مفت ہوئے بدنام
محمد احمد
پہلی بار جب یہ بات میڈیا پر نشر ہوئی تو میں بھی دہل کر رہ گیا کہ اب نہ جانے کیا ہو گا۔ مجھے تو یہ بھی خوف ہو گیا تھا کہ طفیل صاحب سارا معاملہ میرے ہی سر نہ تھوپ دیں ۔ اُن سے بعید بھی نہیں تھی بعد میں شاید وہ مجھ سے اکیلے میں معافی مانگ لیتے لیکن تب تک ہونی ہو چکی ہوتی۔
طفیل صاحب ٹیکنیکل بورڈ میں اسسٹنٹ کنٹرولر ایگزیمینیشن ہیں اور میری بد قسمتی دیکھیے کہ میں اُن کا بھی اسسٹنٹ ہوں ۔ تین سال قبل جب میں اس پوسٹ پر تعینات ہو ا تو ان دنوں طفیل صاحب بھی اس عہدے پر نئے نئے ہی تھے۔ کچھ عرصہ کام سمجھنے میں لگا پھر اُس کے بھی کافی بعد یہ سمجھ آیا کہ اصل کام یہ نہیں ہے۔
مجھے نہیں معلوم کہ کنٹرولر صاحب کو یہ بات پتہ تھی یا نہیں لیکن میں اور طفیل صاحب یہ بات اچھی طرح جان گئے تھے کہ بہت کم بچے محنت کرکے پاس ہوتے ہیں اور باقی بچے یا تو فیل ہو جاتے ہیں یا پھر اُن کا پاس ہونا دوسروں کی محنت کے مرہونِ منت ہوتا ہے۔ میں اور طفیل صاحب یہی محنت کرتے تھے بلکہ یوں کہیے کہ اس محنت میں طفیل صاحب کا کردار مستری اور میرا مزدور والا تھا۔ اُجرت کا حساب بھی اسی طرح تھا یعنی مستری کم محنت کر کے زیادہ اُجرت لیتا تھا اور مزدور گدھے کی طرح محنت کر کے بھی مستری کی اُجرت کا ایک تہائی بھی نہیں سمیٹ پاتا تھا۔ بہرکیف بڑی مچھلیوں کے پیٹ بھی بڑے ہوتے ہیں اس لئے مجھے زیادہ شکایت نہیں تھی۔
یوں تو ہم مختلف ‘پیکیجز آفر’ کرتے تھے کہ جس میں امتحانی کمرے میں حل شدہ مواد بھجوانے سے لے کر کاپی میں موجود سپلیوں کی رد و بدل تک شامل تھی تاہم چونکہ روشنی کا فائدہ بھی آنکھ والے ہی اُٹھا سکتے ہیں سو کچھ لوگوں کے حق میں حل شدہ پرچہ جات بھی بے کار جاتے تھے۔ اُن کے لئے اسپیشل پیکیج تھا اور وہی ہماری صنعت کی کیش کاؤ تھی۔ ہم اپنے "ماہرین” سے اپنی نگرانی میں پرچے حل کرواتے اور اپنے "کسٹمر” کے پرچے کی جگہ ماہرین کی تیار کردہ کاپی لگا دیتے۔ یہ کام کرنے کی اجرت اتنی معقول تھی کہ اس اُجرت سے پلے توانا بدن کے لئے نحیف و نزار ضمیر سے لڑنا مشکل نہیں رہتا۔
مجھے تو یہ ضمیر نام کی چیز یاد بھی نہیں رہتی لیکن بیڑہ غرق ہو خلیق بھائی کا کہ وہ ہر ملاقات پر نہ جانے کون کون سی دلیلیں گھڑ کر لے آتے اور جس دن خلیق بھائی سے ملاقات ہوتی اُس رات نیند کی رانی کے نخرے بڑھ جاتے۔ خلیق بھائی کا بیڑہ غرق ہونے کی بات میں اکثر کہا کرتا تھا بلکہ ایک آدھ بار تو میں نے اُن کے منہ پر بھی یہ بات کہدی۔ اُن کے چہرے پر ایک رنگ سا آ کر گزر گیا لیکن پھر وہ مُسکرانے لگے اور میں دوسری طرف دیکھنے لگا۔ ویسے میں دلی طور پر مطمئن تھا کہ خلیق بھائی کا تو سمندری سفر سے دور دور کا بھی واسطہ نہیں ہے سو اُن کا بیڑہ کیا غرق ہونا ہے ہاں میرے دل کی بھڑاس نکل جاتی ہے اس طرح۔ خلیق بھائی میرے دوست نہیں تھے لیکن دوستوں کی طرح ہی تھے۔ جس زمانے میں میں ناظم آباد میں رہا کرتا تھا یہ میرے فلیٹ کے اوپر والے فلیٹ میں رہتے تھے۔ اُن دنوں ایک دو بار اُن سے اتفاقی ملاقات ہو گئی تو ہم دونوں ساتھ اُٹھنے بیٹھنے لگے کہ میرا بھی اُس علاقے میں کوئی جان پہچان والا نہیں تھا اور وہ بھی تقریباً ایسے ہی تھے لیکن تب وہ اتنے سنجیدہ مزاج نہیں تھے ورنہ اُن سے ربط و ضبط شاید ہی استوار ہوتا۔ اب بھی ہم اچھے دنوں کی دوستی ہی نبھا رہے تھے ورنہ اب تو اکثر ہماری ملاقاتوں میں بدمزگی ہو جاتی ہے۔ خلیق بھائی ضرورت سے زیادہ اصول پسند واقع ہوئے ہیں اور میں اپنی زندگی اپنی مرضی سے گزارنا چاہتا ہوں ۔
جس طرح خلیق بھائی میری ذاتی معاملات میں دخل اندازی کرتے ہیں اُسی طرح وہ میری اس کہانی میں بھی گُھس آئے۔ بہرحال ہوا کچھ یوں کہ ایک دن، رات کے وقت طفیل صاحب کی کال آئی مجھے اُن کا نمبر دیکھ کر ہی پریشانی سی ہوئی کیونکہ دفتری اوقات کے بعد وہ مجھے انتہائی ضروری کام کے لئے ہی فون کرتے تھے۔
ذرا "اطلاع” تو لگاؤ۔ طفیل صاحب نے بڑی عجلت اور گھبراہٹ میں بس اتنا کہا اور فون بند کر دیا۔
"اطلاع” ایک نیوز چینل تھا جو سنسی خیز خبروں کے لئے مشہور تھا۔ اسے حسنِ اتفاق کہیے کہ اُس روز بجلی بھی موجود تھی۔ میں نے ٹی وی کھول کر مذکورہ چینل لگایا تو وہاں نیوز اینکر بڑی ہیجانی آواز میں کچھ کہہ رہا تھا اور ٹی وی اسکرین پر مارک شیٹ قسم کا کوئی ڈاکیومنٹ دکھایا جار ہا تھا جس میں ہائی لائیٹر سے مختلف سطور کو جگہ جگہ سے رنگین کیا ہوا تھا۔ وقفے وقفے سے مختلف دستاویزات دکھا کر نیوز اینکر پوری شد و مد سے رواں تبصرہ پیش کر ہا تھا۔ جیسے جیسے بات سمجھ آ رہی تھی میرا رنگ فق ہوتا جا رہا تھا۔ نیوز اینکر ایک ہی بات کو کم از کم 25 تیس بار دہرا رہا تھا۔
"یہ ڈاکیومنٹ ان تک کیسے پہنچے ؟” میں نے خود کلامی کی کیفیت میں خود سے ہی سوال جواب شروع کر دیے۔ ٹی وی پر دکھائے جانے والے کچھ ڈاکیومنٹ واقعی اس بات کا ثبوت تھے کہ بڑے پیمانے پر گڑبڑ ہوئی ہے لیکن بہت سے بے ضرر ڈاکیومنٹ بھی اس طرح لال پیلے کر کے دکھائے جا رہے تھے کہ جیسے وہ چارج شیٹ کا اہم ترین حصہ ہو۔
چار چھ منٹ اس خبر کے چھ آٹھ فقروں کو یکے بعد دیگرے دہرانے کے بعد نیوز اینکر نے وعید سُنائی کہ 10 بجے کے بلیٹن میں اس سلسلے میں خصوصی رپورٹ پیش کی جائے گی اس کے بعد دوسری خبریں شروع ہو گئیں ۔ میں اس اچانک آنے والی اُفتا د سے پریشان تھا کہ یہ سب اس قدر اچانک کس طرح سے ہو گیا اور یہ اتنے اہم دستاویزات نیوز چینل کے ہاتھ کیسے لگ گئے۔ اسی اُدھیڑ بُن میں مجھے خیال آیا کہ طفیل صاحب سے بات کی جائے۔ لیکن طفیل صاحب کا نمبر مستقل مصروف مل رہا تھا۔ میں اندازہ کر سکتا تھا کہ اُن کا نمبر اس وقت کیوں مصروف ہے۔
صدمے اور خوف کی ملی جلی کیفیات لئے میں آگے کے خدشات کے بارے میں سوچ رہا تھا کہ نہ جانے اس سب کا کیا نتیجہ نکلے۔ لیکن فی الحال کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا تھا۔ انہی سوچوں میں دس بھی بج گئے۔ نیوز چینل والوں نے وہی خبر کچھ بہتر انداز میں رپورٹ کی شکل میں پیش کر دی۔ رپورٹ میں کوئی نئی بات نہیں تھی۔
اگلے چار چھ دن بہت پریشانی میں گزرے۔ دوسرے دن ہی میں طفیل صاحب کے ساتھ کنٹرولر ایگزیمنیشن کے روم میں بیٹھا ہوا تھا یہ وہی روم تھا جہاں کبھی سالوں برسوں میں ایک آدھ منٹ کے لئے جانا ہوتا تھا۔ کنٹرولر روم کا کمرہ تجدیدِ آرائش کے باعث جگمگا رہا تھا لیکن میرا ذہن اس قابل نہیں تھا کہ نئی آرائش کو سراہ سکوں ۔ کم بولنے والے کنٹرولر صاحب اس ملاقات میں سب سے زیادہ بول رہے تھے یہ البتہ شکر ہے کہ اُن کا روئے سُخن میرے بجائے طفیل صاحب کی طرف تھا۔ طفیل صاحب اپنی کچھ باتوں کی تائید کے لئے گاہے گاہے مجھ سے بھی مخاطب ہو رہے تھے اور میں ذہن پر زور دیے بغیر طفیل صاحب کی تائید میں ہی بہتری سمجھ رہا تھا۔ پھر یہ میٹنگز صبح شام ہوئیں اور نہ جانے کون کون سے افسران کنٹرولر صاحب سے ملاقات کے لئے آ تے رہے۔ یہ البتہ شکر ہے کہ پہلی بار کے بعد مجھے ان میٹنگز میں نہیں بُلایا گیا۔
چھٹے دن اُسی ٹی وی چینل سے اطلاع ملی کہ ٹیکنیکل بورڈ کی انتظامیہ نے اس معاملے کی مکمل تحقیق تک محکمے کے دو افراد کو معطل کر دیا ہے۔ چشمِ تخیل کے زور پر میں دیکھ سکتا تھا کہ ان دو افراد کے سانچوں میں سے پھنسا ہوا ایک سر میرا ہی تھا اور تنگ سانچے سے بمشکل گردن گھما کر دیکھنے پر دوسرے سانچے میں طفیل صاحب کی گردن بھی نظر آ رہی تھی۔ میرے چہرہ فق ہو گیا تھا اور میں صدمے کی کیفیت میں اُس دن کو کوس رہا تھا جب میں نے طفیل صاحب کے ساتھ مل کر اس کام کا آغاز کیا تھا۔
سوچتے سوچتے مجھے خیال آیا کہ اگر مجھے معطل کیا گیا ہے تو مجھ تک اطلاع کیوں نہیں پہنچی ابھی تک۔
” شاید کل تک سسپنشن لیٹر کل تک مل جائے” میں نے سوچا۔
آج بھی طفیل صاحب کا نمبر مستقل مصروف مل رہا تھا۔ چار چھ دفعہ کوشش کر کے میں نے فون ایک طرف پٹخ دیا۔
ٹی وی پر کرکٹ میچ میں کامیابی پر ماہرین کھلاڑیوں کو قومی ہیرو قرار دے رہے تھے۔ یہ وہی ہیروز تھے کہ پچھلی سیریز میں شکست کے بعد ماہرین کا خیال تھا کہ ان کی تو ٹیم میں جگہ ہی نہیں بنتی۔ پھر اچا نک ٹی وی اسکرین سُرخ ہو گئی اور بریکنگ نیوز کی وعید سُنائی جا رہی تھی۔
"ٹیکنیکل بورڈ واقعے کے ذمہ داران کی معطلی کے خط کی نقل "اطلاع” کو موصول ہو گئی ہے” نیوز اینکر گلا پھاڑ پھاڑ کر یہ بات دُہرائے جا رہا تھا۔ اور اسکرین پر جھماکوں کے درمیان دھندلا دھندلا اسکین ہوا خط دکھایا جا رہا تھا۔
میری آنکھیں پلکیں جھپکنا بھول گئی تھیں اور میں بے جا اینی میشن میں لپٹی بریکنگ نیوز کے چوکھٹے میں اپنا نام پڑھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ کافی کوشش کے باوجود وہ نام تو مجھ سے نہیں پڑھے گئے لیکن اتنا اندازہ ضرور ہو گیا کہ ان دونوں ناموں میں میرا نام کہیں نہیں تھا بلکہ طفیل صاحب کا بھی کہیں ذکر نہیں تھا۔ خوشی کے ساتھ ساتھ مجھے حیرت بھی ہو رہی تھی۔ عارضی ہی سہی دل کو کچھ قرار آ ہی گیا تھا۔ طفیل صاحب سے آج بھی بات نہیں ہو سکی۔ میں نے بھی زیادہ کوشش نہیں کی۔ اگلے دن پتہ چل ہی جانا تھا کہ کیا معاملہ ہے۔
ابھی میں اس کیفیت سے باہر نہیں آیا تھا کہ دروازے کی گھنٹی بجنے کی آواز آئی اور چند ہی لمحوں کے بعد بچوں نے بتایا کہ خلیق انکل آئے ہیں ۔ میری خوشی ایک دم ہی جیسے ہرن ہو گئی۔ میں ان دنوں خلیق بھائی سے نہیں ملنا چاہ رہا تھا۔ دو دن پہلے میں اُن کے محلے میں گیا بھی تو اُن سے نہیں ملا بلکہ آج صبح اُن کی فون کال بھی میں نے جانتے بوجھتے موصول نہیں کی۔
لیکن شاید یہی تو وقت تھا کہ جب خلیق بھائی مجھ سے ملنے کو بے چین ہوں گے تاکہ وہ مجھے بتا سکیں کہ وہ ٹھیک تھے اور میں غلط تھا۔ وہ مجھے سمجھاتے تھے اور میں مانتا نہیں تھا۔ شاید وہ مجھے یہی جتانے آئے ہوں کہ میری بات نہیں مانی تو اب بھگتو۔ مجھے اُس لمحے پر ایک بار پھر افسوس ہوا جب پہلی بار میں نے اُن کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا تھا۔
چونکہ بچے بتا چکے تھے کہ میں گھر پر موجود ہوں سو اب اُن سے نہ ملنا انتہائی بے مروتی کی بات ہوتی۔ سو برسوں پرانی دوستی کا پاس ایک بار پھر مجھے مجبور کر گیا اور میں چار و ناچار ڈرائنگ روم میں پہنچا۔
خلیق بھائی مجھے دیکھ کر کھڑے ہو گئے۔
"ارے بھائی کہاں غائب ہو؟ فون بھی ریسیو نہیں کر رہے؟” وہ مسکراتے ہوئے بولے۔
"کہیں نہیں ! آپ کی مس کال بعد میں دیکھی” میں نے کھڑکی کی طرف دیکھتے ہوئے جھوٹ بولا اور مسکرانے کی کوشش بھی کی۔
خیر خیریت کے بعد خلیق بھائی نے اِ دھر اُدھر کی باتیں شروع کر دیں ۔
میں اسی اُدھیڑ بُن میں تھا کہ نہ جانے کب وہ اپنا پینترا بدلیں اور اگلے پچھلے تمام بدلے نکالنا شروع کر دیں ۔
لیکن توقع کے برخلاف وہ کافی اچھے موڈ میں نظر آ رہے تھے۔
"آج تو اپنے کھلاڑیوں نے کمال ہی کردیا۔ خوب اچھی کارکردگی دکھائی۔ حد تو یہ ہے کہ اوپنرز نے بھی کافی اچھا کھیلا۔ ” خلیق بھائی مسکراتے ہوئے کہہ رہے تھے۔
"خوشی ہوئی کہ کوئی نہ کوئی تو ملک کا نام روشن کر رہا ہے۔ ”
آج وہ الگ ہی جون میں نظر آ رہے تھے ورنہ کرکٹ سے ان کی دلچسپی واجبی سی ہی تھی۔
"تو کیا آج کل آپ بھی ٹی وی دیکھ رہے ہیں ؟” میں نے ایک اچانک خیال آنے پر پوچھا۔
"نہیں ! نہیں تو! ” خلیق بھائی نہ جانے کیوں گڑ بڑا سے گئے۔ "بس کرکٹ کی اپڈیٹس دیکھی تھی”۔ مسکرا وہ اب بھی رہے تھے لیکن اب کی بار مسکراہٹ کافی پھیکی ہو چلی تھی۔
خلیق بھائی باقی سب چیزوں کی طرح ٹی وی میں بھی کیڑے نکالنے کے پرانے عادی تھے، اُنہیں ہر پروگرام میں کوئی نہ کوئی قابلِ اعتراض نکتہ مل ہی جاتا۔ سو اُنہوں نے ٹی وی دیکھنا ہی تقریباً ختم کر دیا تھا۔
"یار کافی پلواؤ ! اچھی سی” خلیق بھائی نے ایک دم ہی فرمائش کردی حالانکہ ابھی چائے کے کپ بھی میز پر ہی رکھے تھے۔ لیکن چونکہ وہ شاذ ہی کبھی کوئی فرمائش کرتے تھے سو میں کافی کا کہنے اندر چلا گیا۔
کافی کا کہہ کر میں واپس آیا تو خلیق بھائی اپنے بیگ میں کچھ ٹٹول رہے تھے۔ پھر اُنہوں نے ایک کتاب میری طرف بڑھائی۔
"بہت عرصے بعد مشتاق احمد یوسفی کی نئی کتاب آئی ہے۔ ہمت کرکے لے ہی لی میں نے۔ ” اُنہوں نے مسکرا کر کہا۔
مشتاق احمد یوسفی کو میں بھی شوق سے پڑھتا تھا اور یہ بات خلیق بھائی اچھی طرح جانتے تھے۔
"آپ نے پڑھ لی؟” میں نے کتاب کو اُلٹ پلٹ کر دیکھتے ہوئے پوچھا۔
"ہاں میں نے کافی پڑھ لی ہے لیکن آج کل زیادہ وقت نہیں مل رہا سو تمھارے پاس لے آیا۔ ”
کچھ دیر بعد وہ اس کتاب میں سے اپنی پسندیدہ حصے پڑھ کر سنانے لگے۔ کافی، مشتاق احمد یوسفی اور خلیق بھائی کی خوش مزاجی تینوں چیزوں نے مل کر ایسا خوشگوار ماحول بنا دیا کہ میں اپنی تمام تر فکر اور شرمندگی بھول گیا۔
اُس رات خلیق بھائی ساڑھے بارہ بجے تک بیٹھے رہے اور جاتے ہوئے یوسفی صاحب کی کتاب چھوڑ گئے۔
میں تقریباً دو بجے تک کتاب ادھر اُدھر سے پڑھتا رہا اور پھر سو گیا۔ آج تقریباً ایک ہفتے کے بعد مجھے ایسی پرسکون نیند آئی تھی۔
دوسرے دن دفتر پہنچنے پر پتہ چلا کہ جن دو لوگوں کو معطّل کیا گیا ہے وہ ہمارے ہی ڈپارٹمنٹ میں تھے لیکن صرف تنخواہ وغیرہ لینے آتے تھے اور اُن کی نوکری تعلقات اور کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر چل رہی تھی۔ مجھے بڑی حیرت ہوئی کہ ہمارے ہاں ایسے لوگ بھی ہیں اور اِس حساب سے دیکھا جائے تو ہم تو ان سے لاکھ درجے بہتر ہیں ۔ کم از کم محنت تو کرتے ہیں اور اپنی تنخواہ حرام تو نہیں کرتے۔
دو چار دن مزید افراتفری رہی لیکن پھر آہستہ آہستہ دفتر کے معاملات معمول پر آ گئے۔ میں بھی کافی ‘ریلیکس’ ہو گیا۔ خلیق بھائی دو چار دن بعد چلے آتے اور بہت اچھا وقت گزرتا۔ پھر شاید اُن کی مصروفیات بڑھ گئیں تو ملاقاتوں کا درمیانی وقفہ بڑھ گیا۔
اسی طرح کرتے کرتے چھ آٹھ ماہ بیت گئے۔ ایک دن طفیل صاحب چھٹی کے بعد میرے پاس آئے اور کہنے لگے
"بھئی عاطف میاں اب کمر کس لو کام شروع ہونے والا ہے۔ ” وہ مسکرا تے ہوئے میری میز کے سامنے رکھی کُرسی پر بیٹھ گئے۔
"کون سا کام؟” میں نے اُن کی طرف حیرت سے دیکھا۔
"ارے بھئی اپنا کام، اور کونسا کام۔ اس بار کافی زیادہ ‘کسٹمرز’ آ رہے ہیں بس اب تم تیار ہو جاؤ۔ ” وہ بدستور مسکرا رہے تھے۔
"نہ جانے میڈیا والوں نے کس نیت سے یہ سب کیا لیکن اس سب کاروائی سے یہ ہوا کہ ہماری مارکیٹنگ اچھی ہو گئی۔ ورنہ تو بے چارے لوگ ڈر ڈر کر پوچھتے پاچھتے بڑی مشکل سے ہم تک پہنچتے تھے”۔ اُن کی مسکراہٹ گہری ہو چلی تھی۔
طفیل صاحب کی بات کچھ کچھ میری سمجھ آ رہی تھی اور میں سوچ رہا تھا کہ اب کی بار کچھ اس ترتیب و انتظام سے کام کیا جائے کہ بعد میں ‘مشکل’ نہ ہو۔ آخر کو یہ ایک اہم کام تھا اور اس سے بچوں کا مستقبل وابستہ تھا۔ قریب قریب طفیل صاحب جیسی مسکراہٹ میرے ہونٹوں پر بھی آ چلی تھی۔
٭٭٭