پس منظر : حکومتِ نے کچھ عرصہ قبل کے نام پر گھڑی کی سوئیاں ایک گھنٹہ آگے کر دی تھیں۔ یہ افسانہ اُسی فیصلے کے تناظر میں لکھا گیا۔
یہ کیسے ہو سکتا ہے، ایک لمحہ جو اُس نے گذارا نہیں، ایک پل جس میں اُس نے سانس نہیں لیا، جو اُس پر نہیں بیتا ، جسے اُس نے محسوس نہیں کیا، جو اُس کے احساسات سے نہیں گذرا، جس کو اُس نے خرچ نہیں کیا اُس کے حساب سے کیسے خارج ہو گیا۔ اُس کی عمر سے کیسے منہا ہو گیا، خود بخود ، بنا اُس سے پو چھے۔ ذاتی بنک اکاونٹ میں جمع رقم کہ جس پر انسان کا حقِ ملکیت ہوتا ہے، ضبط ہو جائے بغیر قصور کے، بغیر بتائے، بنا پو چھے۔ وہ یہی سوچتا رہا ، اسے جلن تو نہیں کہتے مگر اِک زیاں کا احساس تو تھا۔ جیسے بوڑھے کسان سے گندم کی بوری نہ اٹھائی جائے تو جوان بیٹا کچھ کہے بغیر بوری اُٹھا لے، ایک لمحہ جو برسوں بیت جانے کا احساس دلا جاتا ہے، خاموشی کے ساتھ، چپکے سے۔ اُس نے سوچا یہ حکومت کون ہوتی ہے گھڑیوں کی سوئیاں آگے پیچھے کرنے والی، بنا پوچھے میری زندگی کا ایک گھنٹہ لے جانے والی۔
محمد یقین جب گورداسپور کے گاوں بیبل چک میں پیدا ہوا تھا تو اُس کے باپ نے اُس کا نام یقین نہ جا نے کیا سوچ کر رکھا تھا۔ شا ید نور محمد چاہتا تھا کہ اُس کے بیٹے کو اپنے اوپر یقین ہو۔ شا ید اسیخواہش پر نورا اُس کو کاندھوں پر بٹھا کر تین گاؤں پیدل سکول چھوڑ کر اور لے کر آتا تھا۔ جب ۱۹۴۶ میں محمد یقین نے دسویں کا امتحان دیا تو اُسے یقین نہ تھا کہ وہ پاس ہو جائے گا اور آگے اُس نے کیا کرنا ہے۔ اُسے تو صرف وہ لمحہ یاد ہے کہ جب اُس نے میٹرک سیکنڈ ڈویژن پاس کیا تو نورے نے گاؤں بھر میں بتا شے بانٹے تھے اور گاؤں میں سینہ پھُلا کر فخر سے پھرا تھا کہ برادری کے پہلے دس جماعت پاس کا باپ تھا۔ بن ماں کے اکلوتے لڑکے کو اُس نے ایسا پالا تھا کہ گاؤں میں نورے کی مثال دی جاتی تھی۔
اگلے سال پاکستان بننے پر جب محمد یقین نے پیدل راوی پار کیا تھا تو اُس کے مہاجر قافلے کے تین چوتھائی لوگ راستے میں سکھوں کے حملے میں مارے گئے تھے۔ اُس کی آنکھوں کے سامنے نورے کے سینے میں برچھی آر پار ہوئی تھی، نورے کو صرف کلمہ پڑھنے کا موقع ملا تھا۔ یقین نے باپ کے سر پر بندھی سفید پگڑی کھول کر اُسی کے خون سے تر کی اور کسی مقدس شے کی مانند سینے سے لگا کر کھڑا ہو گیا۔ گاموں کمہار نے جب اُسے بت کی مانند باپ کی لاش پر کھڑے دیکھا تو ہاتھ سے پکڑ کر ساتھ کو کھینچا اور بھاگنے لگا۔ اگلے دو دن خون سے بھری وہ پگڑی یقین کے سینے سے لگی رہی، پاکستان پہنچ کر اُس نے ایک گڑھا کھود کر وہ پگڑی دفن کی اور پہلی دفعہ رویا۔
محمد یقین نے اِس آزاد مملکت میں اپنا آغاز تمام مشکلات کے باوجود بڑے یقین سے کیا۔ یہ ملک ہی اُس کے لیے سب کچھ تھا، دن میں پڑھائی اور شام کو مزدوری۔ کلیموں اور الاٹمنٹوں کی جب باری آئی تو وہ کیا الاٹ کراتا ، اپنا کلیم تو وہ سرحد پار کرتے ہی دفنا آیا تھا۔ یقین نے محکمہ تعلیم میں چا لیس سال نوکری کی۔ اُس نے محنت سے پڑھایا اور اُس کے شاگردوں نے ہمیشہاُس کی عزت کی۔ عزت کے علاوہ اُس کی کمائیاُس کا اکلوتا بیٹا تھا جس کا نام اُس نے اپنے باپ کے نام پر نور محمد رکھا۔ نور محمد نے جب لاہور انجینئرنگیونیورسٹی سے ڈگری حاصل کی تو یقین کو خوشی کے اُس لمحے کا ادراک ہوا جب اُس کے باپ نے گاؤں میں بتاشے بانٹے تھے۔
مگر محمد یقین کا ما تھا اُس دن ٹھنکا جس دن انجینیر نور محمد نے اپنے باپ کو تمہیداً بتانا شروع کیا کہ اِس ملک میں حا لات پڑھے لکھے لوگوں کے لیے ٹھیک نہیں،یہاں بے انصافیوں کے انبار ہیں۔ مگر بات تو اِس سے کہیں آگے کی تھی، نور محمد نے کینیڈا کی امیگریشن لے لی تھی، وہ اگلے ماہ نئے دیس کو ہجرت کر رہا تھا۔
محمد یقین کو ایسا محسوس ہوا جیسے اُس کے سینے میں بر چھی گھونپ دی گئی ہے۔ جیسےاُس کی عمر کی سوئیاں یکایک نصف صدی آگے کر دی گئی ہیں، بنا اُس سے پوچھے، بنا بتلائے۔ اُس کے ذاتی اکاوئنٹ میں جمع رقم، اُس کی محنت، دھوپ پسینے کی کمائی یکایک ضبط ہو گئی، بنا اُس کے علم کے، بغیر کسی قصور کے۔
٭٭٭