غزلیں
پروفیسر سید عاصم علی
جاتا ہے تیز گام وہ بر جادۂ نشاط
پر کس کے ہاتھ آئے ہے سرمایۂ نشاط
دنیا میں وہ سرور کا ماتم کہاں کہ اب
اپنی فتح پہ یاس ہے آمادۂ نشاط
خاشاک دل میں حدت غم سے نمی نہ تھی
پل بھر میں خاک کر گیا انگارۂ نشاط
شام غمِ شکست نے تسکین دہر کو
رخسار صبحِ نو سے لیا غازۂ نشاط
اس مرحلے سے بھی وہ تڑپ کر گذر گیا
بسمل تھا کر سکا نہ کچھ اندازۂ نشاط
مدت کے بعد آیا تو آنکھیں چھلک اٹھیں
پس آنسوؤں سے دھل گیا پروانۂ نشاط
جذبات غم کا آشیاں کب کا جھلس چکا
لپکے ہی جائے ہے مگر یہ شعلۂ نشاط
بے بادباں ہے، رحم و کرم پر ہواؤں کے
بحر فسردگی میں ہے آوارۂ نشاط
کوہِ انا کی برف بھی اب تو پگھل چلی
غم سے بھی گرم تر ہے کیا یہ شعلۂ نشاط
ہم کیا اٹھے کہ رنج جہاں سے گذر گیا
برپا ہے ایک عالم ہنگامۂ نشاط
زہد انا کو توڑ دے عاصمؔ کہ آج تو
ترسے ہے تیرے لب کو بہت بادۂ نشاط
٭٭٭
دن کو سوچی ہوئی ہر بات سے ڈر لگتا ہے
رات آتی ہے تو پھر رات سے ڈر لگتا ہے
ہے یہ اندیشہ نکالے نہ وہ مطلب کوئی اور
منہ پہ لائی ہوئی ہر بات سے ڈر لگتا ہے
رہزنِ وقت کے ترکش کا نیا تیر نہ ہو
اے زمانے تری سوغات سے ڈر لگتا ہے
خواب دیکھوں کہ میں خوابوں کا بکھرنا دیکھوں
کبھی دن سے تو کبھی رات سے ڈر لگتا ہے
یوں وہ تجدیدِ وفا روز کرے ہے لیکن
اس کی بگڑی ہوئی عادات سے ر لگتا ہے
وہ جو آنکھوں سے ٹپک پائے نہ آنسو بن کر
اُن سلگتے ہوئے جذبات سے ڈر لگتا ہے
میرے دل سے نہ اتر جائے یہ چاہت تیری
یوں ترے پیار کی بہتات سے ڈر لگتا ہے
وہ جو حالات بدل دیتے ہیں ہوں گے کوئی اور
ہم کو ہر حال میں حالات سے ڈر لگتا ہے
کلبلاتے ہیں وہی ذہن میں ہر دم کیونکر
جن سوالوں کے جوابات سے ڈر لگتا ہے
یوں تو خوش گو بھی ہے، خوش طور بھی سید عاصم
اس نئے دور کے سادات سے ڈر لگتا ہے
٭٭٭