شہر میں ہر سمت قتل عام ہے
خون میں ڈوبی سحر اور شام ہے
جا بجا انسانیت کی دھجیاں
ہر جگہ کہرام ہی کہرام ہے
آنکھ کی محراب، اشکوں کے چراغ
اب یہی منظر ہمارے نام ہے
چھوڑئیے رنگ چمن کی داستاں
اب قفس میں ہی مجھے آرام ہے
حسن ہے بے عیب راہی سر بہ سر
عشق تو الزام ہی الزام ہے
٭٭٭
ایک آسماں کو چھونے کی حسرت میں پر گئے
ہم ان کے گھر گئے تھے نہ اپنے ہی گھر گئے
ایسے تو تیرتا ہے ان آنکھوں کی جھیل میں
اے چاند تجھ کو ڈھونڈنے ہم در بدر گئے
وعدوں کے پھول سانس کی ڈالی پہ تھے جواں
جو ان کے انتظار میں کھل کر بکھر گئے
وہ جس جگہ کہ زندہ جہاں پیار دفن ہے
اپنے اسی مزار پہ شام و سحر گئے
یہ زندگی ہے چند ہی لمحوں کا راستہ
ان چند لمحوں کے لیے برسوں گزر گئے
٭٭٭