ڈاکٹر فریاد آزر ایک مزاحیہ تعارف ۔۔۔ اسد رضا

ریکارڈ کے مطابق ڈاکٹر فریاد آزر کی پیدائش ۱۰؍ جولائی ۱۹۵۶کو بنارس ضلع میں ہوئی۔ اب یہ ضروری نہیں کہ ۱۰؍ جولائی کو ہی ان کی پیدائش ہوئی ہو مگر اتنا تو طے ہے کہ ان کی پیدائش ضرور ہوئی ورنہ آج مسلسل ادبی رسالوں میں ان کی اتنی غزلیں شائع نہیں ہوتیں۔ انٹر میڈئٹ کے بعد اعلیٰ تعلیم کی غرض سے ۱۹۷۲ میں دہلی تشریف لائے اور یہیں کے ہو کر رہ گئے۔ دہلی کی تینوں سنٹرل یونیورسٹیوں سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد بہت دنوں تک اس خوش فہمی میں شادی نہیں کی کہ لکچرر شپ ملنے کے بعد ہی شادی کریں گے۔ وہ تو خدا کا شکر ہے کہ فریاد صاحب قول کے پکے نہیں تھے ورنہ آج تک کنوارے ہی بیٹھے ہوتے۔ کیونکہ لکچرر شپ انہیں آج تک نہیں ملی اور اب تو وہ امید کا دامن بھی چھوڑ چکے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ امید نے ان کا دامن بہت پہلے سے ہی چھوڑ رکھا ہے۔ ہاں، جامعہ میں اگر ذرا عقلمندی سے کام لیتے تو آج فریاد صاحب لکچرر ہی نہیں بلکہ پروفیسر ہو گئے ہوتے مگر موصوف عقل سے کم اور خود داری سے زیادہ کام لینے کے عادی ہیں لہٰذا آج بھی ہر میدان میں اپنے احباب سے پیچھے ہیں ورنہ ایک زمانہ میں موصوف کا ایک مزاحیہ شعر جامعہ میں بہت مقبول ہوا تھا ؎

جو یونیورسٹی والوں کا رشتہ دار ہو جاتا

کم از کم لکچرر شپ کا تو میں حقدار ہو جاتا

مگر افسوس کہ ایسا نہیں ہوا۔ مولانا حالی کا یہ شعر ایک عرصہ تک شادی کے سلسلہ میں ان کی رہنمائی کرتا رہا ؎

ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں

اب ٹھہرتی ہے دیکھئے جا کر نظر کہاں !

یعنی وہ ایک عرصہ تک گھروں میں گھس کر خوب سے خوب تر حسن کی تلاش میں سرگرداں رہے مگر نتیجہ انہی کے شعر میں ملاحظہ فرمائیں ؎

تلاش خوب تر میں خوب سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے

ہم اپنے بے وفا محبوب سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے

بہرحال کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے یعنی موصوف دولہا بنے مگر سر منڈاتے ہی اولے پڑ گئے اور دوبارہ بال اگ آنے کے باوجود آج تک اولے پڑنا جاری ہیں اور اب انہیں سر منڈانے کی کوئی ضرورت پیش نہیں آتی کیوں کہ اب ان کے سر پر بچا ہی کیا ہے !

اس طویل اور مسلسل اولہ باری میں فریاد آزر کو اب تک جم جانا چاہیے تھا۔ مگر جان ہر شخص کو عزیز ہوتی ہے۔ لہٰذا مکمل طور پر جمنے سے پہلے تھوڑا بہت ہاتھ پاؤں ہلا کر خود کو گرم کر لیتے ہیں۔ گرم کرنے سے مراد یہ ہے کہ کسی اور مشغلہ میں سرگرم ہو جاتے ہیں، کبھی کسی ادبی رسالے کی ادارت شروع کر دیتے ہیں کبھی انٹرنیٹ پر اردو کا ویب سائٹ شروع کر دیتے ہیں، کبھی کسی اخبار میں نئی نسل کے ادیبوں اور شاعروں کا انٹرویو لینا شروع کر دیتے ہیں کبھی شناخت نامی تنظیم کے ذریعہ نئی نسل کے شاعروں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں تو کبھی فرصت کے لمحات میسر ہونے پر کچھ اشعار بھی کہہ لیتے ہیں۔

اب تک موصوف کے چار شعری مجموعے منظر عام پر آ چکے ہیں مگر نقاد حضرات کی نگاہ ان تک نہیں پہنچی ورنہ اب تک سچ مچ اردو کے اہم شعرا کی فہرست میں ان کے نام کا اضافہ ہو چکا ہوتا۔ اس سلسلہ میں فریاد صاحب خود فرماتے ہیں ؎

ہاں ابھی مجھ کو نہ تسلیم کرے گا وہ بھی

وقت آئے گا تو تعظیم کرے گا وہ بھی

فریاد صاحب ایک دردمند دل رکھتے ہیں۔ غریبوں اور لاچاروں سے ہمدردی رکھتے ہیں۔ آج سے تقریباً بیس پچیس سال قبل جب کہ موبائل فون صرف رئیسوں کے پاس ہوا کرتا تھا، ایک بھکاری پر جب انہیں رحم آ گیا تو کیا ہوا آپ خود ان کی زبانی ملاحظہ فرمائیں ؎

میں رحم کھا کے جو سائل سے بات کرنے لگا

وہ دور ہٹ کے موبائل سے بات کرنے لگا

آج اس عمر میں اتنا سنجیدہ نظر آنے والا شخص نوجوانی میں کس قدر شوخ تھا، یقین نہیں آتا۔ موصوف نے جامعہ میں طالب علمی کے دوران ایک شوخ رسالہ نکالا تھا اور اس سے پہلے کہ خود انہیں ہی جامعہ سے نکال دیا جاتا انہوں نے دوسرا شمارہ نکالا ہی نہیں۔ رسالہ کا نام تھا دل پھینک اور موصوف اس کے مدیر ادنی تھے۔ لیکن اس کے دوسرے شمارہ کی اشاعت نہ ہو پانے کی وجہ موصوف خود فرماتے ہیں ؎

خود اپنا پرچہ نکالا مدیر ہو بیٹھے

مہینہ بھر میں مکمل فقیر ہو بیٹھے

تخلص شاعر کی پہچان ہے۔ فریاد صاحب تخلص کے معاملے میں بڑے دریا دل رہے ہیں۔ شروع شروع میں شہزادہ فریاد کے نام سے لکھتے رہے، پھر اچانک نئے تخلص کی طرف راغب ہوئے اور یکے بعد دیگرے درجنوں تخلصوں کو اپناتے رہے۔ کبھی فریاد رومی تو کبھی فریاد راوی۔ کبھی صنم بنارسی تو کبھی کچھ۔ اس دور میں اکثر احباب ان سے ان کی نئی غزل کم سنتے، نیا تخلص زیادہ۔ آخر کار فریاد صاحب آزر پر آ کر رک گئے لیکن کچھ بھروسہ نہیں کہ کب کوئی اور تخلص اختیار کر لیں۔

فریاد صاحب کو بچپن سے ہی شعر و شاعری اور ریڈیو پر بچوں کی پروگراموں میں حصہ لینے اور اخبارات و رسائل میں چھپنے چھپانے کا شوق تھا۔ آپ کی پہلی نظم اس وقت بنارس کے مشہور ہندی روزنامہ آج کے سنڈے ایڈیشن میں شائع ہوئی تھی جب آپ نے چھٹی جماعت میں داخل ہوئے ہی تھے۔ پھر تقریباً ہر سنڈے ایڈیشن میں آپ کی نظمیں اور ٹوٹی پھوٹی کہانیاں شائع ہوتی رہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ مختلف اخبارات میں سیاسی مضامین لکھنے لگے۔ انٹر میڈئٹ کے بعد جب اعلیٰ تعلیم کی غرض سے دہلی آئے تو دہلی یونیورسٹی سے بی اے کرنے کے بعد اچانک جامعہ ملیہ اسلامیہ سے ایم اے اردو میں داخلہ لینے کی کوشش کی۔ مگر ڈاکٹر عنوان چشتی مرحوم، پروفیسر شمیم حنفی، ڈاکٹر حنیف کیفی اور دیگر اساتذہ نے فریاد آزر کے داخلے کی مخالفت کی کیوں کہ فریاد آزر کے پاس پہلی جماعت سے لے کر بی اے تک کسی کلاس میں اردو بحیثیت مضمون بھی نہیں تھی۔ ایسے میں پروفیسر گوپی چند نارنگ نے فریاد آزر کو یہ کہہ کر شعبہ میں داخلہ دے دیا کہ ایک نوجوان ہندی سے اردو کی طرف مائل ہو رہا ہے ہمیں اس کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ لیکن سیمیناروں میں فریاد آزر پڑھے گئے مقالات پر جس انداز سے بحث کرتے تھے اس سے مرحوم عنوان چشتی اور شمیم حنفی اور دیگر اساتذہ فریاد آزر کے داخلے سے نہ صرف مطمئن ہو گئے بلکہ عنوان چشتی مرحوم نے فریاد آزر کو اپنی شاعرانہ شاگردی میں بھی لے لیا اور ایم اے کے بعد شمیم حنفی صاحب فریاد آزر کے پی ایچ ڈی کے مقالے کے نگراں مقرر ہوئے۔ یہ الگ بات ہے کہ عنوان صاحب کی شاگردی میں فریاد آزر غزل کی طرف مائل ہو گئے اور صحیح معنوں میں ان کی شاعری کا آغاز بھی جامعہ ملیہ سے ہی ۱۹۷۸ء سے ہوا۔

اب فریاد صاحب پی ایچ ڈی کے مقالہ میں کم اور شعر و شاعری میں زیادہ دلچسپی لینے لگے۔ پانچ سال تک مسلسل جامعہ اسٹور کے ارشاد ٹی اسٹال پر صبح صبح بیٹھ کر سامعین کا انتظار کرتے اور انہیں چائے پلوا کر غزلیں سناتے۔ سامعین ایک چائے اور غزل کے بعد چلے جاتے مگر فریاد صاحب دوسرے سامعین کے منتظر رہتے۔ اسی طرح سامعین بدلتے رہتے چائے چلتی رہتی اور شام ہو جاتی اور فریاد صاحب اگلے دن پھر آنے کے لیے گھر چلے جاتے۔ طالب علمی کے دور میں اتنا پیسا خرچ کرنا کسی کے بس کی بات نہیں ہوتی ۔ظاہر ہے کہ فریاد آزر کے بھی بس کی بات نہیں تھی۔ اس لیے انہوں نے ایک ترکیب نکال رکھی تھی کہ سبھی کو آدھی یعنی ایک بٹے دو چائے پلوایا کرتے تھے۔ مگر اس کے لیے انہوں نے ارشاد بھائی اور ان کے ملازمین کو ایک کوڈ ورڈ بتا رکھا تھا۔ یعنی اگر چار لوگ موجود ہوں اور آدھی آدھی چائے پلوانی مقصود ہو تو یہ کہا جائے گا کہ ’ہو جائے ‘ لیکن اگر سب کو پوری پوری چائے پلوانی مقصود ہو تو یہ کہا جائے گا کہ ’چار چائے ‘۔ اس سے کسی کو پتہ نہیں چل پاتا تھا کیوں کہ چائے تو اتنی ہی ہوتی تھی بس کوالٹی میں تھوڑا فرق ہوتا تھا۔

لیکن یہ راز اس وقت کھل گیا جب ایک دن باذل عباسی مرحوم بحیثیت سامع اس چائے خانہ میں تشریف لائے۔ ان کو دیکھتے ہی چائے خانہ کا ملازم فریاد صاحب سے پوچھ بیٹھا کہ ’’دو چائے یا ہو جائے ؟‘‘پھر بھی کب تک ادھار چلتی! ایک دن ارشاد بھائی نے رقم کا تقاضا کر ہی دیا۔ فریاد صاحب ان کی مذہب پسندی سے واقف تھے۔ انہوں نے ارشاد بھائی سے بڑی سنجیدگی سے کہا کہ جناب آپ میرے ایک سوال کا جواب دیجیے۔ اور وہ یہ ہے کہ کیا آپ کو روز حساب پر یقین ہے ؟ ارشاد بھائی نے بڑے اعتماد کے ساتھ کہا کہ الحمد للہ! فریاد صاحب فوراً بولے کہ پھر میرا اور آپ کا حساب وہیں ہو گا۔

پانچ سال گزر گئے اور پی ایچ ڈی کا کام برائے نام ہو پایا تھا۔ فریاد آزر اور شاہ رخ خان کو ایک ساتھ جامعہ سے نکال دیا گیا۔ شاہ رخ ٹی وی سیریل میں کام کرنے لگا اور آج ہندوستانی فلم انڈسٹری کا بے تاج بادشاہ ہے۔ فریاد صاحب اپنے دل سے جامعہ کی محبت نہیں نکال پائے لہٰذا انہیں ایک سال کی مزید مہلت دے دی گئی اور اسی سال موصوف نے واقعی دن رات محنت کر کے پی ایچ ڈی کا مقالہ پورا کر ہی لیا۔ یہ الگ بات ہے کہ ڈاکٹر بننے کے بعد لکچرر بننے کی دل سے قطعی کوشش نہیں کی کیونکہ لکچرر شپ کے تمام اوصاف ہونے کے باوجود ایک وصف اپنے اندر پیدا نہیں کر سکے۔ وہ یہ کہ پروفیسروں کے گھروں کے چکر اس دور میں بھی نہیں لگا سکے جب کہ ایسا کرنا نہایت ضروری تھا۔ وہ تو اللہ کا شکر ہے کہ شعر و شاعری کے جنون کے دوران ہی ایک دوست کے مشورے پر جامعہ سے ہی بی ایڈ کر لیا تھا لہٰذا دال روٹی چل رہی ہے ورنہ شاید دوسروں کی طرح پروفیسروں کے گھروں کے چکر لگا لگا کر لکچرر شپ حاصل کر ہی لیتے اور دال روٹی کے بجائے مرغ مسلم کے مزے لوٹ رہے ہوتے۔ یہ الگ بات ہے کہ دال اور مرغ کی قیمت میں آج کوئی فرق نہیں رہا۔

بی ایڈ کے دوران ہی فریاد آزر نے اپنا مشہور زمانہ شعر کہا جسے آج بھی ہندوستان کے مختلف حصوں میں بہت سے شعرا اپنے اپنے نام سے مشاعروں میں سنا دیتے ہیں اور پکڑے جانے پر معافی مانگ لیتے ہیں۔ وہ شعر یہ تھا ؎

ہاتھ ملتی رہ گئیں سب خوب سیرت لڑکیاں

خوبصورت لڑکیوں کے ہاتھ پیلے ہو گئے

آپ کا پہلا شعری مجموعہ خزاں میرا موسم ۱۹۹۴ء میں شائع ہوا۔ اسکول میں پڑھاتے ہوئے بچوں کو املا کے طور پر فی البدیہہ نظمیں لکھواتے تھے جسے اردو اکادمی نے ۱۹۹۸ء میں بچوں کا مشاعرہ کے نام سے خود شائع کیا۔ ۲۰۰۵ء میں تیسرا شعری مجموعہ قسطوں میں گزرتی زندگی شائع ہوا اور چوتھا شعری مجموعہ کچھ دن گلوبل گاؤں میں ۲۰۰۹ء میں شائع ہوا جسے اردو اکادمی نے ایوارڈ سے بھی نوازا۔ ان کی شاعری کے معیار کو دیکھتے ہوئے ان کے پہلے اور دوسرے مجموعوں کو بھی ایوارڈ سے یقیناً نوازا جاتا لیکن جس ادارے کے مالی تعاون سے دونوں کتابیں شائع ہوئی تھیں، وہی ادارہ قانوناً ان کتابوں پر ایوارڈ نہیں دے سکتا تھا۔ خیر یہ تو اپنے اپنے مقدر کی بات ہے۔

بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں کہ وہ ایوارڈ جیسی چیز خود ہی دوڑ بھاگ کر کے حاصل کر لیتے ہیں مگر آزر صاحب اس انتظار میں ہیں کہ شاید ایمانداری سے ان کو ان کی شاعری پر ایوارڈ آج نہیں تو کل مل ہی جائے گا۔ یہ میں کیا آپ سبھی اسے خوش فہمی محض مانتے ہوں گے۔ خود فریاد صاحب فرماتے ہیں ؎

ورنہ مرا مزاج مجھے مار ڈالتا

شامل مرے وجود میں خوش فہمیاں بھی تھیں

ڈاکٹروں کے مطابق کینسر کا کوئی علاج نہیں، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ خوش فہمی کا بھی کوئی علاج نہیں ہے۔ خوش فہمی اور امید کا چولی اور دامن کا ساتھ ہے یہ بات تو ڈاکٹر صاحب بھی جانتے ہیں مگر وہ اتنے بھی سادہ لوح نہیں ہیں۔ ہمیشہ ’امید‘ سے رہیں۔ انہیں زندگی اور حالات کا زبر دست تجربہ ہے ورنہ یہ شعر نہ کہتے ؎

ایک جانب یاس کی سرحد سے لپٹا کرب کفر

دوسری جانب امیدوں کا جہاں جلتا ہوا

سنجیدگی فریاد آزر کی گھٹی میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے لیکن کوٹنے اور چھاننے کے دوران طنز و مزاح کے عناصر بھی اس میں شامل ہو گئے اور کبھی کبھی یہ طنز و مزاح اردو کے طنزیہ اور مزاحیہ ادب کا بہترین سرمایہ بن جاتا ہے۔

ان کی ایک مزاحیہ غزل (جو کہ احمد فراز کی مشہور غزل کی پیروڈی ہے) کے چند اشعار حاضر ملاحظہ فرمائیں ؎

’سنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں‘

سو ہم بھی آج یہی کام کر کے دیکھتے ہیں

ہے شوق اس کو موبائل سے بات کرنے کا

سو ہم بھی چار چھ مِس کال کر کے دیکھتے ہیں

جن عاشقوں کو بڑھاپے کی پونچھ اگنے لگی

سنا ہے وہ بھی اسے دم کتر کے دیکھتے ہیں

بس اس لئے کہ اسے پھر نظر نہ لگ جائے

لگا کے سب اسے چشمے نظر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے بالوں سے اس کو بڑی محبت ہے

تمام گنجے اسے آہ بھر کے دیکھتے ہیں

سدھار پائے نہ جن کو پولس کے ڈنڈے بھی

وہی موالی اسے خود سدھر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے ربط ہے اس کو امیر زادوں سے

سو آج ہم بھی اسے جیب بھر کے دیکھتے ہیں

وہ بالکونی میں آئے تو بھیڑ لگ جائے

رقیب ایسے میں جیبیں کتر کے دیکھتے ہیں

سڑک سے گزرے تو ٹریفک بھی جام ہو جائے

کہ اہلِ کار بھی اس کو ٹھہر کے دیکھتے ہیں

مجھے بھی آج کسی پارلر میں لے چلئے

اسے رقیب بہت بن سنور کے دیکھتے ہیں

ہماری بات ہوئی تھی نہ دیکھنے کی اسے

ہم اپنی بات سے پھر بھی مکر کے دیکھتے ہیں

مشاعروں کے لئے چاہئے غزل اس کو

یہی ہے مانگ تو پھر مانگ بھر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے شوق ہے تیمار داریوں کا اسے

سو اپنے آپ کو بیمار کر کے دیکھتے ہیں

سنا گیا ہے کہ مردہ پرست ہے وہ بھی

تو جھوٹ موٹ کا پھر ہم بھی مر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے جب سے لی ’جوڈو‘ کی تربیت اس نے

رقیب دور سے ہی اس کو ڈر کے دیکھتے ہیں

مکان اس کا ہے سرحد کے اس طرف لیکن

ادھر کے لوگ بھی جلوے ادھر کے دیکھتے ہیں

’فرازؔ تم کو نہ آئیں محبتیں کرنی‘

سو اس گلی سے اب آزرؔ گزر کے دیکھتے ہیں

اسی طرح احمد فراز کی ایک اور غزل کی زمین میں فریاد آزر کا کمال دیکھیں:

یہ ہے عشق دورِ جدید کا، یہ معاشقہ کوئی اور ہے

میں زکام ہوں کسی اور کا، مجھے چھینکتا کوئی اور ہے

مری زندگی بھی عجیب ہے، مرا کتنا گھٹیا نصیب ہے

میں سہاگ ہوں کسی اور کا، مجھے پیٹتا کوئی اور ہے

کوئی شاعروں کو بلائے کیوں، کوئی اچھا شعر سنائے کیوں؟

ہے یہاں گویّوں کا جمگھٹا، یہ مشاعرہ کوئی اور ہے

کوئی سوکھتا ہے چھوارے سا، کوئی پھولتا ہے غبارے سا

میں کما کے لاتا ہوں دم بہ دم پہ ڈکارتا کوئی اور ہے

جو زمین ہم نے خرید لی، کہیں جا کے تب یہ خبر ہوئی

وہ زمین تھی کسی اور کی، اسے بیچتا کوئی اور ہے

مجھے کس نے الّو بنا دیا، مرے سر پہ سہرا سجا دیا

میں نے ان کا گھونگٹ اٹھا دیا تو پتہ چلا کوئی اور ہے

یہ سیاستوں کے معاملے، انھیں ہم کبھی نہ سمجھ سکے

یہاں بھونکتا کوئی اور ہے، ہمیں کاٹتا کوئی اور ہے

جو میں اک مشاعرے میں گیا، مجھے سن کے سب نے یہی کہا

جہاں بلبلیں ہوں غزل سرا وہیں رینکتا کوئی اور ہے

جو ہوا کہیں کوئی حادثہ، مجھے سیدھا آ کے دھرا گیا

کئی سال بعد پتہ چلا پسِ حادثہ کوئی اور ہے

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے