ایسا وردان ملے جس کو وہ پاگل ہو جائے
ہاتھ سونے کو لگاتا ہوں تو پیتل ہو جائے
تنہا رہنا ہے تو تنہائی مکمل ہو جائے
کیوں نہ ہر شخص تصور سے بھی اوجھل ہو جائے
مر چکا آنکھ میں امید کا پنچھی میرا
میرے ارمانوں کی دھرتی بھی نہ دلدل ہو جائے
عشق نازک سا وہ جذبہ ہے جو اندر اندر
کبھی چبھتا بھی رہے اور کبھی مخمل ہو جائے
جس کو چاہو نہ ملے، جس کو نہ چاہو، وہ ملے
زندگی تیرا معمہ بھی کبھی حل ہو جائے
لَو میں جس کی میں جلا کرتا ہوں دن رات وہی
جب مجسم ہو ان آنکھوں میں تو جل تھل ہو جائے
وقت نے اتنی گذارش بھی مری ٹھکرا دی
آرزو تھی کوئی اک پل بھی مرا پل ہو جائے
گھر میں یاد آتے ہیں وحشت کے وہ دن رات سہیلؔ
ایسا ہو، اب یہی کمرہ مرا جنگل ہو جائے
٭٭٭
ضروری کب ہے کہ ہر کام اختیاری کریں
اب اپنے آپ کو اتنا نہ خود پہ طاری کریں
یہ انجماد بھی ٹوٹے گا دیکھنا اک دن
ہم اعتماد سے پہلے تو خود کو جاری کریں
کوئی بھی کھیل ہو حیران اب نہیں کرتا
نہ جانے کون سے کرتب نئے مداری کریں
بلاوا عرش سے آتا ہے گر تو آتا رہے
جو خاک زادے ہی ٹھہرے تو خاکساری کریں
ہے تشنگی سے تخیل میں طاقت پرواز
حضور مجھ کو نہ سیرابیوں سے بھاری کریں
کثیف ہم ہیں سراسر مگر لطیف ہے وہ
تو اس کے واسطے کیا خود کو خود سے عاری کریں
لگام کھینچ کے بیٹھے ہیں بے نیاز سے ہم
سمند شوق کی اب چاہے جو سواری کریں
عطا کیا گیا صحرا اس ایک شرط کے ساتھ
سہیلؔ ہم نہ کبھی وحشتوں سے یاری کریں
٭٭٭