رفیق سندیلوی کا شعری وجدان ۔۔ دانیال طریرؔ

رفیق سندیلوی کا شعری وجدان

 

                   دانیال طریر

 

نظم کے سنجیدہ قاری پر ایک بات تو رفیق سندیلوی کی نظمو ں کے مجموعے ’’غار میں بیٹھا شخص‘‘ کی اوّلین قرأت ہی سے ثابت ہو جاتی ہے کہ یہ نظمیں اُس کے ہم عصر نظم نگاروں سے مختلف ہیں،لیکن اوّلین قرأت پر دکھائی دینے والا یہ اختلاف اُس کی نظموں کے ظاہر کا اختلاف ہے۔ باطن تک رسائی پہلی قرأت کے بس میں ہونی بھی نہیں چاہیے کیوں کہ اگر نظم پہلی ہی قرأت پر اپنے سب اَسرار کھول دے تو اِسے جدید تر نظم کے طور پر قبول نہیں کیا جا سکتا۔

اوّلین قرأت پر یہ نظمیں قاری کو زرعی و صنعتی فضا سے دور کہیں صحرا میں یا کوہساروں کے دامن میں ملگجے میں بیٹھے لوگوں کے ایک گروہ میں شامل کر دیتی ہے جہاں ایک فرد مختصر و طویل،مربوط و غیر مربوط اور مختلف النوع واقعات پر مبنی کسی مشترک روح کی داستان سُنارہا ہے۔ پہلی سطح پر صرف تجسس ہے اور حیرت و ابہام کی کم گہری دھند ہے جس سے معنی کی روشنی کبھی چھنتی ہے تو کبھی دھند کی اوڑھنی اوڑھ لیتی ہے۔ پہلی سطح پر اِس داستان کا سامع یہی محسوس کرتا ہے کہ جیسے یہ داستان اپنی تفہیم اور تکمیل کے لئے اُسے اپنا ایک فعال کردار بنانا چاہتی ہے مگر ہمارا سامع تو اَب تک صرف داستانیں سُننے کا عادی ہے۔ وہ داستان کا کردار بن کر سُنانے کے عمل میں شریک ہونے کی خُو پیدا نہیں کرسکا۔ محض سامع کی حیثیت میں یہ داستان غنودگی کے کیف اور کبھی کبھی بے کیفی سے تو ہمکنار کر سکتی ہے مگر پوری نیند اور پوری بیداری سے سرشار ہونے کی توقع پوری نہیں کر سکتی۔ گویا رفیق سندیلوی کی نظمیں سُننے اورُسنانے کی دو طرفہ فضا سے ممزوج ہیں۔

پہلی سطح پر یہ نظمیں پُر آہنگ تصویر یں ہیں مگر اِس آہنگ کے عقب میں موجود غنائیت کے قرینے، تصویروں کے پسِ منظر میں خیال و احساس، رنگ و روغن اور ارتباط و انسلاک کے رموز نیز مربوط ومنسلک کرنے کے وسائل اور شعری محرک سے تخلیقی تجربے کی کُنہ تک رسائی کے معاملات قاری کی فعال شرکت کا مطالبہ کرتے ہیں البتہ قاری کی فعال شمولیت سے پیشتر بھی رفیق سندیلوی کی نظمیں اپنی فنکارانہ تازگی کے با وصف اُس کے دوسرے ہم عصروں کے مقابلے میں زیادہ کیف آگیں اور اَثر آفریں ہیں۔

آج  کے دور میں لکھی جانے والی بیشتر نظم جن وجوہات کی بنا پر یکسانیت زدگی کا احساس پیدا کرتی ہے،اِن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں :

۱۔ آج کی بیشتر نظم عموماً داخلیت سے عاری مخصوص نوعیت کے خارجی آہنگ کی حامل ہے۔ وہ آہنگ جو ذاتی خیال و           احساس، تخلیقی کرب اور عصر ی شعور کی دین ہوتا ہے، اکثر شعرا کے ہاں مفقود ہے۔

۲۔ مخصوص اور محدود لفظی ذخیرے کے باعث اکثر شاعروں کی نظم لفظیاتی تکرار اور استعارا تی یکسانیت کی شکار دکھائی دیتی ہے جو طبیعت کو مکدر کر دینے کا باعث بنتی ہے۔

۳۔ ایک ہی نظم میں جد ید کہلائے جانے والے سبھی موضوعات کو بغیر از تحلیل سمونے کی کوشش تقریباً سب کے ہاں یکساں طور پر موجود ہے۔ کم فہمی کے باعث اِسے معنی کی تکثیریت سمجھ لیا جاتا ہے۔

۴۔ روحِ عصر کو نہ پا سکنے والے نظم نگار عصری شعور کا اظہار فرض سمجھتے ہیں۔ خبر کو نظمانے کا شوق انھیں اپنے اصل سوالوں کی طرف بھی متوجہ نہیں ہونے دیتا۔ نتیجتاً تخلیق سطحیت اور بناوٹ کا شکار ہو جاتی ہے۔

۵۔ امیج سازی میں بھی تقلیدی روش عام ہے۔ تجربے سے پھوٹتے امیجز اِس لئے بھی کم دکھائی دیتے ہیں کہ اکثر لکھنے والوں کے پاس اپنا تجربہ ہی نہیں ہوتا۔ زیادہ تر دو سروں کے تجربات پر اکتفا کیا جاتا ہے۔

۶۔ نظم کے آغاز، کلائمکس، اختتامیے نیز مصرعوں کی لمبائی چوڑائی تک میں یکسانیت در آئی ہے۔

۷۔ دورانِ نظم قوافی کا استعمال سامنے کے قافیوں سے ہٹ کر اِس لئے بھی دکھائی نہیں دیتا کہ نظم نگاروں کو غزل دشمنی نے شعورِ غزل ہی سے بیگانہ کر دیا ہے۔

۸۔ خارجیت کی یلغار میں داخلیت کا تحفظ بھی اکثر نظم نگاروں کے ہاں ناپید ہے۔

۹۔ محدود اور موجود کے علاوہ کسی جہانِ دیگر کی تلاش آج کے بیشتر نظم نگاروں کا مسئلہ ہی نہیں جس نے نظم میں ایک بڑا خلا پیدا کر دیا ہے۔

۱۰۔ آج کی بیشتر نظم ہر دوسرے شاعر کے ہاں جُز و تو بنتی ہے مگر کسی تخلیقی کُل سے ملاپ کا احساس نہیں دلاتی،یعنی کثرت کسی وحدت میں منقلب ہوتی ہے نہ اِس جانب پیش قدمی کا تاثر اُبھارتی ہے۔

مندرجہ نکات کی روشنی میں جب رفیق سندیلوی کا نظم کا مطالعہ کیا جاتا ہے تو ایک بدلی ہوئی فضا دکھائی دیتی ہے۔ رفیق سندیلوی کی ہر نظم ایک الگ اکائی ہونے کے باوجود ایک کُل کا حصہ معلوم ہوتی ہے۔ کثرت میں وحدت اور وحدت میں کثرت کا یہ تاثر ریاضت اور اپنی تخلیقی ذات کی مکمل آ گہی کے بغیر پید ا نہیں ہوتا۔ رفیق سندیلوی اپنے مرکز سے دور جا کر بھی اِس سے لاتعلق نہیں رہتا۔

رفیق سندیلوی نے خود کو موجود تک محدود نہیں کیا بلکہ نامعلوم کو معلوم کرنے کے لئے فکری اور شعری سطح پر بہت قابلِ تعریف کام کیا ہے۔ اُس کے ہاں موجود نامانوسیت اور اجنبیت اِسی سبب پیدا ہوئی ہے۔

رفیق سندیلوی کے سوال موضوعیت کے حامل ہیں۔ اِن سوالوں کی معروضی اہمیت اپنی جگہ مگر رفیق سندیلوی نے اِنھیں اپنی داخلی دنیاؤں سے چُنا ہے، یہی وجہ ہے کہ یہ سوال ابدیت کے لمس کے باوجود اُس کے اپنے سوال معلوم ہوتے ہیں اور یہ اُس کی بہت بڑی کامیابی ہے۔ رفیق سندیلوی کو ہم عصر نظم نگاروں میں ممتاز کرنے والی ایک خوبی اُس کا شعورِ غزل بھی ہے۔ نظموں میں آنے والے اَچھوتے قوافی اور اِنھیں برتنے کا سلیقہ رفیق سندیلوی کو غزل کی تخلیقی ریاضت سے حاصل ہوا ہے۔ غزل گوئی کی اِسی گہری نسبت نے اُس کی نظم کے رنگ و آہنگ اور صورت و ساخت کو ترتیب دینے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔

رفیق سندیلوی نے اپنی نظم کو مصرعوں کی طوالت، آغاز، اُٹھان اور اختتام ہر حوالے سے معمول کی نظم سے الگ اور مختلف بنانے کی کوشش کی ہے اور اِس میں وہ خاصا کامیاب نظر آتا ہے۔

رفیق سندیلوی کی شاعری اُس کے اپنے تجربے کی دین ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اُس کی امیجری اپنی ساخت  و پرداخت میں انفرادیت کی حامل ہے۔ تجربے سے منسلک تمثالیت کی ایسی مثالیں ہماری شاعری میں بہت ہی کم ہیں۔

رفیق سندیلوی کے ہاں سطحی نوعیت کا وہ عصری شعور بھی نظر نہیں آتا جس پر اِس دور کے متعدد شاعر مفتخر دکھائی دیتے ہیں۔ رفیق سندیلوی نے روحِ عصر کے انجذاب کے بعد اپنے سوالوں کو بڑے سوالات یعنی ہمیشہ کے سوالات کے ساتھ جوڑ کر اپنی فکری تشکیل کی ہے تاہم اُس کی نظم میں فکر براہِ راست اظہار کے بجائے حسی تمثالوں میں خود کو منقلب کر کے اپنی موجودگی کو ثابت کرتی ہے۔

رفیق سندیلوی کے ہاں موضوعاتی غدر کے بجائے ایک مرکزی سوال یا خیال کی پیش کش کا رویّہ عام ہے۔ وہ ایک مرکز کے گرد دائرہ در دائرہ پھیل کر مرکز کی طرف پلٹ آتا ہے مگر جلو میں کئی نئے خیالات اور سوالات اُس کے ہمراہ ہوتے ہیں۔ اُس کی نظم معنوی جہات کی حامل ہے مگر یہ معنوی جہات موضوعات کی بے جا کثرت کی وجہ سے نہیں، موضوع یا سوال کے اعماق تک رسائی کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں۔

رفیق سندیلوی کا لفظی ذخیرہ بھی دوسرے نظم نگاروں کے مقابلے میں زیادہ کثیر ہے۔ معمول کے بر خلاف لفظیات کے استعمال نے اُس کی نظم کو صوری و معنوی حوالوں سے مختلف بنانے کے ساتھ ساتھ روانی اور غنائیت ایسی خوبیوں سے متصف کر دیا ہے۔ اُس کی نظم رُک رُک کر، ہانپ ہانپ کر اور ٹوٹ ٹوٹ کر آگے بڑھنے کے بجائے میٹر کے تسلسل میں میانہ رفتار کے ساتھ تکمیل کے مراحل طے کرتی ہے۔

رفیق سندیلوی کی نظم کا آہنگ اُس کی تخلیقی شخصیت کی اکائی سے جس طرح منسلک ہے وہ نہ صرف اُسے ایک بے مثال شاعر کے طور پر متعارف کرانے کا وسیلہ بنتا ہے بلکہ قاری کے ذہن پر نظم کی  بالائی سطح سے زیریں سطح تک پہنچنے کے راستے بھی اُجالتا چلا جاتا ہے۔

رفیق سندیلوی نے اپنی نظموں میں زمان و مکاں کے پھیلاؤ کو کم اور زیادہ کرتے ہوئے وجود و عدم کے معنی دریافت کرنے کی تخلیقی کاوش کی ہے۔ عموماً ان موضوعات پر غور و فکر کرنے والے شاعر شاعری کی حدود سے باہر نکل کر دیگر علوم کے دائرے میں داخل ہو جاتے ہیں لیکن رفیق سندیلوی نے خود کو شاعری کی حدود میں رکھتے ہوئے فلسفیانہ اور نیم فلسفیانہ سوالات کے جواب تلاش کرنے کا قابلِ ستائش کام کیا ہے۔ رفیق سندیلوی کی بیشتر نظمیں لوک کہانی اور اساطیری فضا میں وقت نا وقت، خواب و حقیقت، وجود و عدم، مکا ں ولا مکاں، من و تُو، جبر و اختیار نیز وحدت و کثرت کے معنی تلاش کرتے ہوئے نت نئی تمثالیں گھڑتی اور پیش کرتی چلی جاتی ہیں۔ چونکہ اِن سوالوں کے سرے کہیں نہ کہیں ایک دوسرے سے جُڑ کر ایک مرکزِ واحد کی جانب سفر کرتے محسوس ہوتے ہیں، اس لئے رفیق سندیلوی کی نظموں کے سرے بھی کہیں نہ کہیں ایک دوسرے سے جڑنے کا احساس دلاتے ہیں۔ مجموعی طور پر یہ نظمیں مرکز گریز ہو کر بھی مرکز مائل نظر آتی ہیں۔ اِن تمام نظموں کا مرکز خود شاعر کا تخلیقی وجود ہے اور اِن نظموں کا محرک بھی یہی تخلیقی وجود ہے۔ اِن نظموں کی توانائی، آب و تاب، بوقلمونی اور نیرنگی سب اِسی وجود کی عطا ہے۔

ہر اعلیٰ تخلیق کار کے راستے میں غیر تخلیقی وجود ایک رکاوٹ ہوتا ہے مگر اِسے مکمل طور پر راستے سے ہٹایا بھی نہیں جا سکتا۔ رفیق سندیلوی کی نظموں میں فن کی سطح پر تخلیقی وجود اور غیر تخلیقی وجود کا تصادم نظر آتا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ اِسی تصادم نے رفیق سندیلوی کے تخلیقی وجود کو اُن بے اعتدالیوں سے بچایا ہے جو اُس کے دوسرے ہم عصروں میں واضح طور پر دیکھی جاسکتی ہیں۔ رفیق سندیلوی اِس امر سے آگاہ ہے کہ لطافت میں کثافت یا کثافت میں لطافت کی کتنی مقدارسے جلوہ پیدا ہو جاتا ہے۔

رفیق سندیلوی کی نظمیں اچھی بھی ہیں ا ور اَچھوتی بھی، اِن نظموں کا رنگ بھی نیا ہے اور آہنگ بھی، یہ نظمیں فنی طور پر چابک دست بھی ہیں اور زبردست بھی، یہ نظمیں بامعنی بھی ہیں ا ور لاثانی بھی۔ رفیق سندیلوی پڑھے جانے اور بار بار پڑھے جانے کا استحقاق رکھتا ہے۔ سنجیدہ فکری سوالات اور تازہ تر شعر ی جمالیات کے با وصف اُس کی نظمیں قارئین کو تا دیر آنند مہیاّ کرتی رہیں گی۔ میں پورے اعتماد سے کہہ سکتا ہوں کہ رفیق سندیلوی کو نظم کے بڑے لکھنے والوں میں گِنا جائے گا۔

٭٭٭

 

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے