غزلیں ۔۔۔ کاوش عباسی

جان فانی پر ابَد کا گریہ لکّھیں

آؤ کاوش زِندگی کا نوحہ لکّھیں

 

بے اَماں دِل کی لرزتی دھڑکنوں پر

مستقل کرب فنا کا سایہ لکّھیں

 

زِندگی کی بے نیازی کو چِڑاتا

مَوت سے بھی تِیکھا اِک طنزیہ لکّھیں

 

جِس حیات بے کراں کو پُوجتے ہیں

آج اُس کو اَحقر و بے مایہ لکّھیں

 

جِس دِل پُر دَم سے روح زندہ ہیں ہم

آج اُسے اِک عنصر بیگانہ لکّھیں

 

خواب جِن کے رنگ ہیں سَب جاودانی

اُن پہ روئیں اُن کو خوں غلطیدہ لکّھیں

 

مَوج ہستی کو لکھیں سیل دَمادَم

اَور خود کو راندہ و در ماندہ لکّھیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

چندر مُکھوں کے دُوار پر اہل دِل کا شور خموش

دیوانوں کی ذات میں کالے تِل کا شور خموش

 

ہر چہرے پر جاگ اُٹھتی آس ایک اُچَٹتی یاس

ہر دِل پَر آ جانے والے دِل کا شور خموش

 

ناکامی پر ناکامی کا کچھ تو اثَر ہوتا ہے

یعنی اب اِس دِل میں ہے منزِل کا شور خموش

 

روشن، اَدھ روشن، کمروں میں ایک دبیز غبار

گلی کوچوں میں بھی قاتِل، قاتِل کا شور خموش

 

کِتنی دیر سے تُو نے یہاں اِک حشر اُٹھا رکّھا تھا

کتنی جلدی ہُوا تیری محفِل کا شور خموش

 

کیسے لوگ ہیں یوں جِیتے ہیں، جیسے نہیں جِیتے ہیں

آنکھیں گھور خرابے اِن کی، دِل کا شور خموش

 

طوفاں سے جو کھیل رہے ہیں، اُن کو کیا پرواہ

مَوج میں ہے کاوِش کہ لب ساحِل کا شور خموش

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے