عالم خورشید کی شاعری ۔ ’’زہرِ گل ‘‘کے حوالے سے ۔۔۔ سلیم انصاری

عالم خورشید کی شاعری ۔  ’’زہرِ گل ‘‘کے حوالے سے

 

                   سلیم انصاری

 

ساختیات، پس ساختیات، رد تشکیل اور مابعد جدیدیت جیسی بھاری بھرم تنقیدی اصطلاحات ادب کے تخلیقی عمل پر کی اثرات مرتب کرتی ہیں ، یہ کہنا مشکل ہے۔ لیکن یہ بات پورے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ تخلیق ہر حال میں تنقید سے اہم ہے۔ تنقید ایک شعوری عمل ہے جو تخلیق کے بغیر بے معنی ہے۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ تنقیدی عمل کسی بھی تخلیقی اکائی کو مختلف معنوی جہتوں میں منعکس کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔ لہٰذا تخلیق اور تنقید دونوں لازم و ملزوم کہی جا سکتی ہیں ۔

۱۹۸۰؁ء کے بعد نمایاں طور پر ابھر کر سامنے آنے والی ادب نسل نے اپنی تخلیق کو ہی اپنی شناخت کا وسیلہ بنایا ہے۔ جس کا ایک سبب تو یہ ہے کہ اس نسل کے سامنے  ۱۹۶۰؁ء کے بعد کی شاعری میں فکر اظہار اور ہیت و اسلوب کی سطح پر کئے جانے والے تمام کامیاب و ناکامیاب تجربات کا سفرنامہ ہے۔ اس کے علاوہ یہ نسل یہ بھی جانتی ہے کہ تنقید کی بیساکھیوں پر کھڑے کئے گئے کئی تخلیق کار گمنامیوں کی دلدل میں کھو گئے ہیں ۔

عالم خورشید جدید تر نسل کے بے حد ذہین، سنجیدہ اور جنوئین تخلیق کاروں میں ایک ہیں ۔ ان کی شاعری کا مطالعہ اس یقین کو تقویت دیتا ہے کہ انہوں نے صرف اورصرف اپنی تخلیقی صلاحیتوں کے حوالے سے ہی اپنی شناخت کا طویل سفر طے کیا ہے۔ ان کے اولین شعری مجموعے ’’نئے موسم کی تلاش‘‘ اور ’’زہرِ گل‘‘ کے درمیان تقریبا ایک دہائی کا وقفہ یہ ثابت کرتا ہے کہ انہوں نے اپنے مسلسل تخلیقی عمل میں پوری ایک ادبی نسل کے تخلیقی تجربات و مشاہدات کو منعکس کر کے انہیں اظہار کی نئی دشاؤں سے آشنا کیا ہے۔

عالم خورشید کی شاعری پر لکھنے سے زیادہ اہم بات ہے ان کی شاعری میں تخلیقیت کی زیریں لہروں کو محسوس کرنا اور ان کے فکری نظام کو پرت در پرت منور کرنا۔ عالم خورشید کے یہاں کسی نظریاتی وابستگی کا احساس نہیں ہوتا اور غالبا یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری کا کینوس وسیع ہے اور ان کے تجربات و مشاہدات کی سرحدیں بے نہایت۔

اپنے اولین شعری مجموعے ’نئے موسم کی تلاش‘ میں عالم خورشید نے لکھا ہے کہ ’’ اچھا اور سچا ادب آزاد فضا میں خلق ہوتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میرا مقصد کسی رجحان یا تحریک کو رد کرنا نہیں تھا اور نہ ان کے تحت لکھے گئے ادب کو مردود قراردینا تھا بلکہ جو نئے حالات اور مسائل میرے سامنے تھے انہیں تخلیقی سطح پر ادب میں پیش کرنا تھا۔ یہ فکری تبدیلی کسی تھیوری کو پڑھکر میرے ذہن میں نہیں آئی تھی بلکہ فطری طور پر وقت اور حالات کی تبدیلی، معاشرے کے انتشار اور بکھراؤ کی دین تھی‘۔

مندرجہ بالا اقتباس سے عالم خورشید کے ذہنی اور فکری رویوں کی نشاندہی کی جا سکتی ہے۔ میرے نزدیک جدید تر نسل کے مسائل، تمام پیش رو نسلوں کے مسائل سے مختلف ہیں ۔ ہمارا سامنا کمپیوٹر عہد اور الکٹرانک میڈیا کی اس تیز رفتار ترقی سے ہے جس میں انسان کی حیثیت مشین سے کم ہو جاتی ہے۔ مشینیں جو انسان کو تیزی سے Replace بلکہ Displaceکر رہی ہیں ۔ مشینیں جو ہمارے داخلی احساسات و جذبات کو معطل کرنے کا سامان ہیں ۔ مشینیں جو ہمیں ذہن کے بجائے پیٹ سے سوچنا سکھاتی ہیں ۔ ان تمام مسائل کے درمیان جدید تر نسل کے تخلیقی عمل کے جواز کی تلاش،  بجائے خود کسی مسئلہ سے کم نہیں ۔ لیکن خود آئند امر یہ ہے کہ جدید تر نسل کے تخلیق کاروں کی ایک قابلِ لحاظ تعداد ایسی ہے جس نے شاعری کو انسان اور مشین کے درمیان پھیلے ہوئے بے شمار مسائل و مصائب کے اظہار کا وسیلہ بنا دیا ہے۔

عالم خورشید کی شاعری اپنے عہد کے مسائل و مصائب کا موثر اظہار ہے۔ زہرِ گل کی غزلیں معاشرے میں روزمرہ کے مسائل سے لے کر بکھرتے، ٹوٹتے رشتوں اور زوال پذیر تہذیبی قدروں تک نئے منظرناموں کی تشکیل کرتی ہیں ۔ اس کے علاوہ محرومیوں ، مایوسیوں ، خوف، تشکیک اور عدم تحفظ کے درمیان زندگی کرنے حوصلہ دیتی ہیں :

 

گملوں میں سبز کیکٹس، میزوں پہ سنگ سج گئے

حیرت میں ہوں کہ کیا سے کیا شہرِ جمال ہو گیا

 

نظم و غزل سے کیا ہو، دل میں رہی وہی خلش

لکھنا تو جو لکھا نہیں ، کہنا تا جو کہا نہیں

 

کچھ لوگ جا رہے ہیں وفا کی تلاش میں

میں جانتا ہوں لوٹ کر ناکام آئیں گے

 

اٹھا رہا ہو ں سپر اب میں تیغ کے بدلے

مرے خدا! یہ مری ساعتِ زوال ہے کیا

 

ان اشعار میں جہاں ایک طرف تہذیبوں کے فرق کا المیہ ہے وہیں موجودہ عہد کی تیز رفتار زندگی میں ادب کی بے بضاعتی اور زوال پذیر تہذیبی اخلاقی قدروں کا نوحہ بھی ہے۔

عالم خورشید کے یہاں جو خصوصیت سب سے زیادہ متاثر کرتی ہے وہ زبان و بیان پر ان کی قدرت ہے۔ ان کی شاعری کا ڈکشن، ان کی فکر سے پوری طرح ہم آہنگ ہے اور ان کے اظہار کی نئی سمتیں متعین کرتا ہے۔ ان کے یہاں ترسیل کے المیے کا مسئلہ نہیں ہے۔ تاہم استعارات و علامات کا ایک منفرد نظام قائم ہے جو معنی و مفاہیم کے نئے جہانوں کی سیر کراتاہے۔ پیڑ، پتھر، خواب، چراغ، دریا، سمندر، دشت، ریت، سفر، تتلی، جگنو، خوشبو جیسے استعارات نے ان کی شاعری کے باطنی نظام کی تشکیل و تعمیر میں اہم رول ادا کیا ہے۔

چراغ اور خواب دو ایسے لفظ ہیں جو ان کے یہاں بار بار استعمال ہوتے ہیں ۔ اور ہر بار معنویت کی ایک نئی Rangeفراہم کرتے ہیں ۔ عالم خورشید کے یہاں استعارات کو برتنے کی سلیقہ مندی نے ان کی تخلیقی سوچوں کی تجسیم کے عمل کو شدید کر دیا ہے۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں :

 

ہوا سے آنکھ ملا نا مری سرشت میں ہے

میں راستے کا دیا ہوں کوئی جلائے تو

 

ان چراغوں سے اجالوں کی توقع ہے عبث

جن چراغوں کی ہوائیں ہی خبرداری کریں

 

سجا رہا ہے مرے گھر کو وہ چراغوں سے

کہ سازشیں ہیں مجھے بے پناہ کرنے کی

 

اسی کی شہ پہ بجھے ہیں سبھی چراغ مگر

وہ پوچھتا ہے ہواؤں میں اشتعال ہے کیا

 

سیاہ بخت وہی لوگ کہہ رہے ہیں مجھے

مرے چراغ سے جو اپنا گھر اجالتے ہیں

 

شام سے پہلے جلا بیٹھے تھے ہم سارے چراغ

صبح سے پہلے مکاں کو بے ضیاء ہونا ہی تھا

 

مجھے اس خواب کی تعبیر کوئی شخص بتلائے

اب اپنی بند مٹھی میں ستارہ دیکھتا ہوں میں

 

بند پلکیں کروں آنکھوں میں مقید کر لوں

ایک مدت پہ نئے خواب نظر آئے ہیں

 

یاد کچھ آتا نہیں کب تجھے دیکھا لیکن

تو کسی خواب کی تعبیر ہمیں لگتا ہے

 

ہو گئے سب لوگ عالم کالی راتوں کے اسیر

اب یہاں میرے سوا خوابِ سحر دیکھے گا کون

 

 

بجا ہے جھوٹی بانگوں سے ہی اپنے خواب ٹوٹے

مگر مجرم ہماری نیم خوابی کم نہیں ہے

 

ان اشعار میں عالم خورشید کے کی تخلیقی صلاحیتوں کے جوہر کھلتے ہیں ۔ چراغ اور خواب جیسے الفاظ کو استعارہ بنا کر متنوع اور منفرد تخلیقی اکائیوں کی تشکیل کر کے، کثیر ال جہت معنویت عطا کرنا ایک مشکل کام ہے لیکن عالم خورشید

نے موجودہ عہد کے فکری تقاضوں اور ضرورتوں سے ہم آہنگ شعری منظرنامے مرتب کئے ہیں جو انہیں اپنے ہم عصروں میں ممتاز کرتے ہیں ۔ ان کے یہاں استعارے کو منفی اور مثبت ہر دو طرح کی معنویت سے استعمال کرنے کی سلیقہ مندی نے انہیں جدید تر نسل کے تخلیق کاروں میں اہم مقام عطا کیا ہے۔

عالم خورشید کی شاعری کا کینوس وسیع ہے۔ ان کی شاعری پر مکمل اور مفصل گفتگو اس مختصر سے مضمون میں کسی طور پر ممکن نہیں ہے۔ ان کی شاعری میں علامتی نظام، زبان کے رکھ رکھاؤ اور الفاظ کی ترتیب و تہذیب کے حوالے سے طویل گفتگو کی گنجائش ہے۔ جسے کسی دوسرے موقع پر چھوڑتا ہوں ۔ تاہم یہ بات عرض کرنا نہایت ضروری ہے کہ عالم خورشید نے برسوں کی طویل تخلیقی ریاضت کے بعد اپنے لہجے کی شناخت بنا لی ہے۔ جو واقعی ایک Achievement ہے۔

’زہرِ گل‘ جیسے اہم شعری مجموعے کے بعد عالم خورشید سے یہ امید کی جا سکتی ہے وہ اپنی تخلیقی ذمہ داریوں اور جدید تر نسل کی نمائندگی کے جذبوں کو مستقبل قریب میں نئی سمت ورفتار دینے میں کامیاب ہوں گے۔

٭٭٭

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے