اس سال ۱۸ جنوری ۲۰۱۹ کو ادبی دنیا کے افق سے ایک اور ستارہ ٹوٹ گیا۔ پچھلے کچھ ماہ سے اردو فکشن پر مصیبت کی گھڑی آ پڑی ہے ایک سے ایک بڑی ہستی جدا ہوتی جا رہی ہے۔ پہلے فہمیدہ ریاض، عمر میمن، ساقی فاروقی، فضیل جعفری، قاضی عبدالستار، اور پروفیسر حامدی کاشمیری وغیرہ ہم سے جدا ہو گئے، اور اب اقبال مجید بھی چلے گئے۔ اقبال مجید کی صورت میں ہم نے ایک بہت بڑا فکشن نگار کھو دیا۔ اقبال مجید کی رحلت نے بے حد مغموم کیا۔ بلا شبہ وہ اردو کے ان معدودے چند افسانہ نگاروں میں سے تھے جن کے تخلیق پارے ادب میں گراں قدر سرمایہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اقبال مجید ۱۲ جولائی ۱۹۳۴ء میں اترپردیش کے ایک مردم خیز علاقے مراد آباد میں پیدا ہوئے، ان کے والد مجید صاحب اس زمانے میں شاہجہاں پور کے ریلوے میں کلرک کے عہدے پر تھے۔ ان کی گریجویشن کی تعلیم لکھنؤ یونیورسٹی سے ہوئی بعد ازاں کانپور یونیورسٹی سے سیاست میں ایم اے کیا اور مزید تعلیم کے لئے علی گڑ ھ مسلم یونیورسٹی بھی گئے، اور وہاں سے بی۔ ایڈ کی سند حاصل کی، مگر ادبی دنیا میں ان کی افسانہ نگاری کی ابتدا لکھنؤ سے ہی ہو چکی تھی اور وہ ’’عدو چچا‘‘ جیسا افسانہ لکھ کر شہرت پا چکے تھے۔ اقبال مجید کی ذہنی تربیت اس عہد کے ترقی پسند مصنفین اور لکھنؤ کے اس عہد کے افسانہ نگاروں کے بیچ ہوئی تھی۔ انجم عثمانی فرماتے ہیں کہ:
’’ اقبال مجید اردو افسانہ نگاروں کی اس صف سے تعلق رکھتے ہیں جنہوں نے کرشن چندر، راجندرسنگھ بیدی، سعادت حسن منٹو، عصمت چغتائی وغیرہ کے فوراً بعد اور قرۃالعین حیدر، غلام عباس، جیلانی بانو، رتن سنگھ، قیصر تمکین، عابد سہیل، جوگندر پال، غیاث احمد گدی، اور قاضی عبدالستار، وغیرہ کے تقریباً ساتھ ساتھ اردو افسانے کو زندہ رکھنے اور اسے معیار عطا کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ ‘‘
اقبال مجید کچھ دنوں تک صحافت کی دنیا سے بھی منسلک رہے، پھر سرکاری ملازمت مدرسی بھی کی، مگر مدّرسی کا پیشہ ترک کر کے اپنا کیریر آل انڈیا ریڈیو سے شروع کیا یہ پیشہ ان کے مزاج اور تخلیقی میدان سے مناسبت رکھتا تھا اور ۱۹۵۲ء میں اسسٹنٹ اسٹیشن ڈائرکٹر کے عہدے سے سبکدوش ہوئے۔ وہ کئی سال تک بحیثیت سکریٹری مدھیہ پردیش اردو اکادمی بھوپال سے بھی وابستہ رہے۔ ان کے افسانوی مجموعوں میں دو بھگے ہوئے لوگ ۱۹۷۰ء، ایک حلفیہ بیان، شہر بد نصیب، آگ کے پاس بیٹھی عورت، قصہ رنگ شکستہ، تماشہ گھر اور دو ناول نمک، اور کسی دن ہیں۔ انھوں نے کئی اعلیٰ درجے کے ڈرامے بھی لکھے۔ ان کا پہلا ڈرامہ ’’کتّے‘‘ جو انھوں نے ۱۹۷۴ء میں لکھا تھا، بہت مقبول ہوا۔
اردو فکشن کے تخلیق کاروں کا کتنا ہی سخت انتخاب عمل میں لایا جائے اس میں اقبال مجید کا نام ضرور لیا جائے گا۔ اقبال مجید کے افسانوں میںانسان کی داخلی اور روحانی الجھنوں کو موضوع بنایا گیا ہے۔ افسانوی تکنیک میں بھی انھوں نے بعض اہم تجربے کیئے ہیں تاہم کہانی میں کہانی پن کے عنصر کو بھی برقرار رکھا ہے۔ انہوں نے اپنے افسانوں، ڈراموں، اور ناولوں میں سیاسی و سماجی شعور کے ساتھ نفسیاتی بصیرت سے بھی بخوبی کام لیا ہے۔ اقبال مجید بنیادی طور پر افسانہ نگار تھے لیکن اُنھوں نے ’’کسی دن‘‘ اور ’’نمک‘‘ جیسا ناول لکھ کر اردو ناول کی دنیا میں بھی اپنی پہچان قائم کر لی، اور ان کا فن ان کے ناولوں میں زیادہ کھل کر سامنے آیا۔ ’’کسی دن‘‘ اقبال مجید کا پہلا ناول ہے جو ۱۹۹۷ء میں شائع ہوا، جب کے نمک ۱۹۹۹ء میں منظر عام پر آیا۔ اور یہ محض اتفاق کی ہی بات ہے کے کچھ ماہ قبل ان کا ناول نمک میرے زیر مطالعہ رہا۔
پروفیسر شارب ردولوی ان کے متعلق فرماتے ہیں کہ :’’اقبال مجید اردو فکشن کی اس نئی معنویت کے نمائندہ افسانہ نگار ہیں جنہوں نے اردو فکشن میں اپنے تخلیقی رویّے، معاصر مسائل کو پیش کرنے کے انداز، زبان کے تخلیقی اور فطری استعمال سے ایک نئی فضا تشکیل دی۔ ان کی تخلیقی صلاحیت ان کے ناولوں میں زیادہ سامنے آئی اس لئے شاید ’سڑی ہوئی مٹھائی‘ اور ’موٹی کھال‘ میں وہ جو کچھ کہنا چاہتے تھے نہیں کہہ سکے اور انھیں ’’کسی دن‘‘ اور ’’نمک‘‘ جیسا ناول لکھنا پڑا۔‘‘
اقبال مجید نے ناول ’’کسی دن‘‘ میں ایک ساتھ تین نسلوں کو پیش کرنے کی کوشش کی ہے، پہلی نسل میں شوکت جہاں اور قدرت ﷲ کا باپ ہے جو زندگی بھر ایک سیاسی جماعت کی خدمت کرتا ہے، دوسری نسل میں شوکت اور قدرت شامل ہیں جو اپنی عفت، پارسائی اور عصمت کی حفاظت اور رزقِ حلال کے لئے کوشاں نظر آتے ہیں۔ شوکت سیاست کے ذریعہ قوم کی خدمت کرنا چاہتی ہے لیکن موجودہ سیاست میں یہ خارج از امکان ہے۔ تیسری نسل کی نمائندگی کمّو کرتی ہے، وہ نئے زمانے میں رچ بس گئی ہے اس لئے متوسط طبقہ سے تعلق رکھنے کے باوجود وہ سماجی و اخلاقی قدروں سے بے نیاز ہو جاتی ہے۔ ــ’’کسی دن‘‘ کے مرکزی کردار پرتاپ شکلا اور شوکت جہاں ادا کرتے ہیں، اس کے علاوہ قدرت اﷲ، ممو خان، شہباز خان، عائشہ اور کمّو کے اِرد گرد ناول کا تانا بانا بنا گیا ہے۔ پرتاپ شکلا ایک بہت ہی خود غرض ودھایک ہے جو اپنی ترقی کے لئے دوسروں کا بخوبی استعمال کرنا جانتا ہے۔ وہ شوکت کا جسمانی استحصال کر کے اپنے سیاسی مقاصد پورے کرنا چاہتا ہے۔ دوسری طرف شوکت جہاں ہے جو سیاست کے ذریعہ قوم کی خدمت کرنا چاہتی ہے۔ وہ تعلیم یافتہ، حسن اخلاق، نیک سیرتی اور نہایت خوبصورت ہے۔ شوکت کے والد جو کہ ایمانداری کی مثال ہے اور اس نے اپنی پوری زندگی ایک سیاسی پارٹی کی خدمت کی مگر اپنے بیٹے قدرت اﷲ کو ایک راشن کی دکان کا License بھی نہں دلوا پاتا ہے۔ قدرت اﷲ حافظِ قرآن ہے اسے دو وقت کی روٹی کے لئے ایک فرقہ پرست پارٹی کے اخبار میں کام کرنا پڑتا ہے جہاں اسے ہر وقت بے عزت کیا جاتا ہے۔ پرتاپ شکلا جنسی استحصال کے لئے شوکت کو شیشہ میں اُتارنے کی پوری کوشش کرتا ہے مگر کامیاب نہیں ہو پاتا ہے اور اس کا قتل بھی کروا دیتا ہے، ، ناول میں جہاں پرتاپ شکلا کا کردار مطلب پرست ہے وہیں دوسری طرف شوکت جہاں کے کردار میں آدرش واد کی جھلک نظر آتی ہے۔
شوکت جہاں، پرتاپ سے کہتی ہے ’’آپ کو منتری بننے کے لئے اُردو اور علی گڑھ کو گالی دینا ضروری ہے!! مگر میرے لئے نہیں!!۔ پرتاپ بھڑک اُٹھتا ہے۔ تمہارے لئے ضروری ہے۔ {Main Stream} مرکزی دھارے میں شامل ہونے کے لئے یہ باتیں ہندو تمہارے منہ سے سننا چاہتے ہیں۔ لیکن تم سمجھنا چاہو تب نا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !
شوکت: یہ نہرو کا سیکولرِزم تو نہیں ہے۔
سیکولرِزم کسی گھرانے کی جاگیر نہیں۔ ۔‘‘
مندرجہ بالا اقتباس سے شوکت جہاں اور پرتاپ شکلا دونوں ہی کرداروں کے ذہن و نظر کو بخوبی سمجھا جا سکتا ہے۔ ممو خان کا کردار بھی ہمارے سماج سے ہی اخذ کیا گیا ہے، یہ ایک ایسا کردار ہے جو نہ صرف مذہبی اعتبار سے جذباتی ہے بلکہ مذہب و تہذیب کے نام پر قتل و غارت کے لئے بھی تیار رہتا ہے۔ اس ناول میں کمّو کا کردار بھی بہت جاندار ہے وہ قدرت اﷲ کی بیٹی ہے، کہانی اس کے اِرد گِرد گھومتی ہے۔ ناول ’’کسی دن‘‘ کا موضوع آج کی سیاست اور سماج و معاشرت کی تصویر کشی ہے۔ انھوں نے اقلیتی کردار اور مسلمانوں کے مسائل اور درد و غم کو خوبصورتی سے پیش کیا ہے۔ سیاست پر طنز کرتے ہوئے ناول کا بیان یہ ہے کہ ’’سیاست میں ہمارا کام یہ تلاش کرنا نہیں کہ سچ کیا ہے بلکہ ہمارا کام یہ تلاش کرنا ہے کہ وہ سچ کیا ہے جو ہمیں درکار ہے۔‘‘ دراصل اقبال مجید نے تین نسلوں کے ذہنی اختلاف کے ساتھ ساتھ قدروں کے تصادم کو بھی پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔
’’کسی دن‘‘ میں شروع سے آخر تک ہر کردار کو کسی نہ کسی ڈر کے سائے میں دکھایا گیا ہے۔ پرتاپ شکلا کو اپنے اعلیٰ احکام کا ڈر، شوکت کو پرتاپ کا ڈر، قدرت ﷲ کو رزق حلال نہ کما پانے کا ڈر، ممو خان کا کردار ہو یہ شہباز خان یہ کمّو کا کردار، یہ تمام کردار ایک انجانے خوف میں مبتلا نظر آتے ہیں۔ ناول نہ تو کسی سیاسی دور کی تاریخ ہے نہ سیاست نامہ بلکہ حالیہ سیاسی رجحان اور طرز فکر کی طنز آمیز عکس گیری ہے۔ یہاں ڈسٹرب کر دینے والا بیانیہ کلام بھی ہے اور عمدہ فکشن نگاری بھی۔
اقبال مجید کا دوسرا ناول ’’نمک‘‘ ہے۔ جی ہاں!! وہی نمک جس کا استعمال ہم اپنی روز مرہ کی زندگی میں کرتے ہیں، اور جس کی غیر موجودگی سے ہمارے پکوان ہی نہیں بلکہ ہماری زندگی بھی بے ذائقہ ہو جاتی ہے، نمک انسان کی زندگی کی ایک بنیادی ضرورت ہے، مگر اقبال مجید کے ہاتھوں میں یہ نمک ذوق کا استعارہ بن گیا ہے۔ نمک ذائقے کی بنیاد ہے اور اس ناول کی روح ہے۔ یہ کہانی زہرہ خانم عرف محبوب جان، جو کہ اتراولی کی ایک مشہور موسیقی نگار رقّاصہ کی زندگی کے ماضی و حال کی کہانی ہے۔ جو کہ خود اپنے ہی گھر ’’دار الااستکبار‘‘ میں پیچھلے ۳۳سال سے کمرا نمبر ایک میں خود اپنے بیٹے کے ہاتھوں نظر بند ہے۔ ’’دار الااستکبار‘‘ ایک ۲۰ کمروں والی ۲ منزلہ عمارت ہے اور اس میں ایک ہی خاندان کے پانچ کنبے مقیم ہیں۔ ناول کے اہم کرداروں میں زہرہ خانم کے علاوہ استم، سم سم، ابو بکر، اور اشوتوش ہیں۔ نمک دو عہد، دو تہذیب اور نظریہ حیات کی جنگ ہے جس کے تضاد کو اقبال مجید نے زہرہ خانم، استم، سم سم، ابو بکر اور اشوتوش جیسے کرداروں سے ظاہر کیا ہے۔ ناول کی ابتداء میں زہرہ خانم کا اپنی پوتی استم سے یکایک دریافت کرنا ’’بیٹی تیرا نمک کہاں ہے‘‘ اور ناول کے اختتام پر اپنی پرنواسی سم سم سے کہنا ’’بِٹیا زہرہ کا نمک اٹھ چکا، جو باقی تھا وہ ذائقے کے لیے نہیں زخموں پر چھڑکنے کے لئے ہے‘‘ ( نمک ص ۱۳۶) اقبال مجید نے دونوں ہی جگہ لفظ نمک کو بطور استعارہ استعمال کیا ہے اور اپنے ناول کو بلیغ استعارہ بنا دیا ہے۔
ناول ’’نمک‘‘ کی کہانی اس طرح ہے کہ استم اور ذکی دونوں نسل نو کے پاسدار ہیں، ان کے بیچ ذاتی تعلقات ہیں اور استم وقت سے پہلے حاملہ ہو جاتی ہے، مگر دونوں شادی نہ کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں اور اپنے اپنے کیریئر کے لیئے کوشاں ہیں۔ یہاں اقبال مجید نے ذکی اور استم کے ذریعہ سے بڑے شہروں کی نوجوان نسلوں کی زندگی کو بخوبی ظاہر کیا ہے۔ ایک طرف سم سم اور اشوتوش دونوں ایک دوسرے سے شادی کرنا چاہتے ہیں مگر دونوں تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود اپنے بیچ کے مذہبی اور تہذیبی فرق کو ختم نہیں کر پاتے ہیں اور اشوتوش اپنے اس تعلق کو ہی ختم کر دیتے ہیں۔ بعد ازاں سِم سِم کی زندگی میں ابوبکر آتا ہے، ابوبکر اس سے دیوانہ وار محبت کرتا ہے لیکن ابو بکر کو قبول کرنے میں سِم سِم کو ہچکچاہٹ ہے کیوں کہ وہ سِم سِم سے تہذیبی طور پر کمتر ہے۔ دوسری طرف زہرہ خانم کا بیٹا ہے جو زہرہ خانم کے ماضی کو بھلانے کی کوشش میں ہے۔ وہ اپنی ماں کی پرانی شناخت ختم کرنے اور نئی پہچان بنانے کے لئے زہرہ خانم کی فرضی تصویر کے ساتھ فرضی پیغام بھی اپنے گھر کی دیواروں پر لگواتا ہے۔ تا کہ لوگ یہ سمجھیں کہ زہرہ خانم ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ کسی اشرافیہ خاندان سے ہے۔ کہانی میں زہرہ خانم کا اپنا ہی بیٹا اسے نہ صرف کمرے میں نظر بند کرتا ہے بلکہ اس کی شناخت کے لئے بھی مسلہ بن جاتا ہے۔ وہ اپنے ماضی سے نجات حاصل کرنا چاہتا ہے، وہ یہ نہیں جانتا کہ حال کے ساتھ ساتھ ماضی بھی لوگوں کے دلوں میں کہیں نہ کہیں موجود ہوتا ہے۔
اقبال مجید اپنے کرداروں کے خد و خال کو بہت خوبصورتی سے نمایاں کرتے ہیں، انہیں کردار نگاری میں پوری مہارت حاصل ہے۔ ان کے افسانوں کے کرداروں میں عدّو چچا کا کردار ہو یا ’ٹوٹی چمنی‘‘ میں عشو باجی کا یا ’’سخت جانوں کا انتظار‘‘ میں صغریٰ کا یہ تمام کردار اپنے آپ میں مثالی ہیں اور ۸۰۔ ۷۰ سال بعد بھی اس طرح فکر انگیز ہے کہ شاید مصالحت آج کے دور میں وہی قدر رکھتی ہے۔
رسالہ مرّیخ کے مدیر اور افسانہ نگار فخر الدین عارفی صاحب اقبال مجید کے اسلوب نگاری اور کردار نگاری کے بارے میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ :
اقبال مجید کو میں ایک جینوئن فنکار تسلیم کرتا ہوں۔ انہوں نے اردو فکشن کے سرمائے میں گراں قدر اضافہ کیا۔ خواہ افسانہ ہو یا ناول وہ اپنی تحریر سے بہت متاثر کرتے ہیں، اس سلسلے میں اگر یہ کہوں تو شاید غلط نہ ہوگا کہ وہ کردار کے لحاظ سے زبان کا پیکر تخلیق کرتے ہیں ان کی زبان عام فہم اور سادہ ہوتی ہے۔ افسانہ ہو یا ناول، ہر جگہ ان کی تخلیقی کائنات میں وسعت اور تنوع کا احساس ہوتا ہے۔‘‘
اقبال مجید کی خصوصیت ان کی اسلوب نگاری ہے۔ ’’عدّو چچا‘‘ سے اب تک انہیں لکھتے ہوئے غالباً ۸۰ برس بیت چکے تھے اس لمبے عرصے میں ان کی تحریریں کئی تبدیلیوں سے گزریں۔ ان کے افسانوی مجموعے ’دو بھگے ہوئے لوگ‘، ’ایک حلفیہ بیان‘، ‘شہر بد نصیب‘، ’آگ کے پاس بیٹھی عورت‘، ’قصہ رنگ شکستہ‘، ’تماشہ گھر‘ اور ناول ’نمک‘ اور ’کسی دن‘ ان کی اسلوب نگاری کے الگ الگ پڑاؤ کی نمائندگی کرتے ہیں۔ انھوں نے روایتی کہانی سے ہٹ کر اپنے لئے راستہ بنایا یہی سبب ہے کہ ترقی پسند افسانہ نگاروں کے ساتھ جدید افسانہ نگاروں میں بھی ان کا نام سرِ فہرست آتا ہے۔
بقول ڈاکٹر محمد علی صدّیقی ’’اقبال مجید کے اسلوبِ نگارش کا خصوصی وصف یہ ہے کہ وہ اپنے کرداروں کے ذہن کے ایماندارانہ اور قرار واقعی انداز میں ترجمانی کے فریضہ ادا کرتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ اقبال مجید اردو افسانے میں نہ صرف اپنی Themes کی انفرادیت کے لے مشہور ہیں بلکہ اس انفرادیت کے لیے بھی جو پیچیدہ کرداروں کی موقع نگاری بھی کامیابی کے ساتھ کر سکے۔ (ڈاکٹر محمد علی صدّیقی، ’نیا ورق‘ ممبئی، ص ۲۰)
کہانی سنانے کا فن اقبال مجید کی منفرد اور مستحکم خاصیت ہے۔ اُنہیں افسانے، ناول اور ڈرامے کے فن اور تکنیک پر یکساں قدرت حاصل تھی۔ ان کے مشہور افسانوں میں عدّو چچا، ٹوٹی چمنی، پیٹ کا کیچوا، سکون کی نیند، حکایت ایک نیزے کی، سوئیوں والی بی بی، دسترس، سڑی ہوئی مٹھائی، مشق فغاں، سوختہ سامانی، وغیرہ ہیں۔ اقبال مجید نے ناول نمک میں بھی دو نسلوں کا فکری تضاد، دو عہد اور تہذیبوں کی کشمکش کو بڑی خوبصورتی سے ظاہر کیا ہے۔ ان کی بہترین کہانیاں کردار، واقعات اور تاثرات کا ایسا تخلیقی اظہار ہیں جن سے اردو کے بیشتر قاری لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔ ان کے ناول نمک پر ’’زہرہ محل‘‘ کے نام سے ایک بہترین سیریل ان کی ہدایت اور منظر نامے کے ساتھ ای۔ ٹی۔ وی اردو پر عرصے تک ٹیلی کاسٹ ہوتا رہا جو اردو کے مقبول سیریلز میں شمار ہوتا ہے۔ انہیں ان کے ادبی خدمات کے اعتراف میں ۲۰۰۶ء میں اردو اکادمی دہلی کی جانب سے بہادر شاہ ظفر ایوارڈ سے نوازا گیا۔ اقبال مجید اردو فکشن کے ایک تابندہ و درخشاں ستارہ تھے، مگر اب وہ ستارہ غروب ہو چکا ہے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ وہ ستارہ اتنی روشنی بکھیر کر رو پوش ہوا ہے کہ اردو ادبی دنیا اس روشنی سے ہمیشہ فیض یاب رہے گی۔
تشکر: اودھ نامہ لکھنؤ
٭٭٭