دل کا ہر ایک زخم گہرا ہے
اس سے ہر وقت خون رستا ہے
دم لیا ہم نے غم کے سائے میں
ورنہ ہر سمت خشک صحرا ہے
اس کو کس طرح میں بھلا دیتا
جس کا ہر دم خیال آتا ہے
بجھ گیا جب سے اپنے دل کا چراغ
چاندنی کا بھی رنگ پھیکا ہے
اک سہارا ملا ہے غم کا ہمیں
ورنہ دنیا میں کون کس کا ہے
یوں تو کونین میرے سامنے ہیں
کون میری نظر میں تجھ سا ہے
یہ بتائے کوئی کرامتؔ سے
مختلف سب سے اس کا لہجہ ہے
٭٭٭
پہاڑ جو کھڑا ہوا تھا خواب سا خیال سا
بکھر گیا ہے راستے میں گرد ماہ و سال سا
نظر کا فرق کہئے اس کو ہجر ہے وصال سا
عروج کہہ رہے ہیں جس کو ہے وہی زوال سا
تمہارا لفظ سچ کا ساتھ دے سکا نہ دور تک
مثال جس کی دے رہے ہو ہے وہ بے مثال سا
خلوص کے ہرن کو ڈھونڈ کر ریا کے شہر میں
مرے عزیز کر رہے ہو تم عجب کمال سا
عداوتوں کی موج جس زمیں پہ بو گئی نمک
اگے گا سبزہ زار اس جگہ یہ ہے محال سا
شب وصال آئینے میں پڑ گیا شگاف کیوں؟
ہمارا دل تو صاف ہے تمہیں ہے کیوں ملال سا
کرامتؔ حزیں فرار ہو کے حال زار سے
گزشتہ عہد سے ملا تو وہ لگا ہے حال سا
٭٭٭
ہستی کو جمال دے رہا ہوں
میں تیری مثال دے رہا ہوں
معنی پہ چڑھا کے غازۂ نو
لفظوں کو خیال دے رہا ہوں
ماضی پہ نگہ ہے اپنی گہری
فردا کو میں حال دے رہا ہوں
مشکل بھی ہے اور سہل بھی ہے
ایسا میں سوال دے رہا ہوں
شیشہ گری ہے عجیب میری
آئینے کو بال دے رہا ہوں
ماحول میں ہے کچھ ایسی خنکی
جذبات کو شال دے رہا ہوں
کیوں عارض وقت اب نہ نکھرے
فن کا حسیں خال دے رہا ہوں
امروز کے جتنے ہیں مسائل
فردا ہی پہ ٹال دے رہا ہوں
پھنس کر یوں شکنجے میں گنہ کے
مکڑی کو میں جال دے رہا ہوں
گمراہ زمانہ ہے تو کیا غم؟
شمع مہ و سال دے رہا ہوں
دل ٹوٹ گیا تو کیا کرامتؔ
پیغام وصال دے رہا ہوں
٭٭٭
جو نام سب سے ہو پیارا اسے مکان پہ لکھ
بدن کی حد سے گزر اور اس کو جان پہ لکھ
بجا ہے کرتے ہیں پانی پہ دستخط سب لوگ
جو حوصلہ ہے تو نام اپنا آسمان پہ لکھ
تو لکھنے بیٹھا ہے میرے خلوص کا قصہ
یقین پر نہیں لکھتا نہ لکھ گمان پہ لکھ
صحیفۂ دل بیتاب کی نئی تفسیر
قلم اٹھا اور اسے وقت کی زبان پہ لکھ
سفر مدام سفر ہی تو ہے سفر کا صلہ
تو اپنا قصۂ لا سمتیت اڑان پہ لکھ
سنوار شانۂ فن سے تو زلف قوس قزح
تو زندگی کے خم و پیچ پھر کمان پہ لکھ
جو ”قل” مسور پہ لکھتے ہیں ان کا فن ہے جدا
تو خون دل سے کوئی شعر مرتبان پہ لکھ
ہر ایک چیز یہاں پریم ہی سے ملتی ہے
یہ اشتہار کرامتؔ تو ہر دکان پہ لکھ
٭٭٭
مری گردن پہ گرتے ہیں تو خنجر ٹوٹ جاتے ہیں
جو دشمن مجھ سے ٹکراتے ہیں اکثر ٹوٹ جاتے ہیں
کبھی ساحل سے ٹکرا کر مری کشتی بکھرتی ہے
کبھی کشتی سے ٹکرا کر سمندر ٹوٹ جاتے ہیں
اک ایسا دور بھی آتا ہے کوشش کے علاقے میں
عمل بیکار ہوتا ہے، مقدر ٹوٹ جاتے ہیں
یہ دل ہے، ہاتھ میں لینے سے پہلے یہ سمجھ رکھو
ذرا سی ٹھیس لگ جانے سے ساغر ٹوٹ جاتے ہیں
جو تصویریں بناتا ہوں، وہ میرا منہ چڑاتی ہیں
اُبھرتے ہیں تصور میں جو پیکر ٹوٹ جاتے ہیں
تکبر اک بری شے ہے، اِسے سر پر نہ بٹھلاؤ
جو سر اوپر اُچھلتے ہیں، وہی سر ٹوٹ جاتے ہیں
نَفَس میں نَفس ملتا ہے تو ایمان ڈگمگاتا ہے
جہاں اُمت بہکتی ہے، پیمبر ٹوٹ جاتے ہیں
کرامتؔ خواب میں یوں خواب کا منظر نہ دیکھو تم
حقیقت جاگ اُٹھتی ہے تو منظر ٹوٹ جاتے ہیں
٭٭٭