غزلیں ۔۔۔ احمد شہریار

خون؟ نہیں، آبِ وضو ہے مرا

نیزہ؟ نہیں، شوقِ نمو ہے مرا

 

کوئی کماں ہے؟ نہیں، یہ تیر ہے

تیر؟ نہیں، رزقِ گلو ہے مرا

 

کون؟ یہ میں ہوں، یہ مرے لوگ ہیں

لوگ؟ نہیں، تو ہے، یہ تو ہے مرا

 

کیسی جہت؟ یہ ہے روانی مری!

کیسی روانی؟ یہ لہو ہے مرا

 

آئنہ؟ کون آئنہ؟ یہ سنگ ہے

سنگ؟ نہیں، آئنہ رُو ہے مرا

 

کارِ مسیحائی؟ نہیں، تیغ ہے

تیغ؟ نہیں، دستِ رفو ہے مرا

 

دل میں کوئی ہے جو مرا دوست ہے

دوست؟ کہاں یار! عدو ہے مرا

٭٭٭

 

 

بساط ہو گئی درست یہ سفید، وہ سیاہ!

سیاہ تیرے لشکری، سفید ہے مری سپاہ

 

ترا گروہ ‘شب اثر’، مری سپاہ ‘صبح خیز’

تری طرف سے جنگ اور مری طرف سے انتباہ

 

ترا پیادہ دو قدم، مرا پیادہ ایک گام

ترا پیادہ تند خو، مرا پیادہ ‘صلح خواہ’

 

اِدھر صلائے صلح ہے، اُدھر نوائے جور ہے

اِدھر فقط شہادتیں، اُدھر گناہ پر گناہ

 

سیاہ بادشاہ کو غرور ہے، سرور ہے!

سفید بادشاہ غمزدہ ہے، مضطرب ہے، آہ

 

سفید بادشاہ نے بھی اذنِ رزم دے دیا

تب ایسی جنگ چھڑ گئی، وہ معرکہ ہوا کہ واہ!

 

پیادے، فیل، گھوڑے، رخ، وزیر اور صرف جنگ

کسی کا کوئی خوں بہا ہے اور نہ کوئی داد خواہ

 

مرے پیادے کی نظر ہے تیرے بادشاہ پر

اُدھر مرے پیادے پر ترے وزیر کی نگاہ…

 

…ہوا سفید بادشاہ اور رو سفید تر

ہوا کچھ اور رو سیاہ، رو سیاہ بادشاہ

 

اُدھر سیاہ بادشاہ رہ گیا ہے اور بس

اِدھر سفید بادشاہ اور وزیر اور سپاہ

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے