاوید ہاشمی منہ دیکھتے رہ گئے۔ کسی شاعر کے آگے ’’زانوئے تلذذ‘‘ تہہ کر کے کلام حاصل کرنے والی متشاعرات مستحق جینوئن Genuine شاعروں کا حق مارتی ہیں بے چارے منتظمین مشاعرہ شاعروں کے سنڈیکیٹ کی شرائط کے پابند ہو کر مجبور ہوتے ہیں۔

جناب مسعود جاوید ہاشمی نے بعض شخصیات سے اپنے تعلقات کا اظہار بھی کیا اور بعض شاعروں کے مجموعے سامنے رکھ کر ان کے فکر و فن پر اپنے تاثرات پیش کیے، ایسے سارے مضامین ’’آب دار موتی‘‘ کے نام سے 2012ء میں آندھرا پردیش اردو اکاڈمی کے جزوی مالی تعاون سے ادارۂ ادب اسلامی حیدرآباد کے زیر اہتمام منظر عام پر آئے۔ اس کا دیباچہ جناب سید شکیل احمد اور پیش لفظ رؤف خیر نے لکھا:

جناب مسعود جاوید ہاشمی کبھی حلقۂ ادب اسلامی سے باہر قدم نہیں نکالتے تھے اور اسی حلقے میں محصور ادیبوں شاعروں کے ساتھ وقت گزارتے تھے۔ ادارۂ ادب اسلامی کے لیے حفیظ میرٹھی ترپ کے پتے Trump Card کا درجہ رکھتے تھے۔ ان کی زندگی ہی میں ادارے کے تحت جشنِ حفیظ میرٹھی دہلی میں منایا گیا تھا جس میں پٹنہ سے پروفیسر عبد المغنی، علی گڑھ سے ابنِ فرید اور حیدرآباد سے جناب مسعود جاوید ہاشمی، ناچیز رؤف خیر اور طاہر گلشن آبادی شریک ہوئے تھے۔ جناب حفیظ میرٹھی کے فکر و فن کے حوالے سے لکھا ہوا میرا مضمون ان کے بارے میں مضامین پر مشتمل کتاب میں شامل ہے۔ جناب مسعود جاوید ہاشمی نے حفیظ میرٹھی پر جو سیر حاصل مضمون لکھا وہ ’’آب دار موتی‘‘ میں شامل ہے۔ عامر عثمانی، علی الدین نوید، ابو المجاہد زاہد، لطیف آرزو، سید جمال امین آبادی، حلیم بابر، نجم السحر صدف، جلال عارف، قمر خلیل نائطی، محمود حسینی، افضل وارثی اور خورشید علی ساجد کی شاعری پر روشنی ڈالی اور اپنے رفقا جناب مصلح الدین سعدی، عنایت علی خان، خواجہ معین الدین عقیل (پاکستانی نہیں بلکہ ورنگلی)، عبد الرزاق لطیفی، ابو الفہم وحید علی خان اور حنیف شباب جیسے بے لوث کارکنانِ جماعت اسلامی کا بڑے خلوص سے ذکر کرتے ہوئے ان کی خدمات کو کھلے دل سے سراہا۔

۱۳؍ جنوری 1938ء کو ورنگل میں پیدا ہونے والے مسعود جاوید ہاشمی (ہاشم معز الدین) کا انتقال ۲۲؍جنوری 2023ء کو پچاسی سال کی عمر میں ہوا اور ان کے تینوں اہل حدیث بیٹوں نے مسجد محمدیہ مرکز جمعیت اہل حدیث لنگر حوض حیدرآباد میں نماز جنازہ کا اہتمام کیا۔ ان کے بڑے فرزند ظفر بھائی نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی وہیں قریب کے قبرستان میں بعد عشا تدفین عمل میں آئی۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ اتوار کی چھٹی ہونے کے باوجود سوائے رؤف خیر اور طاہر گلشن آبادی کے ان کے جنازے میں دیگر شاعروں نے شرکت کی زحمت نہیں کی۔ فاعتبرو یا اولی الابصار۔ مسعود جاوید ہاشمی کی پوری زندگی قرآن و حدیث کا درس دینے، ادب اور دین کی خدمت میں گزری۔ اللہ تعالیٰ ان کے حسنات کو قبول فرمائے اور ان کی مغفرت فرمائے۔

٭٭٭0

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے