کچھ چیٹ جی پی ٹی ChatGPT کے بارے میں ۔۔۔ جاوید رسول

عجیب تماشا ہے کہ اب ایک روبوٹ ہم سے انسانوں کی طرح مکالمہ کرتا ہے ہمارے مسائل سنتا ہے، حل بتاتا ہے اور جہاں ممکن ہو بحث بھی کرتا ہے۔ خواہ وہ علمی مسئلہ ہو یا غیر علمی، ادبی ہو یا غیر ادبی حتی کہ سیاسی مسائل کے حوالے سے بھی ہماری رائے جان کر اس کے ماخذ کا نہ صرف انکشاف کرتا ہے بلکہ ہماری رائے کے منفی اور مثبت پہلوؤں پر غور بھی کرتا ہے۔ یعنی یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ ایک مکمل تجزیاتی ذہن کا مالک روبوٹ ہے جو ہر صورت حال میں انسانوں سے مکالمہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہاں ’ہر صورت حال‘ کا استعمال میں نے جان بوجھ کر کیا ہے اس لیے کہ اس ڈیجیٹل دور میں جہاں انسانوں کا باہمی اشتراک یا مکالمہ تقریباً ختم ہو چکا ہے کیسے کسی انسان سے مکالمے کی امید وابستہ کی جائے اور کیوں کر کی جائے؟ جبکہ Authenticity آج کے دور کے انسان کا بنیادی مسئلہ بن چکی ہے۔ اجنبیت اور بوریت جیسے وجودی مسائل کا شکار آج کا آدمی جو ہر دوسرے شخص کو ’غیر‘ The Other تصور کرتا ہے جب یہ خیال کرتا ہے کہ آخر کس بھروسے پر وہ اپنا کرب یا تشویش Anxiety کسی سے ظاہر کرے تو یاسیت کا شکار ہو جاتا ہے۔ یہ صورت حال مابعد جدید دور کی ہے جہاں انسانوں کے درمیان رہتے ہوئے انسان اجنبی، تنہا اور غیر محفوظ ہے۔ ایسے میں یہ روبوٹ اس کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں کہ یہ دائرۂ خلوت میں اس کا بہترین دوست ثابت ہو رہا ہے۔ پھر یہ اس لحاظ سے کم سے کم لائق اعتنا بھی تو ہے کہ بھروسے کی ضمانت خود دیتا ہے۔ سوچنے والی بات ہے کہ کیا ایک انسان دوسرے انسان سے مکالمہ قائم کرنے سے پہلے بھروسے کی ضمانت دیتا ہے؟ ظاہر ہے نہیں دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ Authenticity انسانی وجود کا مسئلہ ہے کسی روبوٹ کا نہیں۔ انسان دوسروں سے مکالمہ اپنے ادراک اور فہم کی بنا پر قائم کرتا ہے جس کا وہ کوئی حوالہ Reference بھی نہیں دیتا بلکہ ہمارے اکثر مکالمے متعصبانہ اور جانب دار ہوتے ہیں جبکہ یہ روبوٹ انسان سے حوالوں کی بنیاد پر بالکل غیر جانبدارانہ مکالمہ قائم کرتا ہے۔ اب رہی بات علم اور تخلیقیت کی تو یہ بات سچ ہے کہ اس روبوٹ کے وجود میں آنے سے علم اور تخلیقیت کی Authenticity مشتبہ ہو کر رہ گئی ہے۔ مثلاً میں نے اس سے پوچھا ’’کیا تم ’بےگھر‘ Homeless پر کوئی نظم لکھ سکتے ہو؟‘‘ تو اس نے انگریزی میں ایک مکمل نظم لکھ کے دی، اسی موضوع پر ایک افسانہ لکھنے کو کہا تو وہ بھی لکھ کے دیا نیز اردو میں ’زندگی‘ کے موضوع پر کوئی چیز (جسے شاعری کہہ سکتے ہیں) بھی لکھ کے دی۔ حالانکہ چونکا دینے والی بات یہ ہے کہ اس کے فراہم کیے گیے مواد Content کے ماخذ کی دریافت اپنے آپ میں ایک بڑا اور اہم مسئلہ ہے۔ گو کہ یہ خود بتاتا ہے کہ اس کی تربیت کے لیے متنوع ذرائع سے مواد اکٹھا کیا گیا ہے لیکن کون سی چیز کا اصل منبع کہاں ہے اور کیا ہے اس کا انکشاف نہ تو یہ خود کرتا ہے اور نہ ہی فی الوقت ہمارے لیے یہ ممکن ہے۔ ہاں البتہ اردو کے حوالے سے اس کا مکالمہ ابھی بہت کمزور ہے، Data بھی محدود اور خام ہے۔ اس لحاظ سے دیکھیں تو اردو والوں کو زیادہ گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ انہیں خوش ہونا چاہیئے کہ کہیں تو اردو ڈیجیٹل پروگرامنگ کے تئیں ان کی عدم دلچسپی کام آ رہی ہے ورنہ یہ کمبخت روبوٹ تو آج مجھے شاعر بنا ہی دیتا۔۔۔!!

نوٹ: اس کا دعوی ہے کہ اس کی بنیاد اخلاقی Ethical بنیادوں پر رکھی گئی ہے۔ بہت سارے لوگ اس مغالطے کے شکار ہیں کہ بعض جگہوں پر جہاں انسان کا رد عمل جارحانہ یا نازیبا ہو سکتا ہے یہ روبوٹ خلوص کے ساتھ پیش آ کر اپنے اخلاقی ہونے کا ثبوت فراہم کرتا ہے۔ جبکہ یہ اس روبوٹ کا ایک گمراہ کن رویہ ہے جو انسانوں کو اس کے فریب میں لانے کا کام کرتا ہے۔ حقیقت میں اس کی بنیاد غیر اخلاقی قدروں پر ہی رکھی گئی ہے۔ ظاہر ہے بغیر اجازت کے متنوع ذرائع سے حاصل کیے گیے مواد کی توڑ پھوڑ کر کے نیا مواد تشکیل دینا قطعاً اختراعی عمل ہو سکتا ہے نہ اخلاقی۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے