اگلا پاؤں نئے پانی میں
مظہر امام
آج سے دس سال پہلے جب عالم خورشید کا مجموعۂ کلام ’نئے موسم کی تلاش ‘ شائع ہوا تھا تو خواہ انہیں اردو شاعری کے افق پر ایک نئے ستارے کے طلوع ہونے کی بشارت سے تعبیر نہ کیا گیا ہو لیکن اس میں شبہ نہیں کہ شاعر کے امکانات کے بارے میں بہت سی توقعات قائم ہوئی تھیں ۔ یہ اندازہ تو ہوا ہی تھا کہ شاعر اردو شاعری کی موجودہ فضا سے مطمئن نہیں ہے اور وہ غزل کے نئے موسم کی تلاش میں ہے۔ عالم خورشید کا دوسرا مجموعہ ’زہرِ گل‘ اس تلاش کے نئے پانی میں اگلا پاؤں ہے۔ ( اگلا پانو نئے پانی میں ۔ بانیؔ)
آج کی سپاٹ، بے رنگ، اکہری اور یبوست کی ماری بیشتر غزلوں کی بھرمار میں اگر کوئی مجموعہ اچھی غزل کے لوازمات کا احترام کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے تو ہم اس کیفیت سے دو چار ہوتے ہیں جسے انشراحِ قلب کہا جاتا ہے۔ ’زہرِ گل‘ ایسا ہی مجموعہ ہے۔
عالم خورشید کی غزلیں شگفتگی، خوش آہنگی اور فن کارانہ سادہ پرکاری کا نمونہ ہیں ۔ زبان و بیان کی ایسی برجستگی اور بے ساختگی اور بندش کی ایسی چستی کہ ایک ہموار بہاؤ کا احساس ہو۔ یہ شاعری نہ تجربات کی دلدادہ ہے نہ حرف و صوت کی شکست و ریخت کو اپنا دبدبہ قائم رکھنے کے لئے ضروری سمجھتی ہے۔ یہ شاعری عروج زدہ اور عجز بیان کی پروردہ غزلوں کی طرح طبیعت کو منغص نہیں کرتی۔
عالم خورشید کے یہاں تنہائی، شکستِ خواب، قدروں کی پامالی وغیرہ کا کوئی واشگاف اظہار نہیں ملے۷ گا کہ اب احساس کے یہ زاوئے پامال ہو چکے ہیں ۔ وہ جانتے ہیں کہ ہر لمحہ تغیر پذیر صورتحال میں ہجر کا موسم بھی دیر تک نہیں رہتا اور جب ہوا ہر موڑ پر راستہ بدل رہی ہو تو اس کے ساتھ چراغ بکف چلنا بھی بے معنی ہو جاتا ہے :
ہوا کے ساتھ بھلا کتنی دور میں جاتا
ہر ایک موڑ پہ وہ راستہ بدلتی رہی
عالم خورشید اردو کی جدید ترین نسل سے تعلق رکھتے ہیں جسے ہم اپنی آسانی کے لئے ۸۰ کے بعد کی نسل یا مابعد جدید نسل بھی کہتے ہیں ۔ لیکن یہ کوئی اضافی وصف نہیں ہے۔ ان کی غزل اردو غزل کی اسی روایت کا تسلسل ہے جو کلاسیکیت، ترقی پسندی اور جدیدیت سب پر محیط ہے:
مری تشنہ لبی کا کب یقیں آئے گا دریا کو
میں صحرا کو بھی لے آؤں اگر اپنی گواہی میں
طلب کرتا ہوں ہر اک پھول سے خوشبو تمہاری
جو سچ پوچھو تو مجھ میں خرابی کم نہیں ہے
انہیں غیر متغزلانہ الفاظ کے استعمال سے وحشت نہیں ہوتی۔ مثلاً یہ شعر دیکھئے :
گملوں میں سبز کیکٹس، میزوں پہ سنگ سج گئے
حیرت میں ہوں کہ کیا سے کیا شہرِ جمال ہو گیا
وہ سامنے کے مشاہدات اور تجربات پر مبنی شعر نہیں کہتے اور معاشرے کی زبوں حالی، بے انصافی اور ظلم و تشدد کے سلسلے میں سکہ بند شکایتی یا احتجاجی لہجہ بھی اختیار نہیں کرتے (ایسی شاعری آج کل مشاعروں میں بہت مقبول ہے)۔ وہ جانتے ہیں کہ شاعری کا کام انسان کو اندر سے بدلنا ہے، اس کے بطون میں ہو احساس اور عرفان پیدا کرنا ہے جو اس کی تزکیۂ نفس کا موجب بن سکے۔ کیونکہ فرد کے اندر کی تبدیلی ہی معاشرے کی تبدیلی کی ضامن بن سکتی ہے۔ فرد سے سماج ہے، سماج سے فرد نہیں ۔ عالم خورشید کے اس طرح کے اشعار میرے بیان کی تصدیق کریں گے :
شام سے پہلے جلا بیٹھے تھے ہم سارے چراغ
صبح سے پہلے مکاں کو بے ضیا ہونا ہی تھا
وہ پشیماں ہے عبث ہم کو جلا کر آگ میں
خاک ایسی تھی کہ اس کو کیمیا ہونا ہی تھا
چراغو! کچھ تو بتلاؤ! تمہیں کس نے بجھا ڈالا
تمہیں نے گھر جلائے تھے ہوا کی واہ واہی میں
کسی ساحل پہ جاؤں ایک ہی آواز آتی ہے
تجھے رکنا جہاں ہے وہ کنارہ اور ہے کوئی
یہ اس کی زر خیزی ہے جو کھل جاتے ہیں پھول نئے
ورنہ اپنی مٹی کو شاداب کہاں رکھتے ہیں ہم
اچھی شاعری اور کسے کہتے ہیں !