رفیق سندیلوی کی نظم نگاری ۔۔۔ شفیق انجم

 

رفیق سندیلوی کی نظم نگاری

 

                   ڈاکٹر شفیق انجم

 

رفیق سندیلوی جدید اُردو نظم کے تازہ دم اور معتبر شاعروں میں سے ہیں۔ اُنھوں نے مختصر مدت میں اپنی فکری ندرت اور فنی جودت کی بدولت اُس مقام تک رسائی پائی ہے جو قابلِ فخر بھی ہے اور لائقِ تقلید بھی۔ معاصر نظم گو شعرا میں اُن کی آواز نہ صرف نمایاں و ممتاز ہے بلکہ بہ آسانی آگے نکلتی اور اپنے اوج کے نئے زاویے ترتیب دیتی دکھائی دیتی ہے۔ ’’غار میں بیٹھا شخص‘‘ کی نظمیں اِسی حقیقت کا آئینہ ہیں اور اِن نظموں کے مطالعے سے بہت واضح طور پر احساس ہوتا ہے کہ اِن کا خالق صرف اچھے درجے کا شاعر نہیں،بہت اچھے اور اعلی پائے کا وہ سخن گر ہے جسے اپنے فن پر غیر معمولی قدرت اور دسترس حاصل ہے۔

رفیق سندیلوی کی سب سے بھلی بات اور پہلے ذکر کیے جانے کے لائق خوبی‘ اُن کی نظموں میں گہرے تجربے اور احساس کی وہ فراواں حدّت ہے جو یک بیک قاری کو اُچک لیتی ہے۔ بالکل جیسے کوئی سحر پھونکے۔ ۔ ۔ صاف معلوم ہوتا ہے کہ شاعر جو کچھ کہہ رہا ہے اِس کا لفظ لفظ مسلسل حسی ادراک سے جُڑا ہوا  اور ذات کی داخلی ریاضتوں میں پگھلایا ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لکھت آغاز ہی سے گھیرا ڈالنے لگتی ہے اور جوں جوں یہ عمل آگے بڑھتا ہے، محویّت کا اَن دیکھا حصار تنتا چلا جاتا ہے۔ ’’غار میں بیٹھا شخص‘ ‘کی تمام تر نظموں میں یہ وصف موجود ہے اور ترسیلِ معنی سے تسکینِ جمال تک کی تمام منزلیں اِسی کے سائے میں سَر ہوتی ہیں۔ ایک لمحاتی شدّت اور کوندے کی طرح اُبھرتی گم ہوتی کیفیت کو بہت دیر تک سنبھالے رکھنا اور نظم کے آغاز سے اختتام تک اِس کے یکساں ارتعاش کو رواں دواں رکھنا، کسی غیر معمولی تخلیقی قوّت اور ضبط و ارتکاز کی صلاحیّت کے بغیر ممکن نہیں۔ رفیق سندیلوی نے یہ کر دکھایا ہے اور اِسی لیے اُن کی نظموں کی پہچان کا اوّلین حوالہ داخلی جذب و کشش اور احساس و ادراک کی یہی تیز اور مسلسل رو ہے:

 

گُلِ انفصال پذیر ہوں

مَیں نے تیری شاخ سے ٹوٹ کر

کسی اور باغ کا رُخ کیا

تو کھلا کہ خوشبو جو مجھ میں تھی

بڑے خاص طرز و حساب کی

کسی آبِ جذب میں تیرتے ہوئے خواب کی

مرے رنگ و روغنِ جسم میں

جو عمیق نوع کی درد تھا

مَیں کہیں کہیں سے جو سرخ تھا

مَیں کہیں کہیں سے جو زرد تھا

مرے زرد وسُرخ کے درمیاں

وہ جو اِک حرارتِ لمس تھی

وہ فنا ہوئی

مری پتّی پتّی بکھر گئی!

 

نظم کی بُنت اور سنبھال سہار میں رفیق سندیلوی کا طریقۂ کار بہت قابلِ توجّہ اور جاذبِ نظر ہے۔ اُن کے اُسلوب کی سج اور تکنیک کا رچاؤ باہم ایک ہو کر اثر آفرینی کی بنیادیں مضبوط کرتے ہیں اور جمالیاتی حظ بخشی کے عمل کو بڑھاوا دیتے ہیں۔ نظم کا لانچنگ پیڈ خیال ہو یا واقعہ، ہر دو صورتوں میں لفظوں کا رَس بھرا اِحساس اور تکنیکی تموّج تحیّر پیدا کیے رکھتا ہے۔ دیدہ زیب منقّش مصرعے اپنی جڑت بُنت،تقدم تأخر اور پھیلاؤ سمٹاؤ میں ایک وجد پیدا کرتے کچھ اِس طور سے وارد ہوتے ہیں کہ قاری کو لمبا انتظار نہیں کھینچنا پڑتا۔ عموماً ہر مصرعے اور بسا اوقات چند ایک مصرعوں بعد تسکینِ جمال کا ایک دائرہ مکمل ہو جاتا ہے۔ اِس کے بعد ایک اور، پھر ایک اور۔ ۔ نظم کے اختتام پر یہ سب ایک دوسرے میں مدغم ہو کر ایک کُلی احساس میں ڈھل جاتے ہیں۔ یہ قرینہ اور سلیقہ رفیق سندیلوی کو محبوب ہُوا ہے۔ اُن کے اظہار میں گھٹے ہوئے اختصار اور بڑھی ہوئی تفصیل کی بجائے ایک متوازن صورتِ حال ہے۔ وہ ن۔ م۔ راشد کی طرح لمبا چکر نہیں کاٹتے اور نہ میرا جی کی طرح ایڑی پر گھومتے ہیں بلکہ مجید امجد کے قریب رہتے ہوئے چھوٹے دائروں میں حرکت مکمل کرتے ہیں۔ اِس نبھا ہ میں انھیں کامیابی ملی ہے تو اِس کی بڑی وجہ غالباً یہی ہے کہ ایک تو اُنھوں نے اپنا فکری محور آس پاس کی زمینوں سے ہٹ کر دُور کے ثقافتی علاقوں میں نہیں بنایا۔ دوسرے لسانیاتی سطح پر حافظے کے مقفّل خزانوں کو تازہ بنے ذخیروں پر فوقیت نہیں دی اور تیسرے جمالیاتی بہاؤ کو کسی مخصوص پیکر میں مقید کرنے کے بجائے متنو ّع صورتوں میں نقش کرنے کی سعی کی ہے:

 

عجب ملاح ہے

سوراخ سے بے فکر

آسن مار کے

کشتی کے اِک کونے میں بیٹھا ہے

عجب پانی  ہے

جو سوراخ سے داخل نہیں ہوتا

کوئی موجِ نہُفتہ ہے

جو پیندے سے

کسی لکڑی کے تختے کی طرح چپکی ہے

کشتی چل رہی ہے

 

رفیق سندیلوی کی نظموں میں موجود مظاہر کا حسی و وجدانی ادراک بہت اہم ہے۔ اسی دائرے سے وہ اپنے موضوعات چنتے اور اِنھیں ایک نئے ترتیبی سانچے میں ڈھالتے ہیں۔ اُن کے ہاں حال کی اشکال کبھی اپنے موجود مظاہر کے ساتھ وارد ہوتی ہیں کبھی اِس تجریدی صورت میں جو تخیل کا زور اُنھیں سُجھاتا ہے۔ یہیں سے وہ ماضی کی طرف اُترتے اور نا موجود کو کریدتے ہیں لیکن اِس کرید میں موجود سے ربط و تعلق برابر اُستوار رہتا ہے۔ اِس طریقہ کار کی بدولت اُن کی نظموں میں وہ اتصالی رنگ اور امتزاجی ذائقہ در آیا ہے جس میں موجود کا کھردرا، کٹیلا پن بھی ہے اور نا موجود کی ملائم پُراسراریت بھی۔ رفیق سندیلوی نے یہ جوڑ اِس خوبی سے لگایا ہے کہ کسی ایک عنصر کو دوسرے سے جدا کر کے سمجھا جانا ممکن نہیں رہا:

 

ترمرے سے ناچتے ہیں

دیدۂ نم ناک میں

برّاق سائے رینگتے ہیں

راہ داری میں

بُرادہ اڑ رہا ہے

ناک کے نتھنے میں

نلکی آکسیجن کی لگی ہے

گوشۂ لب ‘رال سے لتھڑا ہے

ہچکی سی بندھی ہے

اِک غشی ہے

میرا حاضر میرے غائب سے جُدا ہے

کیا بتاؤں ماجرا کیا ہے

 

موضوعاتی حوالے سے ’’غار میں بیٹھا شخص‘ ‘کی تمام نظمیں ایک لڑی میں پروئی ہوئی محسوس ہوتی ہیں۔ زندگی کے بارے میں استفہام و حیرت، معلوم و نامعلوم کا طلسم، حیات و موت کی بوالعجبی، وجود کے ظاہر و باطن میں تعبیروں کا اژدہام۔ ۔ ۔ اور اس کے ساتھ ساتھ وقت۔ ۔ ۔ وقت  جو ہر نقش کو روندتا ہوا مسلسل رواں دواں ہے۔ رفیق سندیلوی نے اِن سب مسائل و معاملات کو زاویے بدل بدل کرسوچا، محسوس کیا اور نظم کے سانچے میں ڈھالا ہے۔ اُنھوں نے یہ قدیمی موضوعات نئی جہتوں کے ساتھ اپنائے اور تازہ علمی و فکری تناظر میں اِن کی تفہیم کی ہے۔ یہ مراتبِ وجود کی ایسی کہانیاں ہیں جس میں ایک عجیب مافوق سلسلہ ہے۔ لہر سے لہر جڑی ہے اور رنگ برنگ طلسم ہویدا ہوئے چلے جاتے ہیں۔

رفیق سندیلوی نظم میں موضوع کی ترسیل امیج سازی کے ذریعے کرتے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے منظر بتدریج اُترتے ہیں اور تصویر بننے لگتی ہے۔ یہ بالکل مصوّری کی طرح کا عمل ہے جیسے ماہر مصور کا ہر سٹروک تصویر کی ایک نئی جہت تخلیق کرتا ہے اور رنگوں کے امتزاج اور زاویوں کے جڑاؤ سے ایک شبیہ واضح ہوتی چلی جاتی ہے، اِسی طرح کا عمل رفیق سندیلوی کی نظموں میں بھی ہوا ہے۔ یہاں لفظوں کے برش سے منظر پینٹ کیے گئے ہیں۔ ہر نظم ایک تصویر ہے اور یہ تصویر کچھ اِس مہارت سے کینوس پر اتاری گئی ہے کہ نہ صرف موضوع بلکہ اِس سے وابستہ تمام تر کیفیتیں اور احساس کی تمام تر حالتیں بھی پینٹ ہو گئی ہیں۔ یہاں امیج سازی میں شستگی، برجستگی اور پرفیکشن کا وہ عالم ہے کہ داد دیئے بغیر رہا نہ جائے۔ کُل کی تشکیل کے لیے اجزا کی سلیکشن،ان کی تراش خراش اور پھر جُڑت کا اَنوکھا سٹائل،نظم کی معنویت کو اِس طور نکھارتا ہے کہ تفہیم اپنے محوروں میں آپ ہی آپ گھوم جاتی ہے:

 

چاند ستارے

پھول،بنفشی پتے

ٹہنی ٹہنی جگنو بن کر

اُڑنے والی برف

لکڑی کے شفّاف وَرَق پر

مور کے پَر کی نوک سے لکھے

کالے کالے حرف

اُجلی دھوپ میں

ریت کے روشن ذرّے

اَور پہاڑی درّے

اَبر سوارسہانی شام

اور سبز قبا میں

ایک پری کا جسم

سُرخ لبوں کی شاخ سے جھڑتے

پھولوں جیسے اسم

رنگ برنگ طلسم

جھیل کی تہ میں

ڈوبتے چاند کا عکس

ڈھول کے وحشی تال پہ ہوتا

نیم برَہنہ رقص

 

کیسے کیسے منظر دیکھے

ایک کروڑ برس پہلے کے

غار میں بیٹھا شخص!

 

رفیق سندیلوی نے اپنی نظموں میں اُسلوبیاتی جدت سے خاصا کام لیا ہے۔ وہ چھوٹے چھوٹے مصرعوں میں تند بہاؤ کو روک کر ملائم اُبھاروں کے ساتھ رواں رہتے ہیں اور یہ روانی عمودی  ہوتی ہے، افقی نہیں۔ بالکل آبشار کی دھار کی طرح۔ ۔ ۔ جو اُوپر سے نیچے اپنا آپ سہارتی ہوئی اُترے۔ اُن کے ہاں طویل مصرعے خال ہی آتے ہیں۔ غنا کے تسلسُل کے ساتھ مختصر،بھر پور اور مٹھی بند مصرعے سندیلوی صاحب کی خاص پہچان ہیں۔ اِن کی تشکیل میں اُنھوں نے لفظوں کا انتخاب بڑی عمدگی سے کیا ہے۔ عموماً تشدید اور جزم والے الفاظ یا ایسی ترکیبیں جن میں چٹخ کی سی آواز اُبھرے یا وہ مرکبات جو دھمک آمیز ارتعاش پیدا کریں، اُن کے تخلیقی عمل میں خصوصیت کے ساتھ شامل ہوئے ہیں۔ وہ مفتوح و  مضموم آوازوں کے شیدائی ہیں، مکسور کے نہیں۔ اِس رویے کی بدولت اُن کے اسلوب میں بلند آہنگی بھی پیدا ہوئی ہے اور لہجے میں وہ مدوّر پن بھی ظاہر ہوا ہے جو جاذبیت کی لے کو تیز تر کرے۔ فارسی اور عربی الفاظ سے استفادے نے بھی اِس سلسلے میں راہ ہموار کی ہے اور یوں اُن کی نظموں میں اسلوب و آہنگ کا وہ روپ تشکیل پایا ہے جو اعلی سطح کے فلسفیانہ افکار اور پیچیدہ وجدانی تجربوں کو سمیٹتا اور تمام تر رنگوں کے ساتھ نقش کرتا ہے۔

ڈاکٹر وزیر آغا نے رفیق سندیلو ی کی نظموں کو مقام سے خلق ہوتی اور لا مقام کو مَس کرتی نظمیں کہا ہے۔ جناب شاہد شیدائی کے نزدیک مجید امجد اور وزیر آغا کے بعد اُبھرنے والی کہکشاں میں رفیق سندیلوی ایک درخشاں ستارے کے مانند ہیں کیونکہ موضوع اور مواد کے اعتبار سے اُن کی نظم نا دریافت منطقوں کا ایسا جہانِ بے نشاں ہے جس میں شاید ہی اُن کا کوئی ہم عصر نظم نگار اُترا ہو۔ ڈاکٹر ستیہ پال آنند کے خیال میں رفیق سندیلوی کی نظمیں بہت تازہ دَم ہیں اور یہ ایک بے حد گہرے اور پہنچے ہوئے شاعر کی نظمیں ہیں۔ اِن آرا کی صداقت میں کلام نہیں اور اِس حقیقت میں بھی کچھ شبہ نہیں کہ رفیق سندیلوی کا فن بہت منفرد نوعیّت کا ہے۔ اُنھوں نے نہ صرف اپنی نظموں میں ایک نیا لحن خلق کیا ہے بلکہ اِس کی ارفعیت کاسامان بھی بہم پہنچایا ہے۔ اِس تجدّد پر اُن کی جتنی بھی تحسین کی جائے کم ہے۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے