نظمیں
شہناز نبی
کل کی فکر
_________________________________________________________
اب اتنا خون کہاں سے آئے گا
جو ایک سفید پرچم کو سرخ کر دے
بے داغ دل والوں نے
سپنوں کا اک چراغ جلایا تھا
اس میں دھواں کم تھا
روشنی زیادہ
اس لئے کسی بھی پیشانی پر
کوئی کالک نہیں
کرگھا چلانے والوں نے
امیدوں کے دھاگے تیار کئے تھے
انقلاب کی چادر بنی تھی
جس نے دھوپ کو سایہ کیا
سائے کو مسافت
مسافت کو منزل
اک قدم آگے
دو قدم پیچھے
تھکے ہارے جسموں کو نئی توانائی
بجھی ہوئی آنکھوں میں نئی چمک
ٹوٹے ہوئے دلوں کو نئی تاب
اتنے آنسو کہاں سے آئیں گے
جو نا کردہ گناہوں کے کفارے کے لئے بہت ہوں
جو ندامت کے داغ دھونے میں کامیاب ہوں
اتنی انگلیاں کہاں سے آئیں گی
جو تاریخ کا ہر صفحہ پلٹ سکیں
ریاکاروں کی شناخت کر سکیں
تہمتوں کا دفاع کر سکیں
کٹے پھٹے لوگوں کے پاس
آنکھیں ہیں تو کان نہیں
کان ہیں تو آنکھیں نہیں
ہاتھ ہیں تو پاؤں نہیں
پاؤں ہیں تو ہاتھ نہیں
فیصلہ یہ کرنا ہے کہ
کون کس کے کان بنے گا
کون کس کی آنکھیں
کون ہاتھ ہونے کا فرض نبھائے گا
کون پاؤں ہونے کا
ایک پورا انسان بنانے میں تھوڑا وقت لگ سکتا ہے
لیکن بہت سا لہو بھی تو چاہئے
کہ ایک سفید پرچم کو
سرخ کیا جا سکے
٭٭٭
بس ایک چنگاری
________________________________
تم نے جن شعلوں کو میرے سینے میں دفن کیا تھا
وہ پھر کسمسا رہے ہیں
میں نے تمہارے دئے ہوئے آنسوؤں سے
انہیں کم رکھنا چاہا
لیکن وہ تند ہوتے جاتے ہیں
ایک شعلہ
چقماق سے نکلنے والی چنگاری کا مرہونِ منت ہے
ایک شعلہ
بچپن کی معصوم ضد کے مجروح ہونے پر بھڑکا تھا
جب تم نے میرے ہونٹوں پر چپ کی مہر لگائی تھی تو
ایک شعلہ جنما تھا
جب میری ناک میں نکیل ڈالی گئی تو ایک
جب کھونٹے سے باندھی گئی تو ایک
ایک ایک کر کے اتنے بہت سارے شعلے
اپنی لپلپاتی ہوئی زبان سے
خاک کر دینا چاہتے ہیں منو سمرتی کے پنوں کو
جلا دینا چاہتے ہیں بہشتی زیور کے اوراق
پگھلا دینا چاہتے ہیں پاؤں میں پڑی زنجیروں کو
برفیلی چٹانیں
میری جانب بڑھتی آ رہی ہیں
ہر کسی کو ادھار میں
بس ایک چنگاری چاہئے
٭٭٭