مصطفیٰ کریم سے مکالمہ — منیر الدین احمد

مصطفیٰ  کریم سے مکالمہ

منیر الدین احمد

مصطفیٰ کریم کا ایک افسانہ میں نے پہلی بار غالباً کینیڈا سے شائع ہونے والے مجلہ اردو انٹر نیشنل میں پڑھا تھا ، جو مجھے بے حد پسند آیا تھا اور میں نے دل میں سوچا تھا کہ ان کی مزید تخلیقات پڑھنی چاہئیں۔ چنانچہ جب بھی مجھے ان کا کوئی افسانہ مل جاتا تھا ، میں اس کو التزام سے پڑھتا تھا۔ مجھے پتہ چلا کہ وہ انگلستان میں مقیم ہیں اور میڈیکل ڈاکٹر ہیں۔ اس سے زیادہ معلومات مجھے میسر نہ تھیں۔ میں نہیں جانتا تھا کہ وہ کہاں کے رہنے والے ہیں اور کب سے یورپ میں رہائش پذیر ہیں۔ البتہ ان کے افسانوں سے میں اندازہ لگا چکا تھا کہ وہ انسانی سائیکی پر گہری نظر رکھتے ہیں اور ادب کے سنجیدہ قاری ہیں۔

ایک روز ڈاک میں اپنے نام ان کا خط دیکھ کر میں حیران اور بہت خوش ہوا۔ انہوں نے میری طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا تھا اور اپنے افسانوں کا ایک مجموعہ بھیجا تھا۔ یہ پندرہ سولہ سال قبل کی بات ہے۔ اس طرح ہمارے درمیان مراسلت کا سلسلہ قائم ہوا ، جو وقفوں کے ساتھ آج تک جاری ہے۔ ہماری ملاقات اب تک بالمشافہ نہیں ہوئی اور نہ ہی ہم نے کبھی ایک دوسرے کے ساتھ ٹیلی فون پر بات کی ہے۔ میں یوں بھی لکھے ہوئے کو ہر دوسری چیز پر ترجیح دیتا ہوں۔ لکھی ہوئی بات پتھر پر لکیر کے مترادف ہے۔ انسان خطوط کو بار بار پڑھ سکتا ہے اور ان معانی پر غور کر سکتا ہے ، جو بین السطور پوشیدہ ہوتے ہیں۔ ادیبوں کے خطوط کو اسی وجہ سے اہمیت دی جاتی ہے اور ان کی مد د سے ان کے ادب کو سمجھنے کی کوشش کی جا تی ہے۔

مصطفیٰ کریم کے خط اکثر مختصر ہوتے ہیں اور اصل مقصود سے متعلق ہوتے ہیں۔ ان میں کوئی زائد بات نہیں ہوتی۔ ان کی توجہ کا مرکز افسانے کا فن ہے اور ہمارے درمیان اس موضوع پر مکالمہ چل رہا ہے۔ چنانچہ جب میں نے ان کو اپنی کتاب پیٹر بخسل : کہانیاں ، افسانے ، خطبات بوطیقا ) پنجاب بکڈپو۔ لاہور۔1995بھیجی ، تو انہوں نے اپنے خط میں لکھا: میں نے سارے مندرجات پڑھ ڈالے۔ آپ کا تعارفی مضمون بہت اچھا ہے۔ اس سے پیٹر بخسل کے فن کو سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے۔ اس کے افسانے پڑھنے کے بعد یہ ضرور خیال آتا ہے کہ افسانوں میں حقیقت کیا ہے۔ میری حقیر رائے میں ہر افسانے کا کوئی ایک واقعہ یا کر دار اہم ہوتا ہے۔ اس کے گرد مصنف دیگر واقعات یا کر داروں کے تانے بانے بنتا ہے۔ وہ خیالی ہوتے ہیں اور جو خیالی ہونے کے باوجود قاری کو سچ محسوس ہوتا ہے۔ یہ لکھنے کے بعد محسوس ہوتا ہے کہ زمین گول ہی میں بعض واقعات بالکل ہی ناقابل یقین ہیں۔ افسانے کی توانائیوں میں اختصار بہت اہم ہے اور وہ بخسل کی کہانیوں میں موجود ہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہر ملک کے افسانے میں اس ملک کی ادبی روایتوں کی وجہ سے ایک مخصوص مزاج ملتا ہے۔ اس کا احساس بھی بخسل کے افسانوں میں ہوتا ہے۔  (17 جولائ 1995)

اس موضوع کی طرف مصطفیٰ کریم دوسال کے بعد لکھے جانے والے ایک خط میں لوٹتے ہیں۔

  زمین گول ہے میں اسی سالہ بوڑھا بہت سارے منصوبے محض زمین کی گولائی ثابت کرنے کے لئے بناتا ہے اور آخر میں سامنے کسی کے مکان پر سیڑھی لگا کر چڑھتا اور پھر غائب ہو جاتا ہے۔ اگر یہ تسلیم کر لیں کہ وہ شخص ضعیفی کی وجہ سے سٹھیا گیا ہے ، پھر اس کی ساری کارگذاری درست ہے۔ لیکن ایک عام سنجیدہ اردو ادب کا قاری اس واردات کو قبول نہیں کر سکے ) گا)۔ چونکہ سارے افسانے میں کوئی اور ایسا نکتہ نہیں ہے ، جو اس کی نیم دیوانگی کی جانب اشارہ کرتا ہے۔

 

جولائی 1997میں نے اپنے ایک خط میں پیٹر بخسل کے بارے میں لکھا تھا : پیٹر بخسل کے افسانے ، جن کو وہ بچوں کے لئے افسانے کہتا ہے ، البتہ بچے اس کی نظر میں پانچ سے اسی سال کے ہو سکتے ہیں۔ مجھے اس کہانیوں میں بہت کچھ ملتا ہے۔ ضروری تو نہیں کہ ہر کہانی مقصدی ہو۔ مجھے اس کا کھلنڈرانہ انداز اچھا لگتا ہے۔ 22) جولائی- 1997)

اسی نکتے کو میں نے ایک خط میں ذیل کے الفاظ میں پیش کیا : ایک چیز، جس کو اکثر ناقد نظر انداز کرتے ہیں ، مگر جو میرے نزدیک اہم ہے ، وہ یہ ہے کہ ادیب لکھتے ہوئے ایک کھیل کھیل رہا (ہوتا)ہے۔ وہ اپنے کھلنڈرانہ انداز میں بات سے بات نکالتا چلا جاتا ہے۔ اس چیز کو پیٹر بخسل نے خوب سمجھا ہے۔

اس کے افسانوں میں یہ کھیل ایک ایسا رخ اختیار کر لیتا ہے کہ کہانی قائم رہتے ہوئے بھی غیر اہم بن جاتی ہے۔میں نے یہ دیکھا ہے کہ جوانی کے دنوں میں مجھے اس کھیل میں زیادہ مزا آتا تھا۔ اب میری تحریر میں یہ عنصر کم ہوتا جا رہا ہے۔ تاہم میں اس سے بالکل تائب نہیں ہونا چاہتا۔ ہم لکھتے ہیں ، جیسے دوسرے لو گ تاش کھیلتے یا ویڈیو دیکھتے ہیں۔ (24 جون 1998 ء)

 

میری جرمن افسانوں کے انتخاب کی کتاب آدمی جس نے اپنے آپ کو بھلا دیا۔ جرمن کہانیاں سنگ میل پبلشر۔ لاہور۔ 1995ء کے بارے میں مصطفیٰٰٰ کریم نے تحریر کیا: جرمن افسانے کے چند تراجم پڑھ چکا ہوں۔ یہ سب بہت اچھے افسانے ہیں۔ خاص کر ان میں جو تہہ داریاں ہیں وہ خوب ہیں۔ لیکن اردو افسانے کے قاری کا اس وقت جو مزاج ہے مجھے شبہ ہے کہ وہ اس تہہ داری کو محسوس کرے گا۔

 

9 جنوری 1996ء کو اس کتاب کی طرف جناب مصطفیٰٰ کریم اپنے اگلے خط میں لوٹے ، جو کئی ماہ کے وقفے کے بعد میرے نام لکھا گیا۔

  آپ کے عمدہ جرمن افسانوں کے انتخاب ‘آدمی جس نے اپنے آپ کو بھلا دیا’ ابھی حال میں پڑھا۔ یہ ایک طرح اچھا ہی ہوا۔ چونکہ میں نے جس طرح ابھی اس کا لطف حاصل کیا، وہ پہلے ممکن نہ تھا۔ دو ہفتے قبل روزنامہ گاریجین میں آٹھ جرمن ناولا پر ایک مختصر تبصرہ میں نے پڑھا ، جس میں لکھا تھا کہ جدید ادب کا آغاز ان ناولا کے مصنفوں سے ہوتا ہے۔ کتاب خریدنے کی جد و جہد کی تو علم ہوا کہ اسٹاک ختم ہو چکا ہے۔ ادھر میں خود بھی اپنے افسانوی اسلوب سے غیر مطمئن ہونے لگا ہوں۔ اس لئے اکثر سوچتا رہتا ہوں کہ اپنی تخلیق میں جدت طرازی کس طرح لاؤں ، جو اب میرے لئے آسان نہیں ہے۔ نتیجتاً آپ کا انتخاب کھولا، جس میں سبھی اچھے افسانے ہیں اور بعض تو بہت عمدہ ہیں۔ مبین مرزا نے ان پر جو تبصرہ حالیہ ارتکاز میں کیا ہے ، وہ بھی تشنہ اور جرمن ادب سے ناآشنائی کا اظہار کرتا ہے۔ اس میں ان کا قصور بھی نہیں۔ اردو انحطاط پذیر معاشرے کی زبان ہے اور پاکستان میں شرح تعلیم صرف 20۔25 فیصد ہے۔ اس میں ادب شناسی کو وہ مقبولیت نہیں مل سکی ، جس کی وہ مستحق ہے۔(18 جون 1997ء)

 

جولائی 1997ء والے خط میں جناب مصطفیٰٰ کریم نے یواخیم زائیپل کے افسانے شہر س میں کے بارے میں لکھا ، جو میری کتاب آدمی جس نے اپنے آپ کو بھلا دیا۔جرمن کہانیاں ( سنگ میل پبلیکیشنز۔ لاہور۔ 1995ء میں شامل ہے :

شہر س میں افسانے میں غلط فہمی مرکزی خیال ہے اور اس کے گرد  افسانہ بہت کامیابی سے گردش کرتا ہے۔ یہ خیال ضرور آتا ہے کہ جرمنی جیسے ترقی یافتہ ملک میں کیا کوئی عام انسان اس حد تک ناسمجھ ہو سکتا ہے کہ بجائے س کے وہ ب میں اتر جائے اور اسے اپنی غلطی کا فوراً احساس نہ ہو۔ ظاہر ہے یہ متنازعہ نکتہ ہی (14 جولائی1998ء)

 میں نے اس کے جواب میں لکھا :

آپ نے یواخیم زائیپل کے افسانے س میں اس خامی کا ذکر کیا ہے کہ کون اس قدر ناسمجھ ہو سکتا ہے کہ بجائے س کے ب میں اتر جائے۔ غالباً   آپ کو غلط اسٹیشن پر اترنے کا اتفاق نہیں ہوا۔ میں اس چیز کو قابل تصور جانتا ہوں ، بلکہ اگر ایسا ممکن نہ بھی ہو ، تو میں انسانی غلط فہمی کو جائز سمجھتا ہوں۔ اس افسانہ میں دراصل تبصرہ کیا گیا ہے انسانوں کے اندر پائی جانے والی کمزوری پر ، جو انہیں غلط فیصلہ کرنے پر اکساتی ہے۔ یہ افسانہ بہت سیاسی ہے اور جرمن قوم کے کر دار پر تبصرہ کے مترادف ہے ، جو اتنی آسانی کے ساتھ غلط قدم اٹھاتی ہی۔ (22 جولائی)

 

اسی کتاب کے افسانوں بھیدی اور تجربہ کے بارے میں مصطفیٰٰ کریم نے لکھا : علامت نگاری اور جدت طرازی کی وجہ سے اکثر مجھے خیال آتا ہے کہ افسانے میں Plausibility ختم ہو جاتی ہے۔ مثلاً آپ کے انتخاب میں افسانہ بھیدی میں قاتل ایک اجنبی پر بھروسہ کر لیتا ہے اور نہ اس  کے سامنے سے فرار ہونے کی کوشش کرتا ہے اور نہ ہی اپنا جرم چھپاتا ہے۔ اسی طرح افسانہ تجربہ میں پیچھے کی جانب بھاگنا بھیPlausible نہیں محسوس ہوتا۔ (۱۸ جون میں نے اس کا جواب دیتے ہوئے لکھا :

آپ نے میری کتاب کے افسانوں بھیدی اور تجربہ کے بارہ میں کہا ہے کہ وہ ناقابل یقین لگتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ بھیدی میں مصنف نے صرف اس بات کی طرف اشارہ کر نا چاہا ہے کہ معمولی جرم کرنے والا اپنے بھید کو چھپانا چاہتا ہے اوراس سے بڑا جرم کرنے والا اس بھید کا راز افشا نہ کرنے کا وعدہ کرتا ہے۔ اس چیز کو آپ absurdity بھی کہہ سکتے ہیں۔ اس نکتہ کی خاطر اس نے یہ کہانی گھڑی ہے۔ میں نے ایک دفعہ اس کی مثال گفتگو میں شوکت صدیقی کے سامنے پیش کی ، تو انہیں یہ بات اچھی لگی تھی۔ انہوں نے اردو ادب میں سے ایک کہانی کا حوالہ بھی دیا تھا۔ تجربہ کے اندر بات دراصل وہ کہی جا رہی ہے ، جس کا سارے افسانے میں ذکر نہیں ہے۔ افسانہ نگار اپنے وقتوں میں ہونے والی تبدیلیوں پر تبصرہ کر رہا ہے۔ اسے پتہ ہے کہ یہ بات ناممکن ہے ، جو وہ بیان کر رہا ہے ، مگر کیا ہمارا واسطہ آئے دن ناممکن چیزوں کے ساتھ نہیں پڑتا۔ (24 جون)

 

ابھی حال میں ہی میں نے اپنے گاوں میں ایک بچی کو اسکول سے گھرواپس جاتے ہوئے دیکھا ، جو پچھلے پاؤں چل رہی تھی۔ اسی حالت میں اس نے سڑک کو عبور کیا اور اپنے گھر تک یوں ہی چلتی رہی۔ کیا یہاں پر تجربہ کی کہانی کا عملی ثبوت نہیں مل جاتا؟

افسانے میں Plausibility کا ہونا مصطفیٰٰ کریم کے نزدیک بہت اہم ہے۔ اس چیز کا ذکر ان کے ایک مضمون میں بھی ملتا ہے :

میں نے افسانوں میں Plausibility کو بہت اہمیت دی ہے۔ یہ صرف میری رائے نہیں ، بلکہ اکثر و بیشتر ناول اور افسانوں کے مبصروں کی آراء ہیں۔ منٹو یقیناً بہت بڑے افسانہ نگار تھے۔ پھر بھی ان کے دیگر افسانوں میں بھی اس عنصر کی کمی ہے۔ ممکن ہے اس موقعے پر اعتراض کیا جا سکتا ہے کہ افسانہ فکشن ہے اور اس میں سچائی یا Plausibility کی تلاش غلط ہے اور اس میں کر داروں کی درست شکل دیکھنی ہے ، تو اخبار یا سوانح عمری پڑھئی۔ (مصطفیٰٰ کریم: افسانہ۔ قدیم؟۔ جدید؟۔ قومی زبان۔ دسمبر 1994 ء ص 27۔28)

میں افسانے میں کہانی کو بہت اہم سمجھتا ہوں۔ اس بارے میں میں نے اپنے ایک خط میں لکھا: میرے نزدیک کہانی سب سے اہم ہے۔ اس کے بغیر افسانہ بانجھ رہ جاتا ہے اور پڑھا نہیں جاتا۔ اگرچہ جدیدیوں کا ایک اصول ہے کہ جس قسم کی زندگی پر ہم لکھ رہے ہیں ، وہ بسر نہیں کی جا سکتی۔ اس لئے اس پر لکھی جانے والی تحریرایسی ہونی چاہیئے کہ پڑھی نہ جا سکی۔(24 جون )

 

ایک اور بات ،جس کی طرف مصطفیٰٰ کریم بار بار لوٹتے ہیں ، یہ ہے کہ مختصر افسانہ ایک یا دو کر داروں کا متحمل ہوتا ہے۔ کر دار اگر اس میں زیادہ ہوں ، پھر ان کے ساتھ طویل افسانے ہی میں انصاف ممکن ہی۔( افسانہ۔ قدیم؟۔جدید؟۔ قومی زبان۔ ص 23)

میں ان کی بات کو درست مانتے ہوئے بھی ان سے اختلاف کرتا ہوں ، کیونکہ بعض اوقات یہ چیز ناگزیر بن جاتی ہے۔ میں نے انہیں لکھا تھا:

۔۔۔ ایک سے زیادہ کر داروں کے سہارے سے ایک اکائی کا افسانہ لکھنے کا تجربہ بھی میں نے کیا ہے۔ میرے ایک غیر مطبوعہ افسانہ بنت حرام میں احمد ندیم قاسمی یہ دھوکہ کھا گئے کہ میں نے ایک لڑکی کے ذکر سے افسانے کا آغاز کیا تھا اور اب اس سے محبت یا کوئی دوسرا تعلق دکھایا جانا چاہئیے۔ جب کہ میں اس افسانے میں اس لڑکی کے بھائی کو مرکزی کر دار بنا کر پیش کر رہا تھا۔ قاری کو اس بات کا پتہ آخر میں جا کر چلتا ہے۔ (22 جولائی )

ارو ادب کے نقادوں کے الٹ ہم دونوں کے درمیان اس بارے میں اتفاق پایا جاتا ہے کہ بیانیہ افسانے کا نقص نہیں ہے۔اس بارے میں ان کی رائے ملاحظہ ہو: اردو ادب کے سبھی نقاد بیانہ کو مختصر افسانے کا نقص بتاتے ہیں۔ بیانیہ یا narration کم و بیش سبھی افسانوں میں ہوتا ہے۔ اگر بیانیہ میں واقعات نہ ہوں ، تو وہ بے جان ہے۔ (18 جون)

میں نے اس بارے میں لکھا : بیانیہ کو افسانے کا نقص قرار دینے والوں کی عقل میں کوئی حرج ہے۔ آغا بابر نے میری کتاب کے پیش لفظ میں کیا خوبصورت بات کی ہے۔ لکھتے ہیں :کہانی کہنے کا بھی سلیقہ اور فن ہوتا ہے۔ جس کا خوبصورت چوکھٹا بیانیہ کی صداقت اور آرائش سے بندھتا ہے۔

 

میرے نزدیک افسانہ پڑھے جانے کے قابل ہونا چاہیئے ، یعنی ایسا ہونا چاہیئے ، جو اپنے آپ کو پڑھوائے۔ کیا وجہ ہے کہ انور سجاد آج کل نہیں لکھ رہے۔ اس لئے کہ کوئی ان کا افسانہ نہیں پڑھ سکتا۔ ( 22 جولائی)

اس کے جواب میں مصطفی کریم نے لکھا:  جہاں تک علامت نگاری کا تعلق ہے میں آپ سے اس نکتے پر متفق ہوں کہ علامتی افسانوں سے ان افسانوں کی Readability ختم ہو جاتی ہے۔ گو انور سجاد اپنے علامتی افسانوں کی وجہ سے کافی مشہور ہوئے۔ لیکن ان کے افسانوں کے مجموعے میں سوائے کارڈیئک دمہ کے دوسرے افسانے میں نہیں سمجھ سکا۔ ( 3 اگست )

 

میں نے علامتی افسانے پر اپنے اگلے خط میں یہ تبصرہ کیا: میری نظر میں علامتی افسانہ ختم ہو چکا ہے۔ اس کے اندر اگر توسیع کے امکانات تھے ، تو ان سے فائدہ نہیں اٹھا یا گیا۔ اگر افسانہ پڑھا نہیں جا سکتا یا اس کا مفہوم قاری کے پلے نہیں پڑتا ، تو پھر افسانہ کی جانکاری کیسے ہو۔ (7 اگست)

 

بیانیہ کے حوالے سے مصطفیٰٰ کریم نے میرے ایک افسانے پر یوں تبصرہ کیا : آپ کا افسانہ نقد سودا مجھے پسند آیا۔ چونکہ اس میں دلکش بیانیہ ہے۔ ایسا بیانیہ جس میں مسلسل حرکت یا ایکشن ہو وہی موزوں ہے۔ جہاں کر داروں کا بیانیہ میں تعطل ہوتا ہے ، وہ نقص ہے۔ اسے کسی اردو کے نقاد نے اب تک بیان نہیں کیا ہے۔ میں اس شہر کے ایک رائٹر کلب میں جایا کرتا تھا ، وہاں اس نکتے پر زور دیا گیا تھا۔آپ کی کہانی میں یہودی اور مسلمان عرب کی انتہائی کمزوری کو بغیر کسی اصرار کے نمایاں کر دیا گیا ہے اور شروع سے آخر تک ایک سسپنس سا رہتا ہے۔ یہ بھی ایک فنی حسن ہے۔ (4 ستمبر)

 

میں نے اپنے کسی خط میں لکھا تھا کہ مجھے بیشتر اردو افسانے پسند نہیں آتے۔ اس لئے انہوں نے اسی خط میں مجھ سے استفسار کیا کہ جب آپ کسی افسانے سے متاثر ہوتے ہیں ، تو اس کے کن پہلوؤں پر آپ کی توجہ مائل ہوتی ہے اور کیوں ؟

میں نے اس کے جواب میں لکھا: جہاں تک میں نے غور کیا ہے یہ چیز کسی فارمولے کے بغیر ہے۔ مجھے بعض اوقات افسانے کی زبان اپنی طرف کھینچتی ہے۔ دوسری بار پلاٹ اور کہانی کہنے کا طریق۔ میں ایسے افسانے بالکل نہیں پڑھ سکتا ، جو بور کرنے کے لئے لکھے جاتے ہیں۔ انور سجاد کے بعض افسانے اس تعریف کے تحت آتے ہیں۔ سب سے زیادہ مجھے کہانی میں دلچسپی ہے اور اس امر میں کہ مصنف نے اس کو کس رنگ میں پیش کیا ہے۔ اگر افسانے میں کوئی نکتہ پیدا کیا گیا ہے ، تو پھر میری توجہ ضرور اس طرف جاتی ہے کہ یہ بات کس قدر ہنر مندی سے کہی گئی ہے۔ بعض اوقات لوگ کچھ کہنا چاہتے ہیں ، مگر الفاظ کی بھول بھلیوں میں ایسے گم ہوتے ہیں کہ قاری کے پلے کچھ نہیں پڑتا۔ پھر یہ بات مجھے پسند نہیں ہے کہ تصنع برتا جائے اور جان بوجھ کر پیچیدگیاں پیدا کی جائیں۔ مجھے شوکت صدیقی نے کہا تھا کہ ہمارے ہاں بعض علامت نگار یہ کرتے ہیں کہ کہانی لکھنے کے بعد اس کے بعض ٹکڑے کاٹ دیتے ہیں تا کہ قاری کو محنت کرنی پڑی۔ (8 جنوری )

اس سلسے میں مصطفیٰ کریم نے لکھا: آپ نے افسانے کی پسندیدگی کے سلسلے میں جو نکات لکھے ہیں کم و بیش وہی میرے ذہن میں بھی ہیں۔ لیکن میں افسانے میں Plausibility کو بھی کافی اہمیت دیتا ہوں۔ ابھی حال میں مقصود الہیٰ شیخ کا افسانہ میں نے پڑھا۔ اس میں افسانے کی ایک مرکزی کر دار گاؤں میں رہنے والی جا ہل عورت ہے ، جو زنا بالرضا میں ملوث ہوتی ہے۔ اچانک وہ بریڈ فورڈ میں انگریزی کا اخبار پڑھتی پارٹی میں پائی جاتی ہے۔ فنون میں سعید ہمدانی کا افسانہ بھی بہت خراب ہے۔ رفعت مرتضیٰٰ کا افسانہ کافی اچھا تھا۔ لیکن اس میں مرکزی کر دار بچے کا رات کے وقت اور وہ بھی برفباری میں فوجی بیرک میں فوج کے گھوڑوں کے اصطبل میں جا کر گھوڑوں کے درمیان سو جانا مجھے نا اعتبار محسوس ہوا۔ اسی طرح فرحت پروین کے افسانے جنک یارڈ میں پاکستانی امریکن کر دار جس کی پاکستانی بیوی مذہبی بھی ہے۔ ان کا اپنے والدین کو ،جو پہلی بار رہ جانے کے لئے امریکہ پہنچے ہیں ، انہیں بجائے اپنے گھر میں چائے وائے پلانے کے سیدھے اس گھر میں لے جانا ،جسے بیوی نے ان کی رہائش کے لئے خرید لیا ہے ، مجھے بہت contrived اور پاکستانی قاری کو خوش کرنے کے لئے ایک لکھائی محسوس ہوئی۔ (23 جنوری)۔

 

میں نے اس کے جواب میں لکھا: رفعت مرتضیٰ اور فرحت پروین کے افسانوں کے بارے میں میری وہی رائے ہے ، جو آپ نے قائم کی ہے۔ دونوں ناکام افسانے ہیں۔ بہت دلچسپ امر یہ ہے کہ آپ نے سید احمد سعید ہمدانی کے افسانے کو بہت خراب قرار دیا ہے۔ یہ بات میں نے بہت پہلے ، افسانہ کے چھپنے سے بھی پہلے ، ہمدانی صاحب کو لکھ دی تھی کہ افسانہ میری پسند کی چیز نہیں ہے ، مگر پاکستانی قارئین اس کو سراہیں گے۔ اس پر انہوں نے مجھے احمد ندیم قاسمی کا خط بھیج دیا ، جس میں افسانے کی تعریف کی گئی تھی۔ آپ کو شاید اندازہ ہو گیا ہو گا کہ میں بھی اس افسانے کا کر دار ہوں۔ میرے ذریعہ ہی ہمدانی صاحب کا رابطہ اس محترمہ سے ہوا تھا اور میرے پاس ہی ہمدانی صاحب آئے تھے اور میں ہی انہیں بریمن میں محترمہ سے ملانے کے لئے لے کر گیا تھا۔ پاکستان میں لوگوں کو ایسی چیزیں پسند ہیں ، جن میں واعظ کی طرح انگلی اٹھا کر نصیحت کی جائے۔ ایسے افسانے قدسیہ بانو نے بھی لکھے ہیں۔ میں نے ان سے تو نہیں کہا ، مگر ندیم صاحب سے کہا تھا کہ آپ کیوں ایسے افسانے چھاپ دیتے ہیں۔ قدسیہ بانو کے ایک افسانے میں ایک کر دار دنیا جہان کے گناہوں کا ارتکاب کرنے کے بعد اپنے گھر کے محافظ کی تسبیح اٹھا کر گھر میں لوٹ جاتا ہے اور گویا اس کے سارے گناہ دھل جاتے ہیں۔آج ہی ڈان میں محترمہ بینظیر بھٹو اپنے بچوں کے ساتھ اور ایک لمبی تسبیح کو اٹھائے ہوئے دکھائی گئی ہیں۔ یہ لوگ دنیا کی نظروں میں دھول جھونکتے ہیں۔ عرب تو مشغلہ کے طور پر تسبیح کو ہاتھ میں رکھتے ہیں ، جیسے ہمارے ہاں پنجاب میں دیہاتی بٹیرا ہاتھ میں اٹھائے پھرتے تھی۔(27 جنوری )

ہم اپنے خطوط میں ایک دوسرے کے ادب پاروں پر تبصرہ کیا کرتے ہیں ، جو عام طور سے ہم تک محدود رہتا ہے ، کیونکہ ہم اپنی آراء کو متعلقہ رسالوں میں چھپنے کے لئے نہیں بھیجتے۔ ہندو پاک میں اپنے حلقہ احباب سے تعلق رکھنے والوں کے حق میں تعریفی خطوط چھپوانے کی بری رسم چل نکلی ہے۔ جس کے سبب غیر جانبدارانہ بات کہنے کا رواج ختم ہوتا جا رہا ہے۔ میرے افسانہ رچرڈ رائٹ کے بارے میں مصطفیٰ کریم کا رد عمل ملاحظہ ہو: کچھ دن پہلے شہر زاد کا دوسرا شمارہ میرے پاس آیا ، تو اس میں آپ کا افسانہ رچرڈ رائٹ پڑھا۔ افسانے کا منطقی ارتقاء اور انسانیت کی رمق اور ایک ہلکا سا ابہام ، جو درد مندی کی جانب اشارہ کرتا ہے۔ ان سب نے مجھے متاثر کیا۔ ( ۵ دسمبر )

اس سے قبل مصطفیٰ کریم نے میرے افسانے شناخت کے بارے میں لکھا تھا: ستمبر کا شب خون میرے پاس نہیں آیا۔ اکتوبر کا آیا ہے ، جسے میں روانہ کر رہا ہوں۔ آپ کی کہانی رواں اور اس میں ڈبورنک ایک نئی جگہ نئے کر داروں سے ہم آہنگ محسوس ہوتی ہے۔ جہاں میں نے  نشانات لگائے ہیں ، وہاں مجھے واقعات کی صحت یا Plausibility پر ذرا شبہ ہوا۔ بعد میں مجھے وہ درست محسوس ہوئے۔ البتہ میں یہ نہیں سمجھ سکا کہ شدید بدہضمی کی وجہ سے دونوں کر داروں کو ایک دوسرے کی شناخت کس طرح ہوئی۔ (23 جنوری)

اس کے جواب میں میں نے لکھا: آپ نے میرے افسانے شناخت کے بارے میں لکھا ہے کہ شدید بد ہضمی کی وجہ سے دونوں کر داروں کو ایک دوسرے کی شناخت کس طرح ہوئی؟ آپ اس افسانے کو پھر ایک بار پڑھیں۔ اس میں یہ بیان ہوا ہے کہ فرنسواز اپنا تشخص چھپانا چاہتی ہے۔ مگر جب وہ اپنی خود ساختہ کہانی سناتی ہے ، تو میرے دل میں پہلی بار شبہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ اپنی کہانی سنا رہی ہے۔ اس سلسلہ میں اس کا یہ کہنا اہم ہے کہ پل کی عثمانی قوس دراصل رومن قوس کی ترقی یافتہ صورت تھی۔ چونکہ میں جانتا تھا کہ یہ بات وہی کہہ سکتا ہے ، جو آرکیٹکٹ ہو یا کم از کم تعمیری معاملات میں دسترس رکھتا ہو۔ پھر جب ڈوبرونک میں موریس اور میدلین کے ساتھ ملاقات ہوتی ہے اور غذائی زہریت کو فرانسواز میدلین کی شرارت قرار دیتی ہے ، جو موریس کو اپنے قبضہ میں کرنا چاہتی ہے ، تو بات کھل جاتی ہے کہ موریس ہی فراسواز کا خاوند ہے۔ اس طرح گویا فرانسواز کی شناخت کا راز کھل جاتا ہے۔ (27 جنوری )

جب نیا ورق ، ممبئی، کے مدیر سجاد رشید نے میرا افسانہ ولی مجھے اس ریمارک کے ساتھ واپس بھیج دیا کہ اس میں مکالمہ نہیں ہے ، تو میں نے اس کے بارے میں مصطفیٰ کریم کی رائے معلوم کرنے کے لئے وہ افسانہ ان کی خدمت میں بھیجا۔ ان کا جواب ملاحظہ ہو:

اس میں حسب ذیل خوبیاں ہیں۔ (1)۔ رضوان کا تعلق ایک ایسے ملک اور معاشرے سے ہے ، جو اردو قاری کے لئے اجنبی ہے۔ اس کے لئے Exotic کا لفظ استعمال کرتے ہیں ، جس کا نعم البدل اردو میں نہیں۔ (2)۔ افسانے میں بلا کی روانی ہے اور تمام اہم اور جزوی واقعات میں بیساختہ پن ہے۔ کہیں شبہ نہیں ہوتا کہ مصنف انہیں زبردستی گھڑ رہا ہے۔ (گو افسانہ لکھنے کے لئے واقعات گھڑنے پڑتے ہیں )۔(3)۔ رضوان کا کر دار عمدہ ہے۔ وہ زلیخا کو جسمانی طور پر حاصل کرنے کے بعد بھی اس کی محبت میں اس حد تک خود کو مبتلا پاتا ہے کہ آخر میں خود کشی کر لیتا ہے۔ (4 ) افسانہ جہاں پر ختم ہوتا ہے وہ انسان کی معصومیت کا المیہ ہے اور ایک بھر پور طنز بھی۔ دونوں نکات فنی اعتبار سے بہت اہم ہیں۔

 

اب چند سوالات جو تنقید نہیں بلکہ اپنے آپ سے خود کلامی ہے اور جوابات کی تلاش بھی۔

 

(1) افسانے میں تین کر دار ہیں۔ راوی ، رضوان اور زلیخا۔ راوی اور رضوان کی داخلی زندگی کا علم تو ہو جاتا ہے ، لیکن زلیخا کی بابت پتہ نہیں چلتا۔ خاص طور پر اس لئے بھی کہ اگر ہم مکرانیوں کو جانب پاکستانیوں کی بیگانگی اور نسل منافرت زیر نگاہ لائیں تو یہ سوچنا پڑتا ہے کہ زلیخا ایک حبشی کو اپنی جانب متوجہ پا کر کیا سوچتی ہے ؟ اس کا جواب میں بھی نہیں دے سکتا۔ چونکہ حال میں جدید امریکن افسانوں کا جو انتخاب میں نے پڑھا اس میں بیشتر افسانوں میں کر داروں کی سوچ و فکر سرے سے تھی ہی نہیں۔ تشبیہ اور استعارے بھی نہیں تھے۔ سیدھا سادا بیان تھا۔ وہ بیانیہ نہیں جس میں تعطل ہوتا ہے اور جسے افسانے کا نقص قرار دیتے ہیں۔ (6 جولائی 1998ء)

مصطفیٰ کریم نے مجھے اپنا ناول بھیجا ، تو میں نے اس کے بارے میں رائے دیتے ہوئے لکھا: آپ نے اپنا ناول بھیجا ہے ، جس کو میں نے اسی ہفتے میں پڑھ ڈالا تھا۔ مجھے وہ بہت پسند آیا۔ مگر چونکہ مجھے یوں لگا تھا ، جیسے اس کی کہانی میں جھول آ گیا ہو ، اس لئے میں نے سوچا کہ اسے دوسری بار پڑھوں گا۔ یہ دوسری بار آتے نہیں آتی۔ اس دوران میں آپ کا افسانہ شاعر میں پڑھا ، جس میں آپ نے ایک عورت کے جذبات کی خوبصورت تصویر پیش کی ہی۔آپ نے اپنی کہانی میں یہ رخ بھی دکھایا ہے کہ ایشین یا کالے کے ساتھ شادی کا انجام بھی برا نکل سکتا ہے۔ مگر اس سے زیادہ اہم بات تو یہ تھی کہ اس عورت کو اپنی آزادی سے فائدہ اٹھانے کا موقعہ نہیں ملتا۔ آپ کے ناول کو میں نے آج پھر دیکھا ہے۔ میرا سابقہ تاثر درست نہیں تھا۔ (یکم جولائی)

مجھے انٹرنیٹ پر ڈان میں چھپنے والی ایک خبر سے پتہ چلا تھا کہ مصطفیٰ کریم ایک تاریخی ناول لکھ رہے ہیں۔میرے اس بارے میں استفسار کے جواب میں انہوں نے لکھا: آپ کی اطلاع درست ہے۔ میں 1857ء بنگال کے انتہائی ہنگامی اور اہم دور پر ناول لکھ رہا ہوں۔ کر داروں میں سراج الدولہ ، ان کے دو اہم افسر ، میر جعفر ، کلائیو، سراج ا الدولہ کی بڑی خالہ گھسیٹی بیگم، اس کی بیوی اور داشتہ ہیں۔ میری کوشش ہے کہ ان کو خوبیوں اور برائیوں کے ساتھ پیش کروں۔ اس دور کی تاریخ پر برٹش لائبریری سے کافی کتابیں مل گئیں۔ ان میں سے واقعات کے علاوہ کر داروں کے مختلف پہلوؤں کے خاکے ذہن میں آئے ہیں۔ ڈھانچہ تیار ہو گیا ہے۔ اب مختلف ابواب کو مکمل شکل دینے کی کوشش کر رہا ہوں۔ ناول کے تقاضوں کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے مرشد آباد اور پلاسی کے جنگ کے میدان کو بھی دیکھ آیا ہوں۔ دو دشواریاں ایسی ہیں ، جن کا حل میرے ذہن میں نہیں آتا۔ کتابیں اب نہیں بکتیں۔ ناشر پیسے لے لیں گے۔ اس کے بعد ان کی بلا سے کتاب بکتی ہے یا نہیں۔ نیز وہ خطوط کا جواب نہیں دیتے۔ دوسری دشواری یہ ہے کہ روشن خیالی اور تحمل پاکستان کی اردو دنیا سے رخصت ہو چکا ہے۔ اس لئے میرے ناول میں اگر کسی ہندو کو میں نیک انسان یا دلیر پیش کرتا ہوں یا کوئی ہم جنسی کا پہلو ناول میں ہے تو قارئین اور ناقد انہیں پسند نہیں کریں گے۔ میرے ایک اچھے مذہبی دوست کا اصرار ہے کہ سراج الدولہ کا زوال ہندوؤں کی وجہ سے ہوا۔ یہ نکتہ تاریخ کے اعتبار سے بالکل غلط ہے۔ سراج الدولہ کے نانا علی وردی خان نے اپنے دور حکومت میں بنگال میں گائے کی قربانی بند کر دی تھی۔ اس کے علاوہ اس کے بھتیجے جو مختلف جگہوں یا ریاستوں کے نواب تھے ، وہ ہندوؤں کے ساتھ مل کر ہولی کھیلتے تھے۔ ناول کا کینوس چونکہ وسیع ہوتا ہے ، اس لئے تہذیب کی مختلف جھلکیوں کو پیش کرنا پڑتا ہے۔ اب اگر ڈر ہو کہ قاری کی حسیات مجروح ہوں گی۔ پھر قلم میں رکاوٹ آنے لگتی ہے۔ بہر حال دیکھیں کیا ہوتا ہی۔ ( 21 مارچ )

چند ماہ بعد اس ناول کے بارے میں مصطفیٰ کریم نے میری رائے پوچھنے کے لئے مجھے لکھا: مجھے اپنی تخلیق کے سلسلے میں آپ کے آراء کی ضرورت ہے۔ اگر آپ ان کا اظہار بذریعہ خط کر دیں تو مہربانی ہو گی۔ آئندہ کے حالیہ شمارے میں میرے زیر تحریر ناول کا پہلا باب شائع ہوا ہے۔ یہ رسالہ آپ کے پاس غالباً  آتا ہے۔اگر آپ میری تحریر کو پڑھنے کی زحمت گوارا کریں اور پھر مجھے بتائیں کہ اس میں بڑے ناول کی اٹھان ہے یا نہیں ؟ نیز Atmosphere بنانے کے لئے میں نے لباس اور دیگر آرائش کا جو ذکر کیا ہے کیا وہ موزوں محسوس ہوتا ہے ؟ اس کے علاوہ دو ثانوی کر داروں کی جو تفصیل میں نے بیان کی ہے وہ فنی اعتبار سے نقص تو نہیں۔ (31 جولائی)

میں نے اس کے جواب میں لکھا: آپ کا 31 جولائی کا خط بہت دنوں سے آیا پڑا ہے میں نے سوچا کہ آپ کے ارشاد کے مطابق آپ کے ناول کا باب طوفان کی آہٹ ایک بار نہیں دو تین بار پڑھوں تاکہ اطمینان سے رائے دے سکوں۔ پہلی بار پڑھا تو مجھے تھوڑی سی الجھن ہوئی ، کیونکہ میں فوری طور پر نہ سمجھ پایا تھا کہ معاملہ کیا تھا۔ یہ بات ناولوں سے مختص ہے اور مجھے پتہ ہے کہ آگے پڑھتے چلے جانا چاہئیے معاملہ خود بخود کھل جائے گا۔ چنانچہ یہی ہوا۔ باب کو مکمل کرنے سے پہلے میں اصل مسئلہ سمجھ چکا تھا۔ دوسری بار پڑھا تو شروع سے لطف اندوز ہوا۔ جناب کو یہ کیسے خیال آیا کہ اس میں کوئی خامی رہ گئی ہے۔ مجھے اس میں بڑے ناول کے امکانات نظر آتے ہیں۔آپ نے لباس وغیرہ کا ذکر بہت مناسب رنگ میں کیا ہے۔ دونوں ثانوی کر دار بھی کہانی کے اندر فٹ آتے ہیں۔ سچی بات ہے کہ مجھے اس باب کو پڑھتے ہوئے آپ پر رشک آیا۔ مجھے یقین ہے کہ آپ کا ناول ایک عمدہ تصنیف ثابت ہو گا۔ (10 ستمبر )

میری مراسلت چند ایک دوسرے ادیبوں کے ساتھ بھی ہے۔ مگر کسی اور کے ساتھ فنی نکات پر اس طرح کھل کر بات نہیں ہوتی ، جیسی مصطفیٰ کریم کے ساتھ مراسلت میں ہوتی ہے۔ میں اس کو ان کی ذات کا خاص پہلو جانتے ہوئے دل سے شکر گذار ہوں۔