غزلیں
عالم خورشید
قربتوں کے بیچ جیسے فاصلہ رہنے لگے
یوں کسی کے ساتھ رہ کر ہم جدا رہنے لگے
کس توقع پر کسی سے آشنائی کیجیئے
آشنا چہرے بھی تو نا آشنا رہنے لگے
دستکیں تھکنے لگیں ، کوئی بھی در کھلتا نہیں
کیا پتہ اب کس جگہ اہلِ وفا رہنے لگے
ایک مدت سے مقفل ہے مرے دل کا مکاں
عین ممکن ہے یہاں کوئی بلا رہنے لگے
رنگ و روغن بام و در کے اڑ ہی جاتے ہیں میاں !
جب کسی کے گھر میں کوئی دوسرا رہنے لگے
ہجر کی لذت ذرا اس کے مکیں سے پوچھئے!
ہر گھڑی جس گھر کا دروازہ کھلا رہنے لگے
عشق میں تہذیب کے ہیں اور ہی کچھ سلسلے
تجھ سے ہو کر ہم خفا ، خود سے خفا رہنے لگے
آسماں سے چاند اترے گا بھلا کیوں خاک پر
تم بھی عالم! واہموں میں مبتلا رہنے لگے
٭٭٭
کسی خیال کو زنجیر کر رہا ہوں میں
شکستہ خواب کی تعبیر کر رہا ہوں میں
حقیقتوں پہ زمانے کو اعتبار نہیں
سواب فسانے میں تحریر کر رہا ہوں میں
مرے وہ خواب جو رنگوں میں ڈھل نہیں پائے
انہیں کو شعر میں تصویر کر رہا ہوں میں
دکھوں کو اپنے چھپاتا ہوں میں دفینوں سا
مگر خوشی کو ہمہ گیر کر رہا ہوں میں
مرے مکان کا نقشہ تو ہے نیا لیکن
پرانی اینٹ سی تعمیر کر رہا ہوں میں
مجھے بھی شوق ہے دنیا کو زیر کرنے کا
سو اپنے آپ کو تسخیر کر رہا ہوں میں
زمین ہے کہ بدلتی نہیں کبھی محور
عجب عجب سی تدابیر کر رہا ہوں میں
عجیب شخص ہوں منزل بلا رہی ہے مگر
بلا جواز ہی تاخیر کر رہا ہوں میں
جو میں ہوں اس کو چھپاتا ہوں سارے عالم سے
جو میں نہیں ہوں وہ تشہیر کر رہا ہوں میں
٭٭٭
جما ہوا ہے فلک پہ کتنا غبار میرا
کہ مجھ پہ ہوتا نہیں ہے راز آشکار میرا
دھواں سا اٹھتا ہے کس جگہ سے میں جانتا ہوں
جلاتا رہتا ہے مجھ کو ہر پل شرار میرا
تمام دنیا سمٹ نہ جائے مری حدوں میں
کہ حد سے بڑھنے لگا ہے اب انتشار میرا
بدل رہے ہیں سبھی ستارے مدار اپنا
مرے جنوں پہ ٹکا ہے سارا دار و مدار میرا
کسی کے رستے پہ کیسے نظریں جمائے رکھوں
ابھی تو کرنا مجھے ہے خود انتظار میرا
تری اطاعت قبول کر لوں بھلا میں کیسے
کہ مجھ پہ چلتا نہیں ہے خود اختیار میرا
پلک جھپکتے کسی سمندر میں جا گروں گا
ابھی ستاروں میں ہو رہا ہے شمار میرا
٭٭٭
یہ بات وقت سے پہلے کہاں سمجھتے ہیں
ہم اک سرائے کو اپنا مکاں سمجھتے ہیں
یقیں کسی کو نہیں اپنی بے ثباتی کا
سب اپنے آپ کو شاہِ زماں سمجھتے ہیں
بس اک اڑان بھری ہے ابھی خلاؤں میں
اسی کو اہلِ زمیں آسماں سمجھتے ہیں
یہ کارزارِ عمل ہے جو لوگ واقف ہیں
وہ زندگی کو فقط امتحاں سمجھتے ہیں
ہمیں بھی کھینچتی ہے اس کی ہر کشش لیکن
یہ خاکداں ہے، اسے خاکداں سمجھتے ہیں
یہ لوگ اتنے فسردہ اسی لئے تو نہیں
کہ دوسروں کو بہت شادماں سمجھتے ہیں
خدا! انہیں بھی ہو توفیق اس عبادت کی
محبتوں کو جو کارِ زیاں سمجھتے ہیں
٭٭٭
کیوں خیال آتا نہیں ہے ہمیں یکجائی کا
جب ہر اک شخص گرفتار ہے تنہائی کا
وہ بھی اب ہونے لگے ایذا رسانی کے مریض
جن کو دعویٰ تھا زمانے کی مسیحائی کا
شک نہیں کرتا میں رشتوں کی صداقت پھر کبھی
بس یہی ایک سبب ہے مری رسوائی کا
زخم بھرتے ہی نہیں میرے کسی مرہم سے
جب بھی لگتا ہے کوئی تیر شناسائی کا
بزدلی سمجھی گئی میری شرافت ورنہ
کب مجھے شوق رہا معرکہ آرائی کا
اپنی رسوائی کو اعزاز سمجھ لیتے ہیں
خوب یہ شوق ہے احباب کی دانائی کا
چھیڑ چلتی ہے مری صنفِ غزل سے عالم!
میں فسانہ نہیں لکھتا کسی ہرجائی کا
٭٭٭
میں پرستار ہوں اب گوشۂ تنہائی کا
خوب انجام ہوا انجمن آرائی کا
بس وہی ملنے ، بچھڑنے کی کہانی کے سوا
کیا کوئی اور بھی حاصل ہے شناسائی کا
خود ہی کھنچتے ہوئے آتے ہیں ستارے ورنہ
چاند کو شوق نہیں حاشیہ آرائی کا
اب کسی اور نظارے کی تمنا ہی نہیں
اب میں احسان اٹھاتا نہیں بینائی کا
کتنے بے خوف تھے دریا کی روانی میں ہم
کوئی اندازہ نہ تھا جب ہمیں گہرائی کا
ہم نے سمجھا نہیں دنیا کو تماشا ورنہ
یوں بھی ہوتا ہے کہیں حال تماشائی کا
پھر غزل روز بلانے لگی عالم صاحب!
اور کچھ شوق ہے شاید اسے رسوائی کا
٭٭٭
مانگی ہی ہوئی ہے نہ چرائی ہوئی دنیا
چھوٹی ہی سہی اپنی بنائی ہوئی دنیا
محفوظ ہے اس خاک نشینی میں ابھی تک
آلودہ زمانے سے بچائی ہوئی دنیا
ظاہر کے یہ جلوے نہ دکھاؤ مجھے صاحب!
آتی ہے نظر مجھ کو چھپائی ہوئی دنیا
شرم آتی نہیں تم کو اسے اپنا بتاتے
غیروں کے پسینے سے کمائی ہوئی دنیا
ہر روز گزرتا ہوں میں دامن کو جھٹکتے
کب سے ہے مری راہ میں آئی ہوئی دنیا
کم ظرف چلی آتی ہے آوازیں لگاتی
سو بار مرے در سے بھگائی ہوئی دنیا
خاک اپنے اشاروں پہ نچائے گی مجھے وہ
لٹو کی طرح خود ہی نچائی ہوئی دنیا
دنیا کو برا ہم نے بنا ڈالا ہے عالم!
اچھی تھی بہت اس کی بنائی ہوئی دنیا
٭٭٭
تختِ شاہی! تری اوقات بتاتے ہوئے لوگ
دیکھ! پھر جمع ہوئے خاک اڑاتے ہوئے لوگ
توڑ ڈالیں گے سیاست کی خدائی کا بھرم
وجد میں آتے ہوئے، ناچتے، گاتے ہوئے لوگ
کچھ نہ کچھ صورتِ حالات بدل ڈالیں گے
ایک آواز میں آواز ملاتے ہوئے لوگ
کوئی تصویر کسی روز بنا ہی لیں گے
روز پانی پہ نئے عکس بناتے ہوئے لوگ
ہاں ! سبھی اہلِ محبت کو بھلے لگتے ہیں
نفرت و بغض کی دیوار گراتے ہوئے لوگ
کتنی حیرت سے تکا کرتے ہیں چہرے اپنے
آئینہ خانے میں آتے ہوئے ، جاتے ہوئے لوگ
کاش! تعبیر کے رستے سے نہ بھٹکیں عالم!
ڈوبتی آنکھوں میں کچھ خواب جگاتے ہوئے لوگ
٭٭٭