مجھے کہنا ہے کچھ۔۔۔۔۔۔۔
ہوئی تاخیر تو کچھ باعث تاخیر بھی تھا
پہلے تو نۓ سال کی مبارک باد قبول فرمائیں اگر چہ تاخیر سے ہی، اور وہی بات کہ ہوئی تاخیر تو کچھ باعث تاخیر بھی تھا۔ اس کی وجہ بھی آگے دی جا رہی ہے۔
’سمت‘ کا دوسرا شمارہ حاضر خدمت ہے۔ اپنی راۓ سے نوازۓ گا۔ مجھے افسوس ہے کہ یہ شمارہ تاخیر سے شائع ہو رہا ہے۔ وجہ محض یہی رہی کہ دسمبر کے آخر میں مَیں امریکہ میں تھا (بلکہ نومبر سے ہی تھا اور سمت کا پہلا شمارہ وہاں سے ہی پوسٹ ہوا تھا) اور وہاں کچھ مصروف رہا اور اب نۓ سال میں ہندوستان واپس آیا ہوں تو انٹر نیٹ سے رابطہ چھوٹ چکا تھا۔ اور وہاں سے حیدر آباد آیا جہاں مستقل انٹر نیٹ کنکشن نہیں تھا۔ ناگ پور میں میری ملازمت ہے اب وہاں سے ہی انٹر نیٹ کا انتظام کر کے اب یہ شمارہ پوسٹ کر رہا ہوں۔
پہلے شمارے کے بارے میں احباب نے مشورہ دیا تھا کہ اسے نستعلیق میں کمپوز کیا جاۓ۔ حالاں کہ پچھلی بار ہی میں نے لکھا تھا کہ نستعلیق شکل دیکھنا ہو تو قارئین (بلکہ انٹر نیٹ کے لحاظ سے ملاقاتیوں) کو نفیس نستعلیق فانٹ (خط) ڈاؤن لوڈ کرنے کی ضرورت ہے اور یہ کہ یہ ویب صفحات نستعلیق میں ہی بناۓ گۓ ہیں اگرچہ یہ نستعلیق فانٹ بھی فی الحال کچھ مسائل سے دو چار ہے۔ کچھ حضرات کو بغیر اس کے کچھ حروف ہی نظر نہیں آۓ جس کی وجہ یہی ہو سکتی تھی کہ ان کا کمپیوٹر اردو یا عربی، بلکہ انگریزی کے علاوہ کسی بھی دوسری زبان کے لۓ تیار نہیں ہے۔ اسی لۓ اس بار اپنا ہی ایک مضمون بھی شامل کر رہا ہوں جو اگرچہ تکنیکی نوعیت کا ہے، مگر اس کی افادیت ہر اردو داں کے لۓ مسلمّ ہے۔
پچھلا سال ہمارے لۓ بڑا ظالم رہا کہ اس نے نہ صرف کئی ادیبوں شاعروں کو ہم سے چھین لیا بلکہ ہند و پاک کے ہمالیائی علاقوں میں زلزلے نے سارے برّصغیر ہی نہیں، دنیا کو دہلا دیا۔ عارف فرہاد کی نظم ہم سب کے جذبات کی آئینہ دار ہے۔
اردو ادیبوں کے ساتحات انتقال پر تو اکثر اردو رسالوں نے لکھا ہے مگر میں سمجھتا ہوں کہ اردو میں امِرتا پریتم کی رحلت پر خاطر خواہ خراج عقیدت نہیں دیا گیا۔ امتیازالدین نے بخوبی ہمیں اس البیلی شخصیت سے واقف کرایا ہے اور کم لوگوں کو ہی معلوم کچھ حقائق سے پردہ اٹھایا ہے۔ امِرتا کی ایک اہم نظم بھی شامل ہے۔ امید ہے پسند آۓ گی۔ انٹڑ نیٹ کا یہ فائدہ ہے کہ یہ شمارہ ہندوستان یا پاکستان ہی نہیں پوری دنیا میں دستیاب ہے جو کہ کسی بھی اور جریدے کے پرنٹ ورژن کو نصیب نہیں۔ اور پاکستانی قارئین کے لۓ امرتا کا یہ ذکر خوش آئند ثابت ہو گا۔
حیدر آباد دکن کے شاعر ذکی بلگرامی بھی نہیں رہے، ان کی غالباً ایک آخر ی غزل اور ساتھ ہی پروفیسر مغنی تبسم کا ذکی کے اشعار کا انتخاب بھی اس شمارے کی اہم شمولیات میں سے ہے۔
یہی ماہ میرے والد محترم صادق اندوری کی بیسویں برسی کا بھی ہے، ان کی آخری غزل اور ایک آخری شعر بھی شامل کر رہا ہوں۔
آپ کی راۓ کا انتظار رہے گا۔
ایک اہم بات اور۔
ہمیں یہ محسوس ہوا ہے کہ ہمیں تخلیقات اتنی حاصل نہیں ہو رہی ہیں کہ اس جریدے کو ماہنامہ کرنے پر مصر رہا جاۓ۔ اگر خاطر خواہ پذیرائی ہو تو دوسری بات ہے، لیکن موجودہ حالات میں اسے سہ ماہی کر دیا جاۓ تو کیسا رہے؟ نۓ سال کی وجہ سے ہم نے یہ شمارہ تو جنوری میں ہی شائع کر دیا ہے، لیکن آپ کے مشورے کا انتظار ہے کہ اگلا شمارہ فروری میں نکالا جاۓ یا اپریل میں یا پھر دو ماہی کرنے پر مارچ میں!!
اعجاز عبید
20 جنوری 2006