وارث شاہ سے
امِرتا پریتم
آج وارث شاہ سے کہتی ہوں
اپنی قبر سے بولو!
اور عشق کی کتاب کا
کوئی نیا ورق کھولو
پنجاب کی ایک بیٹی روئی تھی
تو نے اس کی لمبی داستان لکھی
آج لاکھوں بیٹیاں رو رہی ہیں
وارث شاہ تم سے کہہ رہی ہیں
’اے درد مندوں کے دوست
پنجاب کی حالت دیکھو
چوپال لاشوں سے اٹا پڑا ہے
چناب لہو سے بھر گیا ہے
کسی نے پانچوں دریاؤں میں
زہر ملا دیا ہے
اور یہی پانی
دھرتی کو سینچنے لگا ہے
اس زر خیز دھرتی سے
زہر پھوٹ نکلا ہے
دیکھو سرخی کہاں تک آ پہنچی۔۔۔!
اور قہر کہاں تک آ پہنچا۔۔!
پھر زہریلی ہوا
ون جنگلوں میں چلنے لگی
اس نے ہر بانس کی بانسری
جیسے ایک ناگ بنا دی
ان ناگوں نے لوگوں کے ہونٹ ڈس لۓ
پھر یہ ڈنک بڑھتے گۓ
اور دیکھتے دیکھتے پنجاب کے
سارے انگ نیلے پڑ گۓ
ہر گلے سے گیت ٹوٹ گیا
ہر چرخے کا دھاگا ٹوٹ گیا
سہیلیاں ایک دوسرے سے بچھڑ گئیں
چرخوں کی محفل ویران ہو گئی
ملاحوں نے ساری کشتیاں
سیج کے ساتھ ہی بہا دیں
پیپلوں نے ساری پینگیں
ٹہنیوں کے ساتھ توڑ دیں
جہاں پیار کے نغمے گونجتے تھے
وہ بانسری جانے کہاں کھو گئی
اور رانجھے کے سارے بھائی
بانسری بجانا بھول گۓ
دھرتی پر لہو برسا
قبروں سے خون ٹپکنے لگا
اور پربت کی شہزادیاں
مزاروں میں رونے لگیں
آج جیسے سبھی ’کیدو‘ بن گۓ
حسن اور عشق کے چور
میں کہاں سے ڈھونڈھ لاؤں
ایک وارث شاہ اور
وارث شاہ! میں تم سے کہتی ہوں
اپنی قبر سے اٹھو
اور عشق کی کتاب کا
کوئی نیا ورق کھولو
(سب رس حیدرآباد دسمبر 2006 کے شمارے سے)