دہلی سے پلین پر سوار ہوتے ہوئے لگا تھا جیسے ویٹنگ روم سے نکل کر کوئی راہ داری طے کی ہو اور دوسرے کمرے میں آ گئے ہوں۔ اس بار ہم سیڑھیاں اتر کر نیچے کھلے میدان میں آئے اور سامنے کھڑے ہوئے دیو قامت بوئنگ 747 سے جڑی ہوئی سیڑھی پر چڑھ کر اندر گئے جہاں ایک خوش مزاج ائر ہوسٹس نے ہمیں اپنی سیٹوں تک پہنچایا۔ یہ جہاز کا ایساحصہ تھا جس میں سے گزر کر ایک اور زینے کے راستے عملے کے افراد اوپر جاتے تھے۔ غالباً وہ مسافر جو دوسرے ملکوں سے براہ دمشق لندن جا رہے تھے، اس حصے میں بٹھا دئے گئے تھے اور بقیہ جہاز میں مقامی مسافروں کو جگہ ملی تھی۔ ہمارے والے حصے میں تیس چالیس نشستیں تھیں جن پر مختلف ملکوں کے باشندے براجمان تھے۔ بوڑھے، جوان، مرد، بچے، عورتیں۔ فرانسیسی، عربی، انگریزی اور دوسری زبانیں بولتے ہوئے بھانت بھانت کے کپڑے پہنے، کوئی سنجیدہ کوئی اداس، کوئی چنچل، کوئی قہقہہ بردوش اور کوئی اپنی نشست پر نیم خوابیدہ۔ خداوندا یہ دنیا جلوہ گاہِ ناز ہے کس کی!
اس مرتبہ جہاز کی بائیں طرف پہلی نشست پر میں تھا اور میرے بازو میں کھڑکی کی جانب دو سیاح لڑکیاں تھیں۔ درمیان میں گزرنے کا راستہ اور پھر ویسی ہی تین نشستوں میں سے داہنی کھڑکی سے متصل ایک ادھیڑ عمر کی خاتون جنہوں نے سفید ساڑی زیب تن کر رکھی تھی۔ درمیان میں عاصمہ اور سرے پر صبا کو جگہ ملی تھی۔ میں نے چاہا کہ داہنی کھڑکی سے ملحق بیٹھی ہوئی خاتون سے اپنی نشست تبدیل کر لوں تاکہ ہم تینوں ایک ساتھ ہو جائیں لیکن عاصمہ نے جانے کسی مصلحت کے تحت اصرار کیا کہ جو جہاں بیٹھا ہے، وہیں رہے۔ جانے وہ کھڑکی سے باہر کا منظر دیکھ کر ڈرنا نہیں چاہتی تھیں یا میری فقرہ بازیوں سے محافظت درکار تھی۔ وضاحت چاہی تو مسکرا کر بولیں۔
’’آپ ان لڑکیوں کے ساتھ ہی بیٹھیں۔ اچھی تو ہیں۔‘‘
میں نے زیرِ لب تبسم کیا۔ کبھی سیدھے سادے لوگ بھی کتنی لطیف باتیں کرتے ہیں۔
پرواز سے پیش تر وہ تمام واقعات پھر پیش آئے اور وہی رسومات پھر ادا کی گئیں جن سے دہلی سے روانگی کے ضمن میں سابقہ پڑا تھا۔ ’ٹیک آف‘ کا ہلکا سا دھچکا لگا تو میری بغل میں بیٹھی ہوئی بوٹا صفت، نازک اندام لڑکی کھسیانی ہنسی کے ساتھ لرزتی ہوئی آواز میں بولی۔ ’’سر! کیا آپ کو بھی ایسا ہی محسوس ہو رہا ہے۔ جیسے سینے کے اندر کوئی تتلی پھڑ پھڑا رہی ہو؟‘‘
میں نے کہا۔ ’’بی بی میں یہ راز اپنے سینے ہی میں رکھنا چاہتا ہوں۔‘‘
اپنی مخصوص بلندی پر پہنچ کر جہاز سیدھ میں آ گیا تو میری ہم سفر کے اعصاب نارمل ہو گئے۔ بولی۔ ’’لینڈنگ، اور ٹیک آف، کے وقت میں ہمیشہ گھبرا جاتی ہوں۔‘‘
اس کے تیکھے خد و خال اور سیاہ آنکھوں سے اندازہ لگا کر میں نے پوچھا۔ ’’اطالوی ہو؟‘‘
’’آپ کو کیسے معلوم ہوا؟‘‘
اندازے کو صحیح پا کر خوشی ہوئی، مسکرا کر بولا۔ ’’کتابوں میں پڑھ رکھا ہے کہ تم جیسے نقش و نگار اور رنگت والی لڑکیاں اٹلی میں ہی پائی جاتی ہیں۔‘‘
اس بی بی نے بچوں کی طرح قلقاری ماری۔
’’انکل، کتابوں پر بھروسہ کم کیجئے میں ڈنمارک کی ہوں۔ گائے اور دودھ کا ملک۔‘‘
’’گائے اور دودھ کے ملک کی لڑکی اور اتنی دبلی پتلی۔‘‘
جواباً ایک اور خوش گوار قلقاری۔ اس کے بازو میں کھڑکی سے لگ کر بیٹھی ہوئی گوری چٹی جوان خاتون قدرے شرمیلا مزاج رکھتی تھیں۔ ہم لوگ باتیں کرتے یا ہنستے تو وہ جھک کر سرگوشی میں درمیان والی لڑکی سے دریافت کرتیں اور ہونٹ دبا کر چپکے سے مسکراتیں۔
ائر ہوسٹس اور جہاز کا دوسرا عملہ غالباً خود بھی معمول کی بوریت سے بچنے کے لئے کھانے پینے کا سلسلہ جاری رکھتا تھا۔ نشستوں کے درمیان رہ گزر پر ٹرالیاں اور یونیفارم پھر محوِ خرام تھے کہ عصرانے کا اہتمام ہو رہا تھا۔ فولڈنگ ڈیسک پر ناشتے کی ٹرے چن دی گئیں۔ ڈنمارک والی لڑکی اپنی ٹرے سے مختلف چیزیں چکھتی اور میری رہنمائی کرتی، یہ مٹھائی لیجئے اچھی ہے۔۔۔۔۔ سر! سلائس پر بٹر میں لگا دیتی ہوں۔۔۔۔۔ آپ نے کیک تو چکھا ہی نہیں مزے کا ہے۔۔۔۔۔
’’مجھے کیک اچھا نہیں لگتا۔‘‘ میں نے بتایا۔
موصوفہ نے بے تکلفی سے کہا۔ ’’تو آپ کی اجازت سے میں کھا لیتی ہوں۔‘‘
اس نے میرے کیک کا ایک ٹکڑا سرے پر بیٹھی ہوئی آئرش خاتون کی خدمت میں بھی پیش کیا پھر مجھ سے مخاطب ہو کر کہنے لگی۔ ’’یہ کیلا بھی آپ لے لیجئے۔‘‘
’’کیک کا بدل کیلا۔۔۔۔ ۔ لڑکی! میں دورانِ سفر تجارت نہیں کرتا۔‘‘
اس نے نقلی غصے کا مظاہرہ کیا اور آئرش خاتون نے میری نظر بچا کر اس کے چٹکی بھری اور پھر میری نگاہ اپنی طرف پا کر جھینپ سی گئیں۔ یہ مغربی ممالک کی لڑکیاں پلک جھپکتے ہی کتنی سرخ ہو جاتی ہیں؟ ان لوگوں سے گفتگو کے دوران علم ہوا کہ یہ پندرہ بیس سیاحوں کا گروپ، جسے میں ایک طرح کا ثقافتی وفد سمجھ رہا تھا، انفرادی طور پر مختلف ممالک سے آئے ہوئے سیاحوں پر مشتمل تھا جو ہندوستان کے سفر پر نکلے تھے۔ بنگلور میں ایک ٹورسٹ سنٹر میں ان کے آپسی تعلقات اتنے بڑھ گئے کہ پندرہ دن تک ہندوستان کے مختلف مقامات کی سیاحت ان لوگوں نے مل کر کی اور اب واسپی کا سفر بھی جہاں تک ممکن ہو ساتھ ساتھ کرنا چاہتے تھے۔ ان میں نائیجیریا کا ایک دبلا پتلا نوجوان ہپی بھی شامل تھا۔ بے ڈھنگا لباس، الجھے ہوئے لمبے لمبے بال، منکوں کی بڑی سی مالا گلے میں، کانوں میں سنہرے بالے، سیاہ فام، موٹے موٹے ہونٹ اور سرخ آنکھیں۔ وہ چلتا تو لہرا کر، بولتا تو شانے اچکا کر اور ہاتھ مٹکا کر لیکن ہیئت کے بے ڈھنگے پن اور مضحکہ خیز حرکات و سکنات کے باوجود اس کی شخصیت کا مجموعی تاثر نہ جانے کیوں خوش گوار محسوس ہوا۔ چہرے پر جب بھی نگاہ گئی کبھی متبسم نظر آیا، کبھی بانچھیں کھلی ہوئی۔ اپنی سیٹ پر تو سکون سے وہ جم کر ایک منٹ کے لئے بھی نہیں بیٹھا۔
اِدھر کھڑے مسکرا رہے ہیں اُدھر کھڑے مسکرا رہے ہیں
غالباً اپنے تمام ساتھیوں کے بیچ وہ رابطے کا کام کر رہا تھا۔ سینہ بند اور تنگ نیکر میں پھنسی ہوئی ایک نیم عریاں لڑکی شاید کسی طرح کے نشے میں تھی۔ درمیانی راستے میں پالتی مار کر بیٹھ گئی اور زانو پر سر رکھ کر بلکنے لگی۔ وہی موصوف بے تکلفی کے ساتھ اس سے بھڑ کر بیٹھ گئے، دوسرے لمحے نہ جانے کیا ہوا کہ لڑکی قہقہے لگا رہی تھی اور نائیجیریا والا اسے گود میں اٹھا کر سیٹ پر سجا رہا تھا۔
’’ہماری بھی تو سنئے۔‘‘ عاصمہ کی آواز آئی۔
دیکھا تو ہتھیلی پر کچھ الائچیاں، لونگ، سپاری وغیرہ میری طرف بڑھائے ہوئے تھیں۔ ’’کب سے آواز دی جا رہی ہے۔ آپ تو اپنی دوستوں میں مست ہیں۔‘‘
ہرن نے پھر بھیڑیے پر حملہ کیا، بھیڑیے نے خفیف ہو کر ایک الائچی اٹھا لی اور چھیلنے لگا۔ وہ کچھ زیادہ ہی مزے میں تھیں، بولیں۔ ’’اتنی بے مروتی اچھی نہیں ہوتی، اپنی ساتھیوں کو بھی دیجئے۔‘‘ بھیڑیے نے جھپٹا مار کر سب کچھ چھین لیا۔ ڈنمارک اور آئرلینڈ والیاں اختتامِ سفر تک الائچی، سپاری اور لونگ کے مزے لیتی رہیں۔ یہ بڑی کلچرڈ اور شائستہ مزاج لڑکیاں تھیں۔ میں نے محسوس کیا کہ جہاز کی کھڑکی پر جب بھی کوئی خوب صورت یا لائق دید منظر نمودار ہوتا، دونوں اپنی سیٹ کے پیچھے سرک جاتیں اور کوشش کرتیں کہ میں کھڑکی سے دور ہونے کے با وصف اچھے مناظر سے لطف اندوز ہو سکوں۔ ایک بار تو آئرش خاتون نے پیش کش بھی کی کہ ہم اپنی نشستیں بدل لیں لیکن میں ان کی خوش مزاجی سے فائدہ اٹھانا نہیں چاہتا تھا۔ ہندوستانی وقت کے مطابق گھڑی میں ساڑھے بارہ بجنے کو تھے۔ بیچ بیچ میں پائلٹ کی جانب سے اطلاعات فراہم کی جاتی رہیں کہ جہاز کس ملک سے گزر رہا ہے، کتنی بلندی پر ہے وغیرہ وغیرہ۔ پھر ڈنر کی گہما گہمی شروع ہو گئی۔ جہاز کے اگلے حصے میں بھی دو ائر ہوسٹس ٹرالیاں لے کر آ گئیں اور لذیذ، صاف ستھرے، صحت بخش کھانے مسافروں کے سامنے لگا دئے گئے۔ عاصمہ کے ساتھ کھڑکی سے لگ کر بیٹھی ہوئی خاتون نے اپنا کیلا کھایا پھر عاصمہ سے دریافت کر کے ان کی اور صبا کی ٹرے سے بھی کیلے اٹھا لئے۔ بعد از آں اپنی ٹرے سے غیر استعمال شدہ ایک ہی بار کام میں آنے والے چھری کانٹے وغیرہ کا پیکٹ اٹھا کر پرس میں رکھا اور کھانے کو ہاتھ لگائے بغیر ٹرے واپس کر دی۔ ہم لوگوں نے، جن کے پیٹ پہلے سے بھرے ہوئے تھے، حفظِ ماتقدم کے طور پر جتنے لقمے کھا سکتے تھے، کھائے اور ٹرالیاں آ کر جھوٹے اور اچھے کھانوں کو ایک ساتھ گڈمڈ کر کے ڈبوں میں بھر لے گئیں۔
میں حیران تھا کہ گھڑی میں تقریباً ڈیڑھ بجنے والا تھا، مانا کہ یہ ہندوستانی وقت تھا اور مقامی اعتبار سے شاید نو ہی بجے ہوں گے۔ پھر بھی کھڑکی سے باہر تا حد نظر روشنی نظر آتی تھی اور سورج جگمگا رہا تھا۔
میری آئرش ہم سفر اب کچھ کھلنے لگی تھیں۔ رفتہ رفتہ اپنے شائستہ سوالات کے وسیلے سے موصوفہ نے میرے بارے میں بہت کچھ معلوم کر لیا۔ یہ جان کر خوش ہوئیں کہ میں کلکتہ یونیورسٹی میں اردو پڑھاتا ہوں۔ لڑکی ڈنمارک والی، مزید خوش ہوئی جب میں نے اسے مطلع کیا کہ اس کے ملک میں بھی شمشیر سنگھ شیر نام کے ایک شاعر ہماری زبان اردو کے موجود ہیں، سوئیڈن میں جمشید مسرورہیں، ناروے میں ہر چرن چاولہ ہیں، جرمنی میں منیر الدین احمد ہیں۔
’’بس بس سر! ہم سمجھ گئے کہ اردو کے رائیٹر پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں۔‘‘
’’سچ مچ۔‘‘ آئر لینڈ والی نے کہا۔ ’’ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہم ایک ٹیچر کے ساتھ سفر کر رہے ہیں۔ کچھ تاج محل کے بارے میں بتائیے۔‘‘
’’پلیز! تاج محل تو ہم دیکھ آئے ہیں۔‘‘ ڈنمارک والی نے اپنی ساتھی کو ملتجیانہ انداز میں سمجھایا۔ ’’سر، کلکتہ یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں، ان سے ’سٹی آف جوائے‘ کے بارے میں کچھ سنیں گے۔‘‘
میں انہیں تا دیر سٹی آف جوائے کے مسائل، افلاس، پس ماندگی، بے روز گاری اور کثافت کی آلودگی کے بارے میں بتاتا رہا۔ یہ بھی کہا کہ اس وقت اس نام نہاد سٹی آف جوائے کو مدر ٹریسا جیسی کئی اور ماؤں کی ضرورت ہے۔ اس عظیم شہر کی تاب ناکیوں کا بھی تذکرہ رہا۔ یہاں کی ثقافت، علم دوستی، فنونِ لطیفہ سے عوامی دلچسپی، تھیٹر، اشتراکیت اور جانے کیا کیا موضوعات زیرِ بحث آئے۔
اچانک نشستوں کے اوپر اسکرین روشن ہو گئے۔ بیلٹ باندھ لینے کی ہدایت مائک سے بھی کی گئی۔ چند منٹ میں جہاز لندن پہنچنے والا تھا۔ ایک بار پھر کپتان نے عربی اور انگریزی میں آنے والے شہر اور ہوائی اڈے کے بارے میں اطلاعات فراہم کیں، دمشق تا لندن جو اہم مقامات راہ میں پڑے تھے ان کا مختصراً ذکر کیا، مسافروں کو اگر دورانِ سفر کوئی زحمت ہوئی ہو تو سیرین ائرلائنس کی طرف سے معذرت خواہی کی اور ان کے تعاون کا شکریہ ادا کیا۔ ہماری گھڑی میں ڈھائی بجنے کو تھے کہ جہاز دور دور تک جگمگاتی ہوئی روشنیوں پر گردش کرتا ہوا آخرش ہیتھرو ائر پورٹ پر اتر آیا۔ مسافروں کے باہر نکلنے سے پیش تر ہی جہاز کا کپتان دروازے پر ایستادہ ہو گیا اور اس نے ہمارے سیکشن کے مسافروں سے جو سب غیر سیرین تھے، فرداً فرداً مصافحے کئے۔ اپنے سامان کے ساتھ باہر نکلے تو ہم ائر پورٹ کے ایک دور افتادہ حصے میں کھڑے تھے اور سامنے ایک لمبی سی چمچماتی ہوئی بس لگی ہوئی تھی۔ مسافروں کو اس پر بیٹھنے کا اشارہ کیا گیا۔ بس نے ہمیں تقریباً سات آٹھ منٹ بعد ائر پورٹ کی صدر عمارت میں پہنچا دیا، جہاں ایک بہت طویل راہ داری سے گزر کر ہم بڑے سے ہال میں پہنچے۔ یہاں مسافروں کی خاصی لمبی قطار تھی۔ سب کو امیگریشن والوں نے جلدی جلدی چھوٹے چھوٹے فارم فراہم کئے جن میں ضروری معلومات، انگلینڈ میں اپنی قیام گاہ کا پتہ اور قیام کی مدت سے متعلق اندراج کرنے تھے۔ ہال میں متعدد روشن کاؤنٹروں پر کہیں ایشیائی اور کہیں انگریز افسران بیٹھے تھے۔ میں عاصمہ اور صبا کے ساتھ دانستہ ایک ایسے کاؤنٹر پر پہنچا جو انگریز کے تصرف میں تھا۔ نوجوان افسر نے مسکرا کر ’ویلکم‘ کہا۔ میں نے تین پاسپورٹ بیک وقت کاؤنٹر پر رکھے تو پوچھا۔ ’’فیملی۔۔۔۔۔؟‘‘
’’جی! یہ میری مسز ہیں عاصمہ خاتون اور وہ بیٹی صبا تسنیم۔‘‘ اس نے مسکرا کر اور گردن جھکا کر دونوں کو دیکھا۔ پاسپورٹ پر نگاہ ڈالی۔ ’’پروفیسر کلکتہ یورنیورسٹی؟‘‘
’’جی۔‘‘
’’کہاں ٹھہریں گے۔‘‘
’’ہمارا بیٹا برمنگھم سٹی کاؤنسل میں ملازم ہے اس کے ساتھ رہیں گے۔‘‘
’’ڈاکٹر ہے؟‘‘
’’جی نہیں سوشل ورکر ہے۔‘‘
’’کتنے دن ٹھہرئے گا؟‘‘
’’دو تین ماہ۔‘‘
اس نے پھر مسکرا کر ہمیں دیکھا اور ہر پاسپورٹ پر مہر لگا دی۔ ’’بائی!‘‘
آگے بڑھے تو پھر ایک راہ داری سے گزرنا پڑا۔ دونوں طرف اکسائز، سیکوریٹی اور امیگریشن کے عہدیدار مختلف قسم کی یونیفارم پہنے کھڑے تھے۔ جس کے پاس سے بھی گزر ہوا اس نے مسکرا کر ہاتھ یا گردن کے اشارے سے ہمارا استقبال کیا۔ اب جس ہال میں ہم پہنچے وہاں سے سامان حاصل کرنا تھا۔ گردش کرتے ہوئے بیلٹ پر سیکڑوں بیگ، سوٹ کیس، اٹیچیاں، پیکٹ وغیرہ لوگوں کے سامنے سے گزر رہے تھے، ہر شخص ہاتھ بڑھا کر بیلٹ سے اپنا سامان اتار سکتا تھا۔ کافی دیر کے بعد ہمیں اپنے دونوں سوٹ کیس رینگتے ہوئے نظر آئے، قریب کھڑی ہوئی ٹرالیوں میں سے دو ہم لوگوں نے کھینچ لیں اور ان پر سوٹ کیس، بیگ وغیرہ رکھ کر آگے بڑھے۔ اب ایک طویل راہ داری پھر ملی۔ خیال تھا کہ راستے میں سامان کی اور ہماری جانچ پڑتال ہو گی لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔ آگے چل کر اس سرنگ نما راہ داری میں ایک موڑ آیا جس کے سامنے تھوڑے سے فاصلے پر آہنی ریلنگ سے لگے ہوئے سیکڑوں لوگ اپنے دوستوں اور عزیزوں کا استقبال کرنے کے لئے کھڑے تھے، ان ہی کے درمیان خوشی سے تمتمایا ہوا ایک پیارا سا چہرہ ہمارے پرویز کا تھا، جس پر سب سے پہلے اس کی ماں کی نگاہ پڑی۔
ریلنگ سے باہر نکلتے ہی بیٹے نے ماں کو لپٹا لیا۔ صبا بھی اس سے بغل گیر ہو گئی پھر میں نے اسے گلے سے لگایا، پیچھے عاصمہ کے چہرے پر نظر کی تو وہ آب دیدہ تھیں۔ آنکھوں ہی آنکھوں میں انہیں سمجھایا کہ جذبات پر قابو رکھیں۔ صبا اور میرے ہاتھ سے دو نو جوانوں نے ٹرالیاں لے لی تھیں اور مسکراتے کھڑے تھے۔ سوالیہ نگاہوں سے پرویز کو دیکھا تو اس نے تعارف کرایا۔
’’یہ میرے بہت قریبی دوست ہیں۔ عصمت پاشا اور شفیق قاسم۔‘‘ پھر ایک اور خوب رو نوجوان آگے بڑھ آیا۔ پرویز نے کہا۔
’’میرے دوست سخاوت! اور یہ ہیں میرے دوسرے دوست چودھری طارق خان جو میرے مالک مکان بھی ہیں۔‘‘
میں نے پرویز سے کہا دہلی فون کرنا ہے۔ وہ مجھے قریب ہی کے ایک فون بوتھ پر لے گیا۔ پل بھر میں دہلی کا نمبر مل بھی گیا۔ وہ فون میں سکے پروتا رہا اور میں نے وہاں اونگھتی ہوئی بہو کو مطلع کیا کہ ہم بخیریت لندن آ گئے ہیں۔
ہنستے ہوئے اور ایک دوسرے کو لپٹائے ہوئے ہم لوگ آگے بڑھے۔ عصمت پاشا نے اشارہ کیا تو گاڑیوں کی لمبی قطار میں سے ایک بڑی سی وین نکل کر ہمارے سامنے آ لگی۔ سخاوت نے بڑھ کر اگلا دروازہ کھولا۔ ’’انکل! آپ سامنے بیٹھیں۔‘‘
’’نہیں، میں تم سب کے ساتھ بیٹھوں گا۔‘‘
چنانچہ چودھری ڈرائیور کی بغل میں بیٹھ گئے اور ہم سب نے پیچھے کی سیٹیں سنبھال لیں، سامان پہلے ہی رکھا جا چکا تھا۔ وین ہوائی اڈے کی حدود سے باہر نکلی تو مجھے توقع تھی کہ یگانۂ روزگار شہر لندن کی گہما گہمی سے واسطہ پڑے گا، لیکن دیکھا کہ ایک بے حد کشادہ سڑک پر ہماری گاڑی تیز رفتاری سے آگے بڑھ رہی ہے۔ عصمت پاشا نے بتایا کہ ہم لندن میں داخل ہوئے بغیر باہر ہی باہر سے بالا بالا برمنگھم نکل جائیں گے، کیونکہ رات میں اتنے لوگوں کے ساتھ لندن میں رکنا بہت دشوار اور مہنگا پڑے گا۔
باہر چاروں طرف جھٹپٹے کا سا سماں تھا جیسا کہ ہمارے یہاں عام طور پر مغرب کے وقت ہوتا ہے۔ جب کہ گھڑی میں تین بج رہے تھے۔
’’لاؤ! اب تمہارے یہاں کا وقت ملا لیتے ہیں کیا ٹائم ہے گھڑی میں۔‘‘ میں نے پوچھا۔
عصمت نے کہا۔ ’’ساڑھے دس بج رہے ہیں۔‘‘
راستے میں پرویز اپنی ماں اور بہن سے گفتگو میں مصروف رہا اور میں اس کے دوستوں سے باتیں کرتا رہا۔ ایک بار گاڑی کی رفتار کے میٹر پر نظر پڑی تو میں نے کہا۔
’’نوے کلو میٹر کی رفتار سے چلنے کی کیا ضرورت ہے۔ آرام سے چلو۔‘‘
پرویز نے جواب دیا۔ ’’یہاں میل کے حساب سے چلتے ہیں پاپا!‘‘
میں نے حیرت زدہ ہو کر پوچھا۔ ’’یعنی ہم نوے میل فی گھنٹے کی رفتار سے چل رہے ہیں!‘‘
شفیق قاسم ہنس کر بولے۔ ’’یہ تو کم سے کم رفتار کی شرط ہے انکل اس سے کم چلنے پر جرمانہ ہو جائے گا۔‘‘
پھر انہوں نے بتایا کہ جس طرح انڈیا میں قومی شاہراہ (نیشنل ہائی وے) ہوتی ہیں ویسے ہی انگلستان میں بڑی سڑکوں کو ’موٹروے‘ کہا جاتا ہے۔ ہر شاہراہ دو حصوں میں منقسم ہوتی ہے۔ کہیں اوپر اور نیچے تو کہیں درمیان میں ریلنگ یا کنکریٹ کی حد بندی۔ ایک طرف سے آنے والی گاڑیوں کا راستہ ہوتا ہے اور دوسرے حصے پر جانے والی گاڑیاں چلتی ہیں۔ ہر سڑک پر دونوں حصوں میں چار متوازی لکیریں کھنچی ہوتی ہیں۔ جو اندھیرے میں چمکتی بھی ہیں۔ دو لائنوں کے درمیان میں سفر کرنے کے لئے رفتار کی حد مقرر ہے۔ داہنی لائن پر کم از کم نوے میل کی رفتار سے چلنا ہوتا ہے۔ درمیانی لائن کے لئے ستر میل فی گھنٹے کی حد مقرر ہے اور بائیں لائن پر بھاری گاڑیاں، ٹرک وغیرہ پچاس میل کی رفتار سے چلتے ہیں۔ ان سب سے آخر میں تھوڑی جگہ ان موٹروں کے لئے چھوڑی گئی ہے جو راستے میں خراب ہو جائیں یا کوئی حادثہ پیش آ جائے تو ریلیف پہنچنے کا انتظار کر سکیں اور ٹریفک میں ان کی وجہ سے کوئی رکاوٹ نہ پڑے۔ اب کافی اندھیرا ہو چکا تھا سڑک کے دونوں طرف قصبات اور شہر روشنیوں سے جگمگا رہے تھے۔ موٹروے کے ساتھ ساتھ بجلی کے قمقمے بقول مجاز راہ میں جگمگاتی ہوئی زنجیر کی طرح دور تک چلے گئے تھے۔ سڑک اتنی ہموار اور چکنی کہ راستے میں کسی ایک جگہ بھی کوئی جھٹکا یا دھچکا نہیں لگا۔ بلا مبالغہ سیکڑوں کاریں اور کنارے کنارے لمبے لمبے ٹرک سڑک پر آ جا رہے تے۔ لیکن کسی کو ’ہارن‘ دینے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی تھی۔ بارہ بجے کے آس پاس ہم برمنگھم میں داخل ہوئے تو ایک جگہ وین رکوا کر طارق، سخاوت، شفیق قاسم اور عصمت پاشا نیچے اتر گئے۔ معلوم ہوا کہ یہ لوگ اپنی اپنی کاریں یہاں پارک کر کے لندن گئے تھے۔ اب آگے آگے چار کاریں اور پیچھے ہماری وین تیز رفتاری سے بڑھنے لگی۔ پرویز نے بتایا کہ عصمت پاشا نے کھانے کا بندوبست کر رکھا ہے۔ عاصمہ نے کہا کہ اتنی رات کو انہیں کیوں تکلیف دیتے ہو، ہم لوگوں نے تو جہاز میں کھا لیا ہے۔ بیٹے نے ماں کے ہاتھ تھام کر کہا۔
’’تکلیف تو ممی، جتنی اٹھانی تھی سمیرہ بھابھی اٹھا چکیں، وہ تو اب کھانا تیار کر کے ہم لوگوں کے انتظار میں بیٹھی ہوں گی۔ دیکھئے۔۔۔۔۔‘‘
اس نے پینٹ کی جیب سے موبائیل فون نکال کر نمبر ملایا۔ ’’ہیلو بھابھی! ہم لوگ برمنگھم آ گئے ممی سے بات کیجیے۔‘‘
اس نے آلہ اپنی ماں کے کان میں لگا دیا۔ عاصمہ نے دعا سلام کی اور اسی طرح گفت و شنید کرتے ہوئے ہماری گاڑیوں کا قافلہ عصمت پاشا کے مکان پر جا پہنچا۔ جس کے سامنے پارکنگ کے لئے خاصی جگہ تھی حالانکہ عام طور پر یہ سہولت کم لوگوں کو نصیب ہوتی ہے۔ البم کے صفحے جیسے چھوٹے سے باغیچے سے گزر کر ہم گھر میں داخل ہوئے تو سمیرہ پاشا نے دروازے ہی پر جھک کر آداب کیا اور عاصمہ سے بغل گیر ہو گئیں۔ دو ڈھائی سال کا ایک پیارا پیارا گل گوتھنا سا بچہ ان کے ٹخنوں سے لگا حیرت سے ہمیں تک رہا تھا۔ میں نے جھک کر اس کے گال تھپتھپائے۔
عصمت نے اپنی خوب صورت بیوی سے کہا۔ ’’سب لوگ تھکے ہوئے ہیں بھوک بھی زوروں کی لگی ہے، آؤ جلدی سے کھانا لگائیں۔‘‘
ہم لوگ براہِ راست ڈائننگ ٹیبل پر جا بیٹھے۔ عصمت اور ان کی بیگم نے جلدی جلدی قابیں اور دیگ لوازمات میز پر لا کر رکھے۔ بیچ میں پرویز اور اس کے دوستوں نے بھی کچھ ہاتھ بٹانا چاہا لیکن سمیرہ بولی۔ ’’آنٹی اور انکل کو آج ہم ہی کھلائیں گے۔‘‘
صبا گل گوتھنے کو چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہوئی اسے گود میں لے کر ہی کھانے کی کرسی پر بیٹھی۔ عام طور پر وہاں کھانے کے تین چار دور ہوتے ہیں۔ پہلے دور میں اسٹارٹر سے تواضع کی جاتی ہے۔ اس کورس میں ہمارے سامنے سلاد کی پلیٹیں اور مسالے دار مرغ کی بھنی ہوئی رانیں تھیں۔ ماشاء اللہ عصمت پاشا خوش خوراک بھی ہیں اور متواضع بھی۔ پہلے دور میں اپنے ساتھ انہوں نے اصرار کر کے مجھے بھی نہیں نہیں کرنے کے باوجود لحیم شحیم مرغ کی دو رانیں کھلا دیں۔ سلاد اس پر مستزاد۔ مجھ اناڑی کو کیا معلوم کہ بریانی بھی آئے گی۔ اسٹارٹر ہٹا کر بریانی کی قابیں رکھی گئیں تو عاصمہ نے مجھے مسکرا کر دیکھا اور صبا کی آنکھیں بھی چشمے کے پیچھے سے ٹمٹمانے لگیں کہ اب پاپا کیا کریں گے۔ میں نے کہا۔ ’’میاں عصمت! ہم نے جہاز کے لینڈ کرنے سے کچھ دیر پہلے ہی شکم پری کر لی تھی آپ کے اسٹارٹر تک ٹھیک۔ زیادہ مجبور نہ کیجیے۔‘‘
عصمت پاشا تیزی سے پنجابی آمیز اردو میں اصرار کرنے لگے۔ پرویز مزے لے رہا تھا، بولا۔ ’’پاپا یہ کھانے کے معاملہ میں کسی کی نہیں سنتے، جلدی گھر چلنا ہو تو تھوڑا بہت کہنا ان کا مان لیجئے۔‘‘
مجبوراً پلیٹ میں تھوڑے سے چاول نکال لئے، جن پر آنکھ بچا کر عصمت نے گوشت کا ایک پارچہ بھی رکھ دیا۔ میں نے مر کھپ کر انہیں پیٹ میں پہنچایا کہ بچپن سے غریب والدین نے تربیت ایسی کی ہے کہ کھانا ضائع کرنا گناہِ کبیرہ سا لگتا ہے۔ اب قورمے اور چپاتیوں کا نمبر آیا۔ میں نے جلدی سے ٹشو پیپر کھینچا اور ہاتھ پونچھتے ہوئے کھڑا ہو گیا۔
’’بس بھائی اب تم جواں مردوں کو کھانے سے انصاف کرنا چاہیے اور ہاں! سچ مچ عاصمہ نے جہاز پر کھانے کو ہاتھ نہیں لگایا تھا۔‘‘
صبا نے جلدی سے منہ پر رو مال رکھ لیا۔ عاصمہ نے مجھے گھور کر دیکھا اور یونہی ہنستے ہنساتے کھیر اور فروٹ کریم وغیرہ کے مرحلے سے گزر گئے۔ میں نے تو خیر جہاز میں ہی بھانپ لیا تھا کہ سمندر پار کے لوگ کھانے کے دوران پانی نہیں پیتے یا بہت ہی کم پیتے ہیں، اس لئے اورینج جوس کے گلاس سے تشنگی بجھا لی، لیکن عاصمہ نے پانی ہی طلب کیا جو میز پر وجود نہیں تھا، پرویز نے کچن سے لا کر دیا۔ آخر دُعا سلام کر کے ہم سب اپنے اپنے گھروں کو رخصت ہو گئے۔ راستے میں پرویز نے کہا:
’’ممی ہم نے تو نیا مکان بھی آپ کے نام سے ملتی جلتی سڑک پر لیا ہے۔ اسمے روڈ پر۔‘‘ اسپارک ہل علاقے کے اسمے روڈ پر اس کے مکان کا نمبر 107 ہے، اس نمبر کا بھی ایک رمز ہے ورنہ درج کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ وہاں پہنچے پہنچتے انگریزی وقت سے بھی تین بج گئے۔ لطف یہ ہے کہ ٹریول ایجنٹ عام طور پر سیاح کو بتاتے ہیں کہ دہلی سے لندن تک صرف آٹھ گھنٹے کا ہوائی سفر ہے۔ اس میں اگر دبئی، دمشق، ماسکو، یا فرینکفرٹ میں جہاز تبدیل کرنے کا مرحلہ درپیش ہو اور اس میں دو گھنٹے یا دو دن بھی لگ جائیں تو یہ وقت شمار میں نہیں آتا۔ نیز انگلستان کا وقت جو ہندوستان سے کبھی چار تو کبھی پانچ گھنٹے پیچھے ہوتا ہے اسے بھی حساب میں نہیں لاتے، ورنہ اگر راستے میں رکے بغیر بوئنگ مسافر بردار طیارے سے سفر کیا جائے تو تیرہ چودہ گھنٹے ضرور صرف ہوں گے۔ بہرحال صبح 4 بجے دہلی میں بھولے ہوئے ہم تین لوگ دوسری رات کو تین بجے برمنگھم میں گھر پہنچے! تھکان اتنی زیادہ تھی کہ میں پرویز کو اس کی ماں اور بہن کے پاس چھوڑ کر یہ دیکھے بغیر کہ مکان کیسا اور کتنا بڑا ہے، پینٹ اور شرٹ میں ہی بستر پر دراز ہو گیا اور رضائی تان لی کہ سردی بہت تھی۔
’سفر نامۂ برطانیہ‘ سے
تشکر: ادب ساز، اپریل جون 2006ء
٭٭٭