رفیق سندیلوی کی نظمیں ۔۔ اے خیام

       رفیق سندیلوی کی نظمیں

 

                   اے خیام

ساقی فاروقی نے اپنے مجموعے ’’شاہ دولہ کے چوہے اور دوسری نظمیں ‘‘ میں لکھا ہے کہ انھیں اپنے پانچ ہم عصروں ایذرا پاؤنڈ، ٹی ایس ایلیٹ، ڈبلیو ایچ آڈن، ڈلن ٹامس اور کڈ ہیوز سے جدید نظم کے اسرار و رموز سمجھنے میں بڑی مدد ملی۔ رفیق سندیلوی نے اپنے مجموعے ’’غار میں بیٹھا شخص‘‘ میں ایسا کوئی اعتراف نہیں کیا لیکن اُس کی نظمیں پڑھتے ہوئے بہت واضح طور پر محسوس ہوتا ہے کہ اُس نے بھی اِن اکابر سے یقیناً استفادہ کیا ہے اور تکنیکی طور پر نظم کے اسرار و رموز کو پوری طرح سمجھا ہے اور تبھی نظم لکھنے پر خود کو آمادہ کیا ہے۔ تجزیاتی ارادے سے نہیں بلکہ سرسری طور پر بھی ’’غار میں بیٹھا شخص‘‘ کی نظموں پر نظر ڈالیں تو محسوس ہو گا کہ رفیق سندیلوی جو زاویۂ نگاہ رکھتا ہے وہ کسی عمومی شاعر کا تو نہیں ہو سکتا، یقیناً اُس نے سوچاہے اور بہت سوچاہے۔ اُس نے ایک نئے استعارے کو جنم دینے کی کامیاب کوشش کی ہے اور یہ استعارے ذہنوں میں محض ارتعاش پیدا نہیں کرتے، محض چونکاتے نہیں بلکہ تحت الشعور میں اُتر کر اپنی جگہ بنا لیتے ہیں اور قاری کو اکساتے ہیں کہ نظموں کو ذرا سنجیدگی سے پڑھیں، بہ نظرِ غائر مطالعہ کریں، ان کی گہرائی میں اُتریں، دانش کی سطحوں کو پرکھیں، اِن کے موضوعات پر غور کریں اور اِس پر غور کریں کہ اِن موضوعات کے معنیٰ اور مفاہیم کو اُجاگر کرنے کے لیے کیا، کیسا اور کون سا اسلوب اختیار کیا گیا ہے۔

میرا سروکار چونکہ فکشن سے زیادہ ہے اور شاعری سے کم، پھر بھی رفیق سندیلوی کے مجموعے ’’غار میں بیٹھا شخص‘‘ کی نظموں کو پڑھتے ہوئے مجھے محسوس ہوا کہ یہ نظمیں روا روی سے پڑھنے کی چیز نہیں ہیں۔ اِن نظموں نے نہ صرف یہ کہ مجھے چونکا دیا بلکہ سنبھل سنبھل کر، ایک ایک لفظ اور ایک ایک لائن کو اور اکثر نظموں کو بار بار پڑھنے پر مجبور کر دیا۔ بہت اچھے شارٹ فکشن یا بہت اچھے افسانے کی طرح اِن نظموں میں بھی ایک لفظ کی کمی یا بیشی نظر نہیں آئی۔ دانستہ طور پر نظموں کو خوب صورتی عطا کرنے کے لیے الفاظ کی بھرمار نظر نہیں آئی۔ ہر لفظ موضوع کے معنی اور مفہوم کی طرف اشارہ کرتا نظر آیا اور افسانے کی طرح ہی اکثر نظموں نے ایک آغاز، ٹریٹمنٹ اور پھر انجام سے دوچار کیا۔ اور یہ کہ جس طرح افسانے میں موضوع کے اعتبار سے افسانہ خود اپنا اسلوب متعین کرتا ہے، اِسی طرح رفیق سندیلوی کی نظموں کے موضوعات بھی اپنا اسلوب خود متعین کرتے ہیں، اور یہ عمل فطری اور منطقی ہوتا ہے۔  نظموں کی یہ صورت میرے لیے بہت مختلف اور بہت نئی ہے اور اِس بنا پر میں رفیق سندیلوی کو کسی بھی دوسرے شاعر یا شاعروں کے ساتھ بریکٹ نہیں کر سکتا۔

رفیق سندیلوی کی زیادہ تر نظمیں ایک عجیب سی کیفیت میں مبتلا کر دیتی ہیں۔ ہر نظم ایک پُر اسرار ا ورطلسماتی سی کیفیت رکھتی ہے، اور اپنے اندر ایسا بہاؤ رکھتی ہے کہ قاری ذرا سا بھی ٹھٹکے بغیر حیرت زدہ سا آگے ہی بڑھتا چلا جاتا ہے اور ہمہ وقت ایک خوشگوار تاثر سے دوچار رہتا ہے۔

رفیق سندیلوی نے اپنا مطمحِ نظر واضح کرنے کے لیے اساطیر اور اسطوری کرداروں سے بھی مدد لی ہے۔ لوک کہانیاں، لوک گاتھائیں اور جاتکیں بھی اُس کے اُسلوب میں سما گئی ہیں۔ اُس نے اسطوری کرداروں سے کوئی تمثیل ترتیب نہیں دیا بلکہ ایک ایسی طلسماتی فضا پیدا کی ہے جس میں دیر تک رہنے کو جی چاہتا ہے اور اِسی لیے اُس کی نظمیں خود کو بار بار پڑھواتی ہیں۔ زندگی اور زندہ رہنے کی خواہش، اُمید، مجبوریاں، ولولہ، جستجو، استحصال، ماضی، حال، جدو جہد، معاشرہ، فرد سبھی کچھ اُس کی نظموں کے موضوع بنے ہیں، ہر لائن کا لفظ ایک مخصوص مفہوم دے رہا ہوتا ہے اور قاری تک وہی مفہوم پہنچتا ہے جو شاعر نے اُس لفظ کو دیا ہے۔ رفیق سندیلوی شعری ضرورت کی خاطر لفظوں کو توڑنے مروڑنے پر اصرار کرتا ہے اور نہ اِس کی کوشش کرتا ہے، کہیں کہیں اگر ایسا ہوا ہے تو ایک فطری بہاؤ میں اِس طرح ضم ہو گیا ہے کہ وہی معنی و مفہوم اور وہی ترکیب اصل معلوم ہوتی ہے اور اِس میں غیر فطری پن کا کوئی شائبہ محسوس نہیں ہوتا۔

رفیق سندیلوی اپنی نظموں میں کسی نظریے، کسی خاص رجحان سے متاثر نظر نہیں آتا۔ گو کہ اُن موضوعات کو بھی اُس نے نظم میں شامل کیا ہے جو ترقی پسندوں کو مرغوب رہے ہیں، لیکن اُس کا طریقۂ واردات مختلف ہے۔ وہ بھرپور شاعری کرتا ہے، محض لفظوں کی چیخ پکار اور لہجے کے اُتار چڑھاؤ سے کوئی فضا بنانے کی کوشش نہیں کرتا، وہ تو ایک کیفیت کو خلق کرتا ہے۔ اِسی طرح وہ فلسفۂ وجودیت کے امکانات سے بھی بہت اچھی طرح واقف ہے لیکن اُس نے اِس فلسفے کے مثبت اطوار کو گرفت میں لیا ہے اور منفی گراں باری کو قریب نہیں آنے دیا۔ نظریات اور فلسفیانہ سوچ کے پہلو اُس کی شاعری کو مجروح نہیں کرتے۔ یہ سب کچھ اُس کی شاعری میں اِس طرح گھل مل گیا ہے کہ وہ اِسی کا حصّہ یا جُز معلوم ہوتا ہے جسے نہ الگ کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی الگ رکھ کر نظم کے مفہوم تک رسائی حاصل کی جا سکتی ہے۔

میں اکثر کہتا ہوں کہ ایک اچھے فن کار کے لیے ضروری ہے کہ وہ فلسفی بھی ہو یا یہ کہ وہ ایک فلسفیانہ نظریہ رکھتا ہو۔ اس سے میری مراد قطعی یہ نہیں ہوتی کہ وہ ہیگل، فرائیڈ اور گبریل مارسل ہو، یا کیرکے گارڈ، نطشے، ہائیڈیگر اور سارتر ہو بلکہ میری مراد یہ ہوتی ہے کہ وہ کسی شے کو دیکھنے اور سمجھنے کے اِس راز سے واقف ہو جو کسی اور پر منکشف نہیں ہو سکتا، وہ ایسا زاویۂ نظر رکھتا ہو جس تک کسی اور کی پہنچ نہیں ہو سکتی، اُس کا اندازِ بیان مدلل ہو اور وہ کسی نتیجے پر پہنچنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ رفیق سندیلوی ایسا ہی شاعر ہے جو راز منکشف کرتا رہتا ہے، جو چیزوں کو اِس زاویے سے دیکھتا ہے اور دکھاتا ہے جس تک کسی اور کی رسائی نہیں ہو سکتی۔

سارتر نے کسی موقعے پر کچھ ایساکہا تھا کہ موضوعات مشرق کے پاس ہیں اور اُسلوب مغرب کے پاس، اور جب یہ دونوں چیزیں ایک دوسرے سے گلے ملیں گی یا قریب تر ہوں گی تو بڑی شاعری وجود میں آئے گی۔ رفیق سندیلوی کے ساتھ ایسا ہی کچھ ہوا ہے۔ مشرقی موضوعات مغربی اسالیب کے لبادے میں شعری روپ دھار چکے ہیں اور بڑی شاعری وجود میں آ چکی ہے۔

میں نے اِس تاثر میں دانستہ کسی نظم یا کسی نظم کے اقتباس کا حوالہ دینے سے گریز کیا ہے۔ یہ ایک مجموعی تاثر ہے جو میں نے کتاب کے ایک مطالعے کے بعد تحریر کیا ہے۔ فرداً فرداً تمام نظمیں اپنے اندر اتنی توانائی رکھتی ہیں کہ وہ بہت کچھ لکھوا سکتی ہیں لیکن یہ ذمہ داری شاعری کے نقادوں کی ہے۔

٭٭٭

 

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے