دوسرا پہیا ۔۔۔ قیصر شہزاد ساقیؔ

عنوان سے آپ کو لگ رہا ہو گا کہ گول گول پہیے کا صراط مستقیم سفر بیان ہوا چاہتا ہے مگر ایسی کوئی بات نہیں یہ صرف آپ کی تاریخی دلچسپی کا نتیجہ ہے جو کہ مجھے ادباء کی آمد و رخصت کے سن یاد کر کر کے بالکل نہیں۔ یہ منطقی لوگوں کی کیا الٹی ترتیب ہے لوگ بچپن سے بڑھاپے کی طرف سفر کرتے ہیں یہ آخر سے شروع کی طرف۔ فلاں سن کو افلاطون نے اکیڈمی بنائی جی مان لیا پر چند جواب چاہئیں۔ کیا ان بھلے وقتوں میں بھی معلمی یا وظیفے سے پیٹ نہیں بھرتا تھا یا کیا افلاطون بھی کسی مقابلے کے امتحان میں اپنی تمام تر فلسفیانہ موشگافیوں کے باوجود خفت سے دوچار ہوا تھا؟ اکیڈمی کے قیام کے بعد کیا ہفتہ وار اور ماہانہ آزمائشوں کا انعقاد ہوتا تھا اور اگر مخلوط محفل نہیں ہوتی تھی تو نا خلف ارسطو اور دوسرے لڑکوں کی طبیعت کی بحالی کے لیے کیا التزام کیا جاتا تھا؟ خیر یہ تو جملہ معترِضہ تھا۔

بات ہو رہی تھی پہیے کی۔۔۔۔ میں ۳۵۰۰ق۔ م میں ایجاد ہونے والے پہیے سے بھی پہلے کی بات کرتا ہوں جب جہان رنگ و بو کا کوئی وجود نہ تھا۔ کوئی راہ تھی نہ راہرو تھا۔ کلی تھی نہ پھول تھا۔ پہاڑوں کی بلندیاں تھیں نہ سمندر کی گہرائیاں تھیں۔ گرتے جھرنوں کے نغمے، بہتی ندیوں کی مدھر صدائیں کچھ بھی نہیں تھا۔ کائنات اگر تھی تو اس کی وسعتوں میں صرف ایک سکون برپا تھا۔ پھر کہیں دور زندگی کی ابتدا کیا ہوئی رنگوں کی کلکاریاں بکھر گئیں۔ جس طرح ہر چلتی چیز گاڑی ہوتی ہے اسی طرح زندگی بھی ایک گاڑی ہے۔ بابا جی آخر کب تک اسے اکیلے چلاتے۔ قرائن سے ثابت ہے کہ ایک پہیے پر گاڑی چلانا جہاں ایک مشکل کام ہے وہاں اس دقیق فن کو کرتب سمجھ لیا جاتا ہے۔

لگے رونے دھونے، کہتے کوئی کمی سی ہے، اندر ہی اندر گھلتے جا رہے تھے بس وہی حالت:

یہ زرد زرد چہرہ یہ لاغری بدن کی

پھر اماں کو آنا پڑا تو بس اس طرح مکمل ہوئی دنیا کی سب سے قدیم اور پائیدار گاڑی جو اب تک چلتی آ رہی ہے۔ مرد و عورت اس کا وزن سہار رہے ہیں۔ عورت کی تخلیق میری نا سمجھی کے مطابق انتظاماً مرد کے پر کاٹنے کے لیے ہوئی پہلے باپ کو جنت سے فانی دنیا پھر متواتر بیچارے بچوں کو آج تک۔ ایک عورت ہی تو سرکش مرد کو رام کر کے اس کا رشتہ زمین سے استوار کرتی ہے نہیں تو یہ نا ہنجار نہ صرف آسمان کے گلے کرتا ہے بلکہ آگ لگانے کو چڑھ دوڑتا ہے۔  یوں تو عورت کے میٹھے نمکین کئی روپ ہیں مگر میرے نزدیک اس کا مقتدر اور فطری روپ بیوی کا ہے باقی قابیل و ہابیل تو بعد کی پیداوار ہیں۔ بیوی جہاں عورت کے تمام جملہ اوصاف کی مالک ہوتی ہے وہاں وہ باپ بننے کی کوشش بھی پوری طرح کرتی ہے۔ بقول شخصے عورت پسلی سے پیدا ہوئی ہے اس کا ادراک بھی شادی کے بعد یعنی بیوی سے پالا پڑنے کے بعد ہی ہوتا ہے۔

اب ماں ہی کو لیجئے بچے کے ساتھ بچہ بن بیٹھیں۔ بچے کے چہرے پہ ہلکی سی مسکراہٹ دیکھنے کے لیے ٹھوڑی سہلائی جا رہی ہے، کبھی گدگدی کی جا رہی ہے، کبھی پیار سے بے چین الٹا پلٹا کے اس کا انگ انگ پورا کر رہی ہیں۔ لیکن ادھر دلھن بنتے ہی کل کی لڑکی کے اندر زمانوں کا رکھ رکھاؤ اور گویا صدیوں کے کامیاب تجربے کے بعد کی طمانیت پیدا ہو جاتی ہے۔ اب وہ لڑکی نہیں ہوتی بلکہ بیوی ہوتی ہے۔ اب ماننا اس کا فرض نہیں، منوانا ہے۔ اس کی مثال تو اس شخص کی سی ہے جو تماشا دیکھنے کے لیے رکا تھا اور گولی نے سنگھاسن کی مالا اس کے گلے میں ڈال دی تھی۔

شادی کے بعد تبدیلی کا عمل فوری اور فطری ہوتا ہے۔ میری ایک پڑوسن جب کنواری تھی تو سرِ راہ یوں کترا کے گزرتی تھی جیسے میں کوئی جن تھا یا کسی بد خواہ نے اسے باور کرا دیا تھا کہ مجھ سے کسی معقول بات کی توقع نہ رکھے غرض بات کرنا تو درکنار نظریں چار کرنے میں بھی کافی پس و پیش سے کام لیتی۔ شادی ہونے کے چند دنوں بعد اپنی عادت کے موافق لڑ جھگڑ کے میکے آئی ہوئی تھی۔ ایک دن جب میں منٹو کے مطالعے میں پوری طرح غرق تھا وہ چیختی چلاتی میرے گھر میں داخل ہوئی اور بغیر کسی توقف کے بولتی گئی ’’یہ جو پورے محلے کے تم آدھے خدا بنے ہوئے ہو ہمیں کیا فائدہ! آج جب میں کہیں باہر تھی سات اوپلے اور ایک کالے رنگ کا پلا کسی نے اٹھا لیے اور تمہیں کوئی خبر ہی نہیں۔۔۔۔ کیا تم کوئی جواب رکھتے ہو؟‘‘ یقین جانیے اس تبدیلی اور بے باکی کی وجہ سے میں مرعوب سا ہو گیا۔ ندامت سے میرا سر جھک گیا اور میں نے لجاجت بھرے انداز میں کہا:  ’’میں اپنے فرائضِ منصبی میں کوتاہی پر صد دل سے شرمندہ ہوں۔‘‘ اِس بات کا سننا تھا کہ موصوفہ نے اپنی جیت کے انتہائی کمینے احساس کی داد کاجل سے اٹی آنکھوں کو آگے پیچھے، اوپر نیچے اور دائیں بائیں مٹکا کر یوں دی جیسے بریانی کھاتے کھاتے منہ میں املی آ گئی ہو۔  عورت جتنی بھی بوڑھی ہو جائے اس کے اندر کی دلھن نہیں مرتی۔ کسی نو بیاہتا کی شادی والے دن بڑی بوڑھیاں میک اپ میں چھپی دلھن کی بلائیں لے لے کر صدقے واری جاتی ہیں۔  اس کے چہرے پر نور کی مقدار اور حسن کے تڑکے کو اپنی شادی والے دن کی تصویر جو کیمرہ نہ ہونے کی وجہ سے غیر محفوظ ہے (تصویر کی عدم دستیابی کی وجہ سے ان کا خیال ہے کہ اس دن ان سے خوبصورت دوشیزہ روئے زمیں پر نہ تھی) سے موازنہ کرتی ہیں۔ ساتھ ہی اپنے پوپلے منہ سے دلھن کے کان میں ’’گربہ کشتن روزِ اول‘‘ کا دماغی جہیز (جس میں پہلے سے انڈا اور چائے بنانے کی سہل ترکیب شامل ہوتی ہے) سے مالا مال کرتی ہیں۔ حالاں کہ اپنے وسیع تجربے اور گزشتہ پانچ، چھ زچگیوں کے بعد انھیں چاہیئے تھا کہ ایک ہی سبق یاد رکھتیں ’’اتفاق میں برکت ہے‘‘۔ آج تک عورت نے جو ترقی کی ہے جو برابری کے پاپڑ بیل کے کھائے ہیں سب دلھن بننے کے بعد ہی ممکن ہوئے۔ عورت کی اس جدت طرازی اور ترقی نے کلاسیکی دلھن کا چہرہ ہی مسخ کر دیا ہے۔ ذرا سوچیں تو۔۔۔ گرمیوں کی رات دلھن چہرے پہ گھونگٹ ڈالے پسینے میں تر بتر بیٹھی ہے۔ دلھا منہ پہ رو مال دھرے شرماتے لجاتے آئے جیسے ہی ہاتھ لگا کے یقین کرنا چاہا کہ کہیں خواب تو نہیں۔۔۔۔ دلھن نے ٹانگ سے جوابی حملہ کرتے ہوئے تقریباً چیخ کر کہا:  ’’ہم ابا حضور کو بتائیں؟ یہ نگوڑا چھوتا ہے ہمیں‘‘۔ کہاں وہ دلھن جسے شوہر کے ساتھ بیٹھنے میں تردد ہوتا تھا مہینوں ہم کلام ہونے کی نوبت نہ آتی تھی نام کی بجائے سرتاج سرتاج کہنا اس کی فطرت تھی۔۔ کہاں جدید دلھن جو زندگی کے لطیف و کثیف پہلو پہلے سے ہی طے کر دینا چاہتی ہیں۔ میرے ایک عزیز پچھلے ہفتے شادی کے بندھن میں بندھنے جا رہے تھے شادی سے دو دن پہلے ان کی بیوی جو ان کے بقول جذباتی بیویوں کے دبستان سے تعلق رکھتی تھی کسی ٹھنڈے ہوٹل میں ٹھنڈی چائے کے چھوٹے چھوٹے گھونٹ لیتے ہوئے قدرے آبدیدہ ہو کر کہنے لگی ’’میں امی ابو کو گھر سے کبھی نہ نکالوں گی‘‘ یہ سننا تھا کہ موصوف کے دل سے محترمہ کا مقام بڑی سرعت کے ساتھ تالو کو چھونے لگا متوقع بیوی نے اپنی بات جاری رکھی ’’آپ یوں کرنا مجھے ہی علاحدہ گھر دلوا دینا‘‘۔ ہائے اب تو رسمِ الفت ہی بدل گئی یعنی سوچیں تو سہی کہ قیس میاں آج ہوتے تو مجنوں نہ ہوتے۔۔۔۔ جب لیلیٰ محبت سے پہلے ہر آنے والے مجنوں کو ٹھونک بجا کے دیکھتی ہو اور بہتر سے بہتر کی جستجو میں ہو تو اس ایسے نستعلیق عاشق کہاں تاب لاتے۔ وہ صحراؤں کے باسی یہاں بڑے بڑے خواب، صاحب اس محبت سے تو خالی پیٹ بھی نہیں بھرتا باقی تو خیر بعد کے قصے۔

دلھن نے یہ سفر کسی ایک لمحے میں طے نہیں کیا بلکہ صدیوں کا مجاہدہ اور کارِ پیہم اس کے پیچھے موجود ہے۔ قصہ مختصر زندگی میں سائیکل و ریڑھی، جہاز و بس تک کتنی گاڑیوں کو قریب و دور سے دیکھا پر یہ واحد گاڑی ہے جسے سٹپنی کھٹکتی ہی رہتی ہے۔ زندگی کی گاڑی کا ایک یہ بھی فائدہ ہے کہ پہیوں کا حجم اور سائز جیسا بھی ہو یہ چلتی ہے بس نیت ہو سفر کی۔ میرا جیؔ نے کہا تھا عورت کا دوسرا نام صدمہ ہے۔ میرے خیال میں یہ واحد صدمہ ہے جو مرد دعائیں مانگ مانگ کے اپنے سر منڈھتا ہے بلکہ کبھی ضرورت پڑے تو چھین بھی لیتا ہے کیوں کہ گاڑی ہر شخص کا خواب ہے اور میاں ایک پہیے سے گاڑی مکمل نہیں ہوتی۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے