غزل ۔۔۔ عبید الرحمٰن نیازی

 میں دیکھتا نہیں، گرچہ دکھائی دیتا ہے

بچاؤ کا یہی رستہ سجھائی دیتا ہے

 

اگر تجھے تری شرکت ذرا نہیں بھاتی

تو پھر تُو خلق کو کیونکر خدائی دیتا ہے

 

میں جب بھی شام کی خاموشیوں کو سنتا ہوں

تھکے پرندوں کا نوحہ سنائی دیتا ہے

 

تُو روکتا ہے اُسے! جب کہ موت منزل ہے

مرے طبیب تو اُلٹی دوائی دیتا ہے

 

ہوس خدا کا اک ایسا عذابِ مخفی ہے

جو اغنیا کو بھی قلبی گدائی دیتا ہے

 

دھماکہ جب بھی ہو، دل میں ہو، یا کہ شہر میں ہو

ہمیشہ ہم کو پیامِ جدائی دیتا ہے

 

اُس اجنبی سے تعلّق تو ہے کوئی تیرا

وگرنہ کون کسی کی صفائی دیتا ہے

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے