غزلیں
حیدر قریشی
آنکھ سے گر کر ٹوٹے خواب کھلونے ہیں
اور اب دل کے ، بچوں جیسے رونے ہیں
عمرِ لا حاصل کا جو حاصل ٹھہرے
کس نے ایسے داغِ ملامت دھونے ہیں
درد ہمارے تو انمول نکل آئے
گرچہ خرید ے ہم نے اونے پونے ہیں
صرف گناہوں کا ہی بوجھ نہیں سر پر
اپنے نیک اعمال بھی ہم کو ڈھونے ہیں
رادھے ،میٹھے رادھے ! کچھ پہچان ذرا
دیکھ ہمیں ہم تیرے شام سلونے ہیں
زخموں کی خیرات بھی کب مل پائے گی
حُسن سے کچھ احسان ہی ایسے ہونے ہیں
راس زمین دل کو غم ایسے آئے
غم کی فصلیں کاٹ کے ،پھر غم بونے ہیں
یادوں کے پھولوں سے ،اپنی پلکوں نے
اُس کی جیت پہ حیدر ہار پرونے ہیں
عشق میں حیدر باون سال کا ہو کے بھی
بیس برس کی عمر کے رونے دھونے ہیں
***
فصلِ غم کی جب نوخیزی ہو جاتی ہے
درد کی موجوں میں بھی تیزی ہو جاتی ہے
پانی میں بھی چاند ستارے اُگ آتے ہیں
آنکھ سے دل تک وہ زرخیزی ہو جاتی ہے
اندر کے جنگل سے آ جاتی ہیں یادیں
اور فضا میں صندل بیزی ہو جاتی ہے
خوشیاں غم میں بالکل گھل مل سی جاتی ہیں
اور نشاط میں غم انگیزی ہو جاتی ہے
شیریں سے لہجے میں بھر جاتی ہے تلخی
حیلہ جوئی جب پرویزی ہو جاتی ہے
بے حد پاور جس کو بھی مل جائے ،اس کی
طرز یزیدی یا چنگیزی ہو جاتی ہے
کو شش جتنی بھی بچنے کی کر لوں، پھر بھی
اردو میں کچھ کچھ انگریزی ہو جاتی ہے
غزلوں میں ویسے تو سچ کہتا ہوں لیکن
کچھ نا کچھ تو رنگ آمیزی ہو جاتی ہے
حسن تمہارا تو ہے سچ اور خیر سراپا
ہم سے ہی بس شر انگیزی ہو جاتی ہے
ظاہر کا پردہ ہٹنے والی منزل پر
سالک سے بھی بد پرہیزی ہو جاتی ہے
رومی کو حیدر جب بھی پڑھنے لگتا ہوں
باطن کی دنیا تبریزی ہو جاتی ہے
***