سورج نے رمضان کے پہلے روزے بھی حسب معمول 10 بجے دکان کھولی اور صفائی شروع کر دی۔ مشینیں باہر ڈِسپلے کیں۔ شیشوں کو اخبار سے اچھی طرح صاف کیا۔ وہ قسطوں کی دکان پر ملازمت کرتا تھا۔ مالکِ دُکان شیخ صاحب 11 بجے دکان پر آئے۔ سورج نے ان سے روزے کا احوال پوچھا:
’’شیخ صاحب ! آپ کا روزہ ہے؟’’
’’نہیں بیٹا ! روزہ کہاں ؟ اب کہاں ہم مریضوں سے روزہ رکھا جاتا ہے’’
’’شیخ صاحب! اچھے بھلے جوان ہیں آپ’’
’’نہیں پتر! شوگر کا مریض ہوں اور مجھے تو ہر تھوڑی دیر بعد بھوک لگتی ہے’’
وضاحتی بیان سن کر اس نے ’’پرفارمے’’ پکڑے اور ریکوری پر نکل گیا۔ دوپہر 1 بجے دکان پر واپس آیا۔ شیخ صاحب کو ریکوری تھما کر، اجازت پا کر ان کے لیے پھیکی چائے اور اپنے لیے پانی کی تلاش میں نکل گیا۔ آج کے دن تمام ہوٹل بند تھے۔ وہ پان شاپ پر گیا جسے قناطوں سے چھپایا گیا تھا اور ظاہر یہ کیا گیا تھا کہ دکان بند ہے۔ وہاں سے اس نے ٹھنڈے پانی کی بوتل خریدی اور تھوڑے فاصلے پر چائے کی دکان (اس کے گرد بھی قناط لگے ہوئے تھے) سے پھیکی چائے شاپر میں ڈلوا لی۔ اس سے پیاس برداشت نہ ہوئی تو اس نے بوتل کا ڈھکن کھولا اور پانی سڑک پر ہی پانی پینا شروع کر دیا۔ راستے میں کھڑے پولیس کے گنبد نما توند رکھنے والے جوانوں نے دیکھ لیا اور اسے احترام رمضان آرڈیننس کی قانون شکنی کے جرم کا ارتکاب کرتے ہوئے پکڑ لیا جس پر اس نے احتجاج کیا:
’’اوہ سر جی! میرا کیا قصور ہے؟ میں نے ایسا کیا کر دیا ہے؟’’
دیکھ فرید! اسے پتا ہی نہیں اس نے کیا کر دیا ہے۔ اس کی گردن میں لگا ایک’’ اور تھپر مار دیا گیا۔
’’اوہ سر جی ہُوا کیا ہے؟’’
’’اوئے ماں کے پُوت ! کھُلے میں پانی پی رہا ہے اور ہاتھ میں چائے لے کر جا رہا ہے۔ سر عام قانون شکنی کر رہا ہے اور الٹا ہم سے پوچھ رہا ہے کہ میں نے کیا کِیا؟’’
’’تو پانی پینا کوئی جُرم ہے؟ میں پیاسا تھا میں نے پی لیا۔ اس میں مارنے والی کیا بات ہے؟’’
’’بدتمیزی کرتا ہے سالے؟ چھوڑوں تیرے کان کے نیچے ایک اور؟ ہٹا کٹا ہے تُو، روزے بھی رکھ سکتا ہے تجھے پتا نہیں رمضان ہیں۔ اور یوں کھلے میں کھانا پینا جرم ہے’’
’’میں تو حیران ہوں آپ پر، کس نے یہ فرسودہ قانون بنایا ہے؟ میں نے تو سنا تھا اسلام زبردستی کا دین نہیں ہے۔ وہ تو امن کا دین ہے اور آپ لوگ زبردستی اسلام نافذ کر رہے ہیں؟’’
’’تجھے جب حوالات میں لے کر جائیں گے تب سارے ہوش ٹھکانیں آ جائیں گے’’
’’سر جی! رمضان کا مہینہ جب خُدا نے اتارا تھا تو کیا رمضان آرڈینینس اتارنا بھول گیا تھا؟’’
پولیس والے دھکے مار مار کر وین کی طرف لے کر جاتے رہے۔
’’حرام زادے! بکواس کرتا ہے؟ تجھے نہیں پتا لوگوں کا روزہ خراب ہوتا ہے’’
’’کیا اتنا ہی کچا ایمان ہے تم مسلمانوں کا؟’’
محافظ فرید نے ایک اور تھپڑ کان کے نیچے کھینچ کر مارا اور اسے حوالات کی سیر کروانے کے لیے وین کے حوالے کر دیا۔
٭٭٭