‎وہ لمحہ ۔۔۔ اسنیٰ بدر

‎کل رات کی محفل میں ‎اک رنگ اٹھا دل میں ‎جب رقص قدم اٹھے ‎پتھر کے صنم اٹھے ‎نغموں کا نشہ چھلکا ‎سو رنج و الم اٹھے   ‎اک آن تو سانسوں میں ‎بارود کی وحشت نے ‎کچھ شور کیا برپا   ‎تاریک محلّوں سے ‎کانوں کو سنائی دیں روتی ہوئی ماؤں کی ‎ٹوٹی ہوئی Read more about ‎وہ لمحہ ۔۔۔ اسنیٰ بدر[…]

بیدی کی ’اِندو‘ کے نام ۔۔۔ شناور اسحاق

عورت کا شریر ایک راج محل یے پُر شکوہ پُر اسرار وہ تمہیں اپنا مان کر اِس کی چابیاں تمہیں سونپ دیتی ہے تم عمر بھر اس کی راہداریوں میں دندناتے رہتے ہو بُرجیوں پر کلیلیں کرتے پھرتے ہو   اس راج محل میں مخفی ایک آئینہ خانہ ہے جس کے وسط میں سنہری تپائی Read more about بیدی کی ’اِندو‘ کے نام ۔۔۔ شناور اسحاق[…]

نظمیں ۔۔۔ اسنیٰ بدر

نئی نظم ________ جب میں نظم لکھ رہی تھی آواز آئی.. واشنگ پاؤڈر کتنا پڑے گا؟ نظم نے مجھے جھنجھلا کر دیکھا میں نے دھیرے سے کہا، ایک کپ۔ جب میں نظم لکھ رہی تھی آواز آئی… دس کپڑے یا بارہ؟ نظم نے مجھے غصے سے دیکھا میں نے ہاتھ جوڑ کے معافی مانگی جلدی Read more about نظمیں ۔۔۔ اسنیٰ بدر[…]

جھانپڑ ۔۔۔ نجمہ ثاقب

رات ہوئی اور نیل گگن سے اندھیاروں کے بادل اترے کھن سے ’چاند پلنگڑی‘ ٹوٹی بادل کی ’جل گگری‘ پھوٹی آنگن پار کھلے چھجوں سے سن، سن، سن، سن پچھوا گزری جھر جھر جھر جھر بارش برسی زینے نے بھی ٹانگ بھگوئی کمرے کی چھت پھوٹ کے روئی دیواروں سے اترا گارا آناً فاناً بھیگ Read more about جھانپڑ ۔۔۔ نجمہ ثاقب[…]

نظمیں ۔۔۔ غضنفر

سنگ ساری   یہ سچ ہے ہاتھ کوئی اب نہیں اٹھتا کوئی پتھر نہیں چلتا مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ہم پر سنگ ساری ہے ہماری زیست بھاری ہے مسلسل ضرب سے سر پھٹتا جاتا ہے لہو کا دم رگوں میں گھٹتا جاتا ہے رگ؍ جاں کٹتی جاتی ہے بدن سے زندگانی چھٹتی جاتی Read more about نظمیں ۔۔۔ غضنفر[…]

نظمیں ۔۔۔ ستیہ پال آنند

وِش کنیا وِش کنیاـ بمعنی زہریلی لڑکی (وش یا ـ بِس ـ بمعنی   زہر ۔۔۔کنیا بمعنی لڑکی)۔۔قدیم ہندو لوک کہانیوں اور کلاسیکی ہندو ادب میں اس روایت کا ذکر ملتا ہے  کہ راجا کے حکم سے زہریلی خوراک سے پرورش کی ہوئی خوبصورت لڑکیوں کو سیاسی مقاصد کے لیے یعنی حریف راجاؤں، سپہ سالاروں کو Read more about نظمیں ۔۔۔ ستیہ پال آنند[…]

جب بارش ہو رہی ہو ۔۔۔ ناصر عباس نیر

بارش ہو رہی ہو تو بارش کے بارے میں کچھ مت سوچو بارش کو مت روکو تم عین برستی بارش میں بارش ہی کو سوچ کر اس کا راستہ روک دیتے ہو خود اپنی مٹی تک پہنچنے کا راستہ بارش کو برسنے دو بارش آسمان سے کوئی نیا پیغام نہیں لاتی جسے تم سننے کے Read more about جب بارش ہو رہی ہو ۔۔۔ ناصر عباس نیر[…]

نظمیں ۔۔۔ تنویر قاضی

میلہ گھومنے والے   میلہ گھومتے ہوئے وہ گُم ہو جاتے ہیں ابھی تک گھر تک نہیں پہنچ پائے پنگھوڑوں کے ساتھ اُوپر نیچے ہوتے بے ہنگم گانے سُنتے کھلونے دیکھتے چار آنے پاس تھے جن کا مرُونڈا، جلیبیاں کھاتے اور بنٹے والی بوتلیں پیتے ہیں عید گاہ میں لگے میلے کی چکا چوندھ میں Read more about نظمیں ۔۔۔ تنویر قاضی[…]

ایک شامِ احتجاج ۔۔۔ عنبرین صلاح الدین

دھوپ بہتی چلی جاتی ہے دریچوں سے پرے آسماں زرد سے نارنجی ہوا جاتا ہے سائے گہرے ہوئے جاتے ہیں تری گلیوں میں اور سب جانتے ہیں آج یہاں شام چپ چاپ، دبے پاؤں نہیں آئے گی   سرمئی شام کے بڑھتے ہوئے سایوں سے نکل آئے ہیں، کب ہیں یہ آدمی، یہ ڈھلتے ہوئے Read more about ایک شامِ احتجاج ۔۔۔ عنبرین صلاح الدین[…]

نظمیں ۔۔۔ فرزانہ نیناں

اوس کا لمس   کام کاج نبٹا کر سارے اپنی ذات میں لوٹ آئی ہوں سبزے جیسی روشنی والا اک دروازہ کھلتا ہے کائی والے رستے پر میں اس سے گزر کر جاتی ہوں اپنا شہر، محلے، گلیاں رستوں کی چمکیلی دھوپ اوس میں ڈھل کر تکتی ہوں دل دو رویہ ہو جاتا ہے سانسیں Read more about نظمیں ۔۔۔ فرزانہ نیناں[…]