نکتہ گو ۔۔۔ محمد طارق غازی

دیباچہ

گزشتہ دنوں یونہی بیٹھے بیٹھے خیال آیا کہ کبھی کبھی آپ لوگوں سے نُکتَگوٗ رہا کرے۔

در اصل یہ مخفف بنایا ہے نکتہ اور گفتگو سے، یعنی کسی علمی، دینی، ادبی، سماجی، اخباری نکتہ پر مختصر گفتگو، تھوڑے سے الفاظ میں اظہار خیال، رائے زنی، یا کسی پرانی یاد کا تذکرہ۔ میں نے بس اسی کو نکتگو قرار دیا ہے۔

اقبال اکیڈیمی حیدرآباد کے ششماہی مجلہ اقبال ریویو کا تازہ شمارہ آیا تو اس میں محسن عثمانی اور معین الدین عقیل کے مضامین میں ایسے کئی نکات سامنے آئے جن پر گفتگو نہ سہی خود کلامی کی ضرورت محسوس ہوئی۔ ایسا زندگی میں پہلی بار نہیں ہوا۔ لڑکپن سے بعض تحریروں پر تحسین اور تعریف، تنقید اور تعریض، تصدیق اور تردید کرنے کی عادت ہے۔ کسی کتاب یا مضمون کا مطالعے کر کے یا کرتے ہوئے اس پر فوراً کچھ لکھ ڈالا، کبھی کسی کاپی میں، کبھی بے شیرازہ اوراق پریشاں پر، کبھی کسی پرزے پر۔ کبھی ان پر اصل مضمون یا کتاب کا حوالہ ہوتا تھا، کبھی نہیں ؛ کبھی ارتجالاً محض اپنی رائے کا اظہار خود اپنے لئے۔ چنانچہ ایسی تحریروں پر کوئی حوالہ بھی نہیں ہوتا تھا۔ ایک عرصہ کے بعد ایسا کوئی پرزہ یا کاپی دوبارہ سامنے آئی تو اکثر یہ طے کرنا بھی دشوار ہوا کہ وہ تحریر اور رائے میری ہے یا کسی اور کی بات بلا حوالہ یادداشت کے طور پر لکھ چھوڑی تھی۔ ایسی اکثر تحریریں آج نہ جانے کہاں کہاں لاپتہ ہیں۔ بہت سی زندگی بھر کی خانہ بدوشی اور لا مرکزی حیات کر دن کے سبب سے ضائع ہو گئیں۔

تجزیہ نگاری میری زندگی کا عرف رہی ہے۔ علی گڑھ سے باہر آئے تو پہلا قدم کوچۂ صحافت میں پڑا۔ پھر وہی کوچہ میرے لئے میدانِ تیہ بن گیا جس سے باہر نکلنے کا کوئی راستہ نہ تھا۔ حقائق کی دنیا میں رہنے والے خود کو بڑا خوش نصیب گردانتے ہیں۔ ہمارا شمار بھی انہی خوش نصیبوں میں ہوا جن کے دل و جگر کو حقائق کے کانٹوں نے چھلنی کر رکھا ہے، اور دل و جگر ہی کیا خارزار صحافت میں سیاست کے کانٹوں کی نوکیں اکثر روح تک میں اتر گئی ہیں۔ کتنے حقائق ہیں جنہیں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ انہی کے لئے کنایہ اور ایہام کی نثر اور رمز و استعارہ کی شاعری ایجاد ہوئی۔ کچھ ہمارے ملکوں کی غیر اخلاقی اخلاقیات کا بھی بھرم رکھنا ہوتا تھا۔ اسی احساس کا نتیجہ تھا یہ شعر

لکھتے ہوئے قلم پہ مسلط ہے ایسا خوف

مفہوم اپنی با ت کا زیر سطر گیا

عرض صرف یہ کرنا ہے کہ نکتگو کے تحت خوش مقالی بھی ہو گی اور خود کلامی بھی۔ اس میں ماضی، حال اور مستقبل کے چہرے تو دکھائی دیں گے ہی، بقول اقبال عشق کی تقویم کے کچھ ان زمانوں کے احوال بھی زیر سطر ہی سہی آ سکتے ہیں جن کا نہیں کوئی نام۔

اقبال ریویو میں محسن عثمانی اور معین الدین عقیل کے مقالوں کے علاوہ دسمبر کے آغاز میں کچھ اور کتابیں بھی جستہ جستہ مطالعے میں رہیں اور ان کے بعض مندرجات کے بارے میں بھی ایسی ہی کیفیت پیدا ہوئی۔ مگر کچھ لکھا یوں نہیں کہ دیار مغرب میں دسمبر کا مہینہ اہل تجارت کے لئے اضافی مصروفیت کا ہوتا ہے۔ پھر علی گڑھ اردو کلب کی عمّالہ عزیزہ رضیہ مشکور سلمہا نے سفر ہند پر روانگی سے نصف گھنٹہ پہلے فون کیا اور نہایت سعادت مندی کے ساتھ علی گڑھ اردو کلب کی کچھ انتظامی ذمہ داری میرے سر ڈال کر بابل کے دیس کی راہ لی۔ ادھر خود علی گڑھ اردو کلب میں بعض ایسی دلچسپ باتیں اٹھیں کہ دن بھر چکی کی مشقت کے بعد رات کا بیشتر حصہ ان موضوعات پر (مفروضہ – یعنی کمپیوٹر پر) خامہ فرسائی کی نذر ہو جاتا ہے۔ اس لئے وہ ساری باتیں جو کسی مطالعہ کا حاصل تھیں چولھے سے ہٹا کر اُولے پر دھر دیں کہ وقت ملے گا اور بات یاد رہی تو کبھی لکھ دیں گے۔ بس اسی کبھی کے گوشۂ امکان سے نکتگو کا خیال برآمد ہوا۔

٭٭٭

 

شاعری کی زبان

نکتہ

میں ڈاکٹر سموئل جانسن کے اس قول میں یقین رکھتا ہوں کہ ادب کے تمام اسالیب اور اصناف میں شاعری ہی در اصل زبان کے تحفظ کی ضامن ہوتی ہے۔۔۔۔ شاعری کے مفاہیم صرف اپنی تعمیر میں صرف ہونے والے لفظوں کے یا زبان کے پابند نہیں ہوتے۔ بحر و وزن، آہنگ و اصوات، متعلقہ زبان اور متعلقہ شاعر کے مخصوص ذخیرۂ الفاظ، اس کے علامتی اور استعاراتی نظام میں بھی معنیٰ کے بہت مضمرات چھپے ہوتے ہیں۔

– پروفیسر شمیم حنفی

جاوید نامہ، اقبال اور عصر حاضر کا خرابہ؛ اقبال ریویو، حیدرآباد، اپریل ۲۰۰۸ / ص ۴۳

گفتہ

بہت اہم ہے یہ دعویٰ کہ شاعری زبان کے تحفظ کی ضامن ہوتی ہے۔ درد و کرب کا اظہار، رنج و خوشی کا بیان، عصری حسّیات کی نگارش، حالات حاضرہ پر تبصرہ یقیناً شاعری کو ایک طاقتور صورت ابلاغ بناتے ہیں مگر میری دانست میں شاعری ہر زبان کے لئے مقننہ کا کام کرتی ہے اور یہی اس کا اصل منصب اور مقصد ہے۔ انسانی کیفیات کا اظہار و بیان و تذکرہ و تبصرہ سب اسی مقصد کے لئے ایک زبان کے ہتھیار اور اوزار ہوتے ہیں۔ میر کو یونہی تو لوگوں نے خدائے سخن نہیں مان لیا تھا۔ انہوں نے جب کہا تھا کہ مستند ہے میرا فرمایا ہوا، تو وہ جانتے تھے کہ وہ اردو زبان کے فقیہ و مفتی ہیں۔ آج کا شاعر و ادیب جب مطالبہ کرتا ہے کہ بطور سند قدیم اساتذہ میں سے کسی کا شعر پیش کرو تو وہ وجدانی طور پر شاعری ہی کو زبان کے در و بست، نظم و ترتیب، الفاظ کی نشست و ترکیب کا پیمانہ تسلیم کرتا ہے۔ کسی لفظ، محاور ے یا روزمرہ کی سند تو محمد حسین آزاد اور رتن ناتھ سرشار سے بھی لائی جا سکتی ہے مگر قول فیصل تو شیخ ابراہیم ذوق اور غلام ہمدانی مصحفی کا شعر ہی ہوتا ہے۔

ایک بات اور، کوئی تو وجہ ہے کہ زبان کے سلسلے میں ترقی پسند اور جدید شاعر سند نہ مانے گئے۔ بظاہر اس کی وجہ یہی سمجھ میں آتی ہے کہ ان لوگوں نے وہ زبان اختیار کر لی تھی جس کے بارے میں لکھنو کے سفر کے دوران میر نے پہلوان کی بک بک کے جواب میں کہا تھا کہ کیا ضرور تم سے گفتگو کر کے میں اپنی زبان خراب کروں۔ یہ وہی میر تھا جو یہ بھی کہتا تھا گفتگو مجھ کو پر عوام سے ہے۔ یعنی عوام کی باتیں بھی تھیں اور ان کی لسانی تربیت بھی ساتھ ہی مقصود تھی، اپنی زبان بگاڑے بغیر۔ اسی لئے ان کی زبان خواص و عوام میں آج تک سند ہے۔

انسانیت کے بچپن پر نظر کریں تو رنج، خوشی، محبت، کلفت کے بہتر اظہار کے لئے ابتدائی دور کا انسان مکالمے نہیں بولتا تھا، بلکہ گانے لگتا تھا۔ وہ روایت آج بھی زندہ ہے۔ شادی کا سہرا اور رخصتی، مرثیہ اور نوحہ، تہنیت اور ہجو، واسوخت اور شہر آشوب سب منظوم ہوتے ہیں، ان پر مقالے نہیں لکھے جاتے۔ مقالے فلسفہ ہوتے ہیں، جذبات نہیں۔ بات بس اتنی ہے کہ شعری پیرائے میں کہی ہوئی بات نسل در نسل یاد رہ جاتی ہے۔ حالی کے مرثیۂ دلی کے بہت سے اشعار آج بھی لوگوں کو نوک زبان ہوں گے ؛ اسی موضوع پر خطوط غالب کے کتنے جملے اور فقرے بڑے پڑھے لکھے لوگوں کو بھی حفظ ہیں؟ بس یہی رمز ہے شاعری کی لسانی اور پھر اس ذیل میں قانونی اور عمرانی اہمیت کا۔

کچھ لوگ باور کرتے ہیں کہ شعر میں اپنا ذاتی یا عصری کوئی کرب بیان کر دیا تو حق شاعری ادا ہو گیا۔ وہ لوگ غلطی پر ہیں۔ جس مثبت یا منفی جذبے کا اظہار شاعری میں ہوتا ہے اس کا اصل مقصد زبان کو نازک باتیں سلیقے سے بیان کر نے کے قابل بنانا ہوتا ہے۔ شاعر اس اعتبار سے مستقبل کی تہذیب کا معمار ہوتا ہے، محض نوحہ گر اور سہرا نویس نہیں۔ وہ زبان ساز ا نسان ہوتا ہے اور الفاظ کے درست استعمال، محاور ے اور روزمرہ کے چست اور بر محل ہونے کی نگرانی کرتا ہے، جہاں ضرورت پڑتی ہے وہاں زبان کو نئے الفاظ مہیا کے کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ پھر ان لفظوں سے ادا ہونے والے معانی اور ان معانی کی نیرنگی کا تعین کرتا ہے۔ شمس الرحمٰن فاروقی نے اسی حقیقت کی طرف توجہ دلاتے ہوئے بہت اچھی بات کہی ہے کہ شاعری میں اصل شے لفظ ہے۔ میں اضافہ کروں گا کہ نثر میں اصل شے جملہ ہے : جس کے الفاظ و معنیٰ شاعر متعین اور مہیا کرتا ہے۔

چنانچہ جب لفظ کا خزانہ زبان کی امارت، شکوہ و قوت، شوکت و وسعت کا ثبوت بن جاتا ہے تو نثر کے بال و پر آتے ہیں۔ نثر راست شاعری سے متاثر ہوتی ہے۔ قدم قدم پر شعر اس کی رہنمائی کرتا ہے۔ ہر زبان میں یہ عام مشاہدہ ہے کہ نثر لکھتے ہوئے کسی نکتے کی زیادہ خوبصورت وضاحت کے لئے درمیان میں ایک شعر یا مصرعہ لکھ دو تو تحریر کا حسن دوبالا ہو جاتا ہے۔ کبھی نہیں دیکھا گیا کہ کسی شاعر نے اپنی نظم کے درمیان حسن بیان کی خاطر کوئی نثری فقرہ درج کیا ہو۔ یہ بجائے خود ثبوت ہے اس بات کہ نہ صرف شاعری کے ذریعہ بولی کو زبان کا مرتبہ ملتا ہے، بلکہ زبان اپنے ارتقا کے ہر دور میں شاعری کی رہنمائی کی محتاج رہتی ہے۔ جب شاعری کی زبان کمزور پڑنے لگے تو اس میں لسانی زوال کا سبب دیکھا جا سکتا ہے۔ شاعر پست و بے روح الفاظ استعمال کرنے لگے، ان کے شجروں سے ناواقف، معنیٰ کی تہوں سے بے خبر ہو اور غیر ثقہ مفاہیم نظم کرنے لگے تو زبان نیم جاں ہو جاتی ہے اور کسی علمی کام کا بوجھ اٹھا نے کے قابل نہیں رہتی۔

میں نے پہلی نکتگو میں شعر و علم کا موازنہ پیش کیا تھا۔ اسے آج کی نکتگو کا پیش لفظ سمجھ لیجئے۔ وہ یوں کہ مغربی زبانوں میں جب علوم (انگریزی میں سائنسوں) کا عروج ہوا تو شاعری فطری طور پر کمزور ہوئی۔ انگریزی میں رومانوی تحریک کے بعد اُس بلندی کا شعری ادب تخلیق نہیں ہوا جس معیار کی نثر، بالخصوص علمی نثر، لکھی گئی۔ اس نثر کو بھی لسانی رہنمائی تو بہر حال درکار تھی۔ خاص طور سائنسداں قلم کار زبان کے در و بست پر وہ نظر نہیں رکھتے جو تخلیقی زبان لکھنے والے کا امتیاز ہوتی ہے۔ چونکہ شاعری کی صنف صنعتی انقلاب کے ساتھ کمزور پڑنے لگی تھی تو مغرب، خصوصاً انگلستان، میں صحافت کو عروج ہوا اور صحافی نے وہ کر دار ادا کرنا شروع کیا جو رومانوی تحریک تک شاعر ادا کرتا رہا تھا۔ یہاں یہ بات ملحوظ رہے کہ اگر انگریزی شاعری رومانوی دور سے نہ گزری ہوتی تو صنعتی انقلاب کی سائنسی تحریروں کو زبان میسر نہ آتی اور خود صنعتی انقلاب ہی نہ آتا۔ فلسفۂ انقلاب کے بغیر انقلاب کب آتا ہے؟ اور فلسفہ تو صرف تونگر زبان میں لکھا جاتا ہے۔

اردو میں ہم اس دور میں داخل ہوئے ہی تھے کہ نکالے گئے۔ میر و غالب، سودا و ذوق، نصرتی و ولی، نصیر و مومن، درد و داغ، حاتم و حالی، آتش و انشا شاعری کی راہ سے اردو کو اس مقام تک لے آئے تھے کہ ایک طرف عود ہندی کی نثر لکھی جا سکی اور دوسری طرف قول فیصل اور غبار خاطر کی۔ ابو الکلام آزاد، محمد علی جوہر، حامد الانصاری غازی، ظفر علی خان، عبد المجید سالک، شائق عثمانی، نصر اﷲ خان عزیز، چراغ حسن حسرت، حیات اﷲ انصاری، عبد الرزاق ملیح آبادی، شورش کاشمیری، وغیرہ کو غالباً یہ احساس تھا کہ اردو اعلیٰ علمی وقار کی زبان بننے کے مرحلہ میں داخل ہو چکی ہے جس کے نتیجہ میں شاعری کی روایت کمزور پڑے گی۔ چنانچہ صف اول کے ان تمام صحافیوں نے اپنے اخبارات – الہلال، البلاغ، ہمدرد، مدینہ، جمہوریت، زمیندار، انقلاب، عصر جدید، ایشیا،، قومی آواز، آزاد ہند، چٹان – کے توسط سے اردو زبان کی صحت و معیار کے تحفظ کی ذمہ داری قبول کی، اور دیکھتے ہی دیکھتے حیدرآباد میں دار الترجمہ کو علوم دنیا کے تراجم اور اصطلاح سازی کے لئے بلند پایہ زبان داں افراد اور ایک توانا زبان کا رفیع الشان ذخیرۂ الفاظ مل گیا۔

پھر اس ذخیرۂ الفاظ ہی پر ضرب پڑی۔ اس سے پہلے خود زبان پر ضرب پڑ چکی تھی۔ پاکستان میں بنگالی کے ساتھ نزاع پیدا ہوا اور ہندستان میں ہندی کے ساتھ۔ اب حال یہ ہے کہ اردو صحافت خود بہت کمزور ہے، اور شاعری کے ذریعہ زبان کی اصلاح اور توانائی بخش مہم بھی سرد پڑ ے دیر ہو چکی ہے۔ اردو کا المیہ یہ ہے کہ آج اس کے تحفظ کی ضامن اس کی شاعری رہی اور نہ صحافت۔ آج یہ بے مایہ زبان خود کو امیر خسرو (۱۳۲۵-۱۲۵۳) اور ولی دکنی (۱۷۰۷-۱۶۶۷) کے درمیانی عبوری زمانہ میں پاتی ہے۔ یعنی بات پھر وہیں سے شروع کیجئے جہاں سے ولی، سراج اور نگ آبادی اور میر و سودا نے اٹھائی تھی۔ اور یہ بھی مشروط ہے اس دعوے کے ساتھ کہ اردو کو ایک علمی زبان بنایا جا سکتا ہے اور اس کی راہ سے بھی صنعتی انقلاب قسم کی کوئی زبردست فکری، علمی، عملی اور عمرانی، تبدیلی اس دنیا میں آ سکتی ہے۔

اور یہ سب کچھ ممکن نہ ہو یا کسی کو اس قسم کی لغویات سے دلچسپی نہ ہو تو بھائی نہ تو اردو ہمارے پیر پڑ رہی ہے نہ ہمارے پیروں کی بیڑی ہے۔ جس زبان، جس قوم، جس انسانی گروہ میں صلاحیت ہو گی وہ وہ سب کچھ کر گزرے گا جو دو سو سال پہلے انگریز نے کیا تھا، اور اس سے نو سو سال پہلے جسے مسلمان نامی ایک قوم نے عربی کے راستے سے کیا تھا۔

۔۔۔۔

پس تحریر: اور بھئی یہ ڈاکٹر جانسن کون ہیں؟ یہ وہی تو نہیں جو جانسن اینڈ جانسن کے نام سے بے بی پاؤڈر بنا کر بیچتے ہیں؟ اردو تو کیا جانتے ہوں گے۔ اچھا اچھا یہ وہی ہیں، انگریزی کے محمد حسین آزاد! تو بات کرنے کے لئے آزاد ہی کیا برے ہیں؟ اردو زبان یعنی لسانیات پر ہمارے لوگوں نے بھی تو کبھی کچھ کہا ہو گا۔ آب حیات میں نہ سہی نکات سخن میں سہی، نکات الشعرا میں نہیں تو شعر الہند میں، مقدمہ شعر و شاعری میں نہیں تو شعر شور انگیز میں، کہیں ہمارے کسی آدمی نے بھی تو زبان و ادب و شعر پر کوئی ایسی عقل کی بات کسی جگہ لکھی ہو گی جس پر ہم شرمندہ ہوئے بغیر اپنے یقین کا اظہار کر سکیں۔ اور ایسا نہیں ہے تو بھائی اردو داخل ایمان تو ہے نہیں کہ یقین کے لئے ضروری ٹھہرے، نہ اس سے مفاد دنیا وابستہ کہ ولایتی صاحب کا نام بیچ میں آئے بغیر یہ زبان ہی مستند نہ ہو۔ ہاں بے بی پاؤڈر کی بات الگ ہے۔

٭٭٭

 

 

 

جدیدیت

نکتہ

وہ نسل جو جدیدیت کا تجربہ کر رہی تھی وہ ترقی پسند اصولیت سے مایوس ہو چکی تھی، وہ فرقہ پرست جارحیت سے خائف تھی۔ اس نے زندگی کے امکانات کے دروازے اپنے منہ پر بند ہوتے دیکھے تھے۔ جنونی فرقہ پرستوں کے ہاتھوں سب کچھ لٹتے، نذر آتش ہوتے، بے گناہ عزیزوں کو خاک و خوں میں تڑپتے، آگ میں جلتے، درندوں کی رانوں کے نیچے بے عصمت ہوتے دیکھا تھا۔ عدم تحفظ، بے امانی، اور بے روزگاری ان کی بہت بڑی آزمائشیں تھیں۔ وہ داد فریا د کس سے کرتے، وہاں تو ان کی زبان بھی قساوت کے ساتھ ختم کی جا رہی تھی۔ بے زبان ہو کر وہ داد طلب کرتے بھی تو کس سے؟ یہ نفسیاتِ خوف یا بے امانی جدیدیت کی علم بردار نسل کا بہت بڑا المیہ تھی۔ اس المیہ کا غماز ان کا گنگ افسانوی سرمایہ ہے۔ ان سے شکوہ نہ کیجئے۔ ان پر بہت الزامات عا ئد نہ کیجیے۔ ان پر جمال پرستی، نرگسیت، رومان پروری اور فیوڈل طبقہ وغیرہ کے لیبل نہ لگایئے۔ یہ بہت سے مسائل میں الجھے ہوئے، بہت سے ناوکوں کے نخچیر، ایک انتشار کے مارے ہوئے ہیں۔۔۔۔

– ابن فرید

نئی نسلیں – ایک لمحۂ فکریہ۔ دیدہ ور، سہ ماہی انٹرنیٹ میگزین، شمارہ ۴، جنوری تا مارچ ۲۰۰۹۔ مقالہ گوشۂ ابن فرید / ص ۵۱

گفتہ

یہ قصہ صرف ہندستان کے مسلمان اردو جدیدیت پسندوں کاہے۔ باقی دنیا اور باقی ہندستان ادب میں جدیدیت کی اس تعریف سے خارج ہے۔ ہندی میں بھی جدید ادب لکھا گیا، مگر اس زبان کے قلم کاروں میں سے شاذ و نادر ہی کسی کا یہ المیہ تھا یا ہے۔ جدید ادب پاکستان میں بھی لکھا گیا اور پنجابیوں نے بھی لکھا جن پر الزام ہے کہ قومی وسائل کے بڑے حصہ پر تو وہی متصرف ہیں۔ وہاں ان مذکورہ مسائل میں سے بہت کا وجود کل تھانہ آج ہے۔ جدید ادب عربی میں بھی لکھا گیا۔ وہاں جدیدیت پسندوں کو حَدّاثِین کہا جاتا ہے۔ ان عرب اہل ادب کے ساتھ وہ سب کچھ نہیں ہو رہا تھا جو یہاں بیان کیا گیا ہے۔ جدید ادب فارسی میں بھی لکھا جا رہا ہے۔ ایران، افغانستان اور تاجکستان میں جنونی فرقہ پرست نہیں ہوتے اور نہ وہاں زبان قساوت کے ساتھ ختم کی جا رہی ہے۔ مگر جدیدیت کی ان سب عمل بردار نسلوں کا مایۂ مشترک تھا ان کا ’’گنگ افسانوی سرمایہ، ان کی جمال پرستی، نرگسیت، رومان پروری‘‘۔ ہاں یہ صحیح ہے کہ دنیا بھر کے یہ سب اہل ادب ایک انتشار کے مارے ہوئے ہیں – تہذیبی، عمرانی انتشار کے۔ مگر ہر ایک کی زنبیلِ انتشار بھی الگ ہے اور اس میں رکھا نسخۂ انتشار بھی۔

اس موضوع پر خاصی تفصیل سے گفتگو میں اپنے طویل مقالے، سرد جنگ کی سیاست کا ادب (ماہنامہ شاعر، ممبئی، اگست ۲۰۰۸) میں کر چکا ہوں۔ جنہوں نے اسے نہیں پڑھا وہ افتخار امام سلمہٗ کو خط لکھ کر اس شمارے کی ایک کاپی منگوا لیں۔ یہاں بات اس موضوع کے دیگر دو پہلوؤں پر کرنی ہے۔

اردو میں ایلیٹی جدید ادب کا گل بوٹا ادب اسلامی کے گملے میں اُگا تھا بعد میں اسے گملہ سے نکال کر زمین میں بویا گیا تھا۔ شمس الرحمٰن فاروقی شروع میں ’’تعمیر پسند‘‘ ادب سے قریب تھے۔ ان کی ابتدائی تخلیقات حفیظ میرٹھی کے ماہنامہ معیار، میرٹھ، میں شائع ہوئی تھیں۔ حفیظ میرٹھی ہندستان میں ادب اسلامی کے ممتاز ترین شاعر تھے۔ ادب اسلامی اس زمانے میں ترقی پسندی کے جواب میں تعمیر پسندی کے نام سے سکہ بنا تھا۔ اس سے اس تعلق خاطر کا سبب میرا ذہنی سفر میں فاروقی اشارتاً خود یہ بتاتے ہیں کہ ’’مجھ پر ترقی پسندی یا کمیونزم کا جادو نہ چل سکا۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ مجھے اپنی تہذیب اور روایت کا بہت گہرا احساس شروع سے تھا، اور مجھے یہ بات معلوم تھی کہ ترقی پسند نظام ادب اور اشتراکی نظام حکومت میں اسلامی (یا مسلم) تہذیب اور روایات کی کوئی جگہ نہ ہو گی۔‘‘

بعد کے واقعات سے اندازہ ہوتا ہے کہ فاروقی دو وجہوں سے ادب اسلامی سے دور اور مغرب نژاد جدید ادب کے میر کارواں ہوئے۔ اسلام پسند یا تعمیر پسند ادبی تحریک اپنی انتظامی ہیئت میں ترقی پسند تحریک کا چربہ تھی۔ دونوں کے پیچھے ایک طاقتور سیاسی جماعت اور اس کا فلسفہ تھا۔ دونوں معاشرہ میں ایک خاص سیاسی اور اقتصادی نظام قائم کرنے کے مدعی تھے۔ دونوں نظریوں کی بنیادی تحریکات کا سیاست اور اقتصاد کے فلسفوں پر اتنا تکیہ یا اصرار تھا کہ زندگی کے کسی دوسرے گوشے پر توجہ تھی نہ اس کی ضرورت محسوس کی جاتی تھی، یہاں تک کہ دونوں تحریکات نے اپنے اپنے فلسفہ کی بنیاد پر سیاسی مفکر اور معاشیاتی ماہرین کی بڑی تعداد پیدا کی۔ دونوں تحریکات یونیورسٹیوں میں اساتذہ اور طلبہ میں اپنے حلقہ ہائے اثر قائم کرنے کے لئے کوشاں اور کامیاب رہیں۔ اس مقصد کے لئے دونوں تحریکوں نے ادب کو استعمال کیا۔ دونوں نے ابتدا ہی سے اپنے فکری نہج کے مجلے شائع کرنے پر زور دیا اور اپنے جداگانہ ادبی ناقدین پیدا کئے۔ دونوں کو زبان سادہ اور سہل رکھنے پر شدید اصرار تھا۔ دونوں کے ہاں یہ گنجائش تھی کہ پارٹی کے رکن نہ بھی ہوں تو اس کی ادبی شاخ سے وابستگی ممکن ہی نہیں پسندیدہ تھی۔ دونوں طرف جماعت حرف آخر تھی اور اہل ادب کو پارٹی کی ہدایات سے تجاوز کرنے کی اجازت نہیں تھی۔

ہندوستان کی حد تک ادب اسلامی کو جدید ادب کا نقطۂ آغاز بنانا منطقی تھا۔ اردو ادب میں مار کس کا جواب اصغر گونڈوی نہیں تھے۔ لادینیت کے مقابل قلم کی دینیت پر اصرار ضروری تھا۔ مگر ادب اسلامی میں اسلام کو چھوڑ کر باقی سب کچھ تو نقل ہی تھی ترقی پسندی کی۔ نقالی وقتی تفریح کا باعث ہو سکتی ہے، دیرپا نہیں ہو تی۔ اس کے عَلاوہ جوابی اسلامی ادب کا وجود اغلباً دنیا میں کہیں اور نہیں تھا۔ شائد مصر وغیرہ میں اخوانیوں نے اس سمت میں کچھ کام کیا تھا، مگر رفتہ رفتہ خود عالم عرب کو بھی جدیدیت کی جانب ہی جھکنا پڑا۔ عرب تو ویسے بھی یورپ امریکہ سے آنے والی ہر شے کو حلال، بلکہ مطابق بہ شریعت قرار دینے میں بے مثال تفقہ رکھتے ہیں۔ وہ صرف مغرب کی تقلید کو جائز سمجھتے ہیں۔ باقی ہر قسم کی تقلید سے انہیں بوئے کفر آتی ہے۔

لہٰذا پہلی بدیہی وجہ یہ تھی کہ شمس الرحمٰن فاروقی کی عبقری شخصیت زیادہ دنوں یہ ذہنی پابندیاں برداشت نہیں کر سکتی تھی، ورنہ ممکن ہے وہ کمیونزم کا تو نہیں ترقی پسندی کا جادو اپنے اوپر چلنے دیتے۔ وہاں برگ و بار لانے کے امکانات پھر بھی زیادہ تھے کہ وہ باغ بہر حال یک جہانی بھی تھا اور پرانا بھی تھا؛ ادب اسلامی کو دنیا میں تعارف ہی حاصل نہ تھا۔ وہاں حفیظ میرٹھی جیسا شاعر ضائع ہو گیا۔

دوسری امکانی وجہ یہ کہ جدید ادب کو بہرحال عروج حاصل ہونا تھا اور معاملہ وہاں بھی یک جہانی، یعنی عالمی تھا، اس لئے جدیدیت میں تخلیقی تجربات کے امکانات زیادہ وسیع تھے۔ ان تجربات کے ذریعہ کچھ نسلوں کی ذہنی تربیت اور فکری رہنمائی کا میدان بھی ترقی پسندی کے مقابلہ میں زیادہ کھلا ہوا تھا اور اس نوعیت کی کارروائی وہاں زیادہ موثر ہو سکتی تھی۔ یوں بھی ترقی پسندی کو جو کرنا تھا وہ کر چکی تھی۔ دیکھنے والے دیکھ رہے تھے کہ وہ بحر اسود سے کالے جوہڑ میں تبدیل ہو رہی تھی، اس میں اب کاغذ کی ناؤ نہیں چل سکتی تھی۔ نئے دریا میں پہاڑی جھرنے کی جولانی اور روانی بھی تھی اور اسے پرانے پہاڑ سے برفشاروں (glaciers) کا مقطر پانی بھی حاصل تھا۔ ترقی پسندی سیاسی تسلط کے سبب جمود کا شکار ہو چکی تھی، جبکہ جدید ادب کو ایسے جمود کا شکار ہونے کے لئے وقت درکار تھا۔

جس طرح اردو میں جدیدیت کا پودا مذہب کے گملے میں اگا تھا اسی طرح امریکی جدیدیت کا بیج بھی کلیسا کے گملے ہی میں بویا گیا تھا، نیز بڑے دیس کی بڑی سیاست کی زمین میں اسے بونے کے بعد اس میں دین کے دودھ کے کچھ قطرے بھی ٹپکائے گئے تھے۔ یہ مجبوری بھی تھی۔ مگر یہ دودھ کئی دُدَھاری مویشیوں کا تھا۔ عمیق حنفی نے وحی کی گھنٹیوں کی بازگشت سنائی تو ستیہ پال آنند نے بن دھرتی پر رام کے پگ آکار کا بھجن سنایا۔ ہندستان میں تو اللہ ایشور تیرو نام کا نغمہ چل گیا، باقی دنیا سب کی بانی اپنی بانی تھی۔

ہندوستان کے اہل جدیدیت کے سامنے جو مسائل تھے یا وہاں کے مسلمان اہل ادب کے سامنے آج بھی ہیں اور وہ باقی ساری دنیا کے مسائل سے بہت، بہت مختلف ہیں۔ اسی زاویئے سے ہندستانی اردو جدید ادب کا کوئی جائزہ اسے ہماری روایت سے مربوط کر سکتا ہے، باوجودیکہ جدید ادب اساسی طور پر قنوطیت اور شکوہ کا ادب تھا؛ اور اس کے باوجود کہ ہر قنوطی میر اور ہر شکوہ نویس اقبال نہیں ہوتا۔

یہاں ایک نکتہ یہ ابھرتا ہے کہ جدید ادب کا سیاسی فکری پس منظر چونکہ غیر واضح تھا اس لئے یکجہانیت میں قدرے تنوع کا امکان موجود تھا۔ جن مسائل سے ہندستان کا جدید اہل قلم نبرد آزما تھا – اور ہے – وہ مسائل صرف ہندستانی ادیب و شاعر کے ہیں۔ سعودی مملکت کا حدّاث شاعر اور ادیب قطعی مختلف دنیا میں رہتا ہے۔ وہ سیاسی اور معاشرتی گھٹن کا شکار ہے، کھل کر بول اور لکھ نہیں سکتا۔ اکثر اس قابل بھی نہیں ہوتا کہ کسی اہم مسئلہ پر انفرادی رائے ہی قائم کر لے، اظہار تو بہت بڑی بات ہے۔ وہاں ایسے اہل قلم موجود ہیں جن پر ایک نظم لکھنے پاداش میں سال چھ ماہ تک کسی بھی سعودی جریدہ یا مجلہ میں اشاعت پر پابندی لگا دی گئی تھی، یا اعلیٰ سرکاری ملازمت یا یونیورسٹی کی تدریسی خدمات سے برطرف کر دیا گیا تھا، یا وکالت کا لائسنس معطل کر دیا گیا تھا۔ ایک امریکی، کنیڈائی جدید ادیب اس کیفیت کا تجربہ تو درکنار تصور بھی نہیں کر سکتا۔ مگر پھر امریکہ میں یہ ممکن ہے کہ ناشر اس کی کتاب یا تخلیق کو چھاپنے سے انکار کر دے۔ ایسا ہندستان میں بھی ممکن ہے۔ مگر ہندستان میں امتیازی سلوک کے نتیجہ میں فرقہ وارانہ فساد ہو سکتا ہے اور کوئی زکی انور اس میں قتل ہو سکتا ہے، کسی احسان جعفری کو زندہ جلایا جا سکتا ہے اور کسی ہارون رشید کا گھر نذر آتش کیا جا سکتا ہے۔ جارج بش کے امریکہ میں بھی ایسا کچھ نہیں ہوتا تھا، اگرچہ زیریں نسلی سطح پر وہاں مضطرب رہنے کی اجازت تھی۔ فرانس میں فساد و آتش زنی ممکن ہے مگر ایسے کسی واقعہ کے نتیجہ میں انتہا پسند نسلیت زدہ لوگ الیکشن جیت سکتے ہیں اور پھر زندگی کو اجیرن کر سکتے ہیں۔ مگر وہاں کی اُس اجیرن زندگی اور ہندستان کی اجیرن زندگی میں فرق ہے۔

یہ سارا بیان سطحی اور اخباری سا ہے۔ تاہم ایک ملک یا منطقہ کے حالات کے اسباب و علل، اثرات و نتائج، معاشرتی پیش منظر اور نفسیاتی پس منظر کا مکمل ادراک و احسا س کسی دوسری جگہ بسنے والوں کو ہر گز ممکن نہیں۔ مگر چلئے، ممکن ہے ہم رنگ سیاسی نظریات رکھنے والے دو افراد دنیا کے دو کونوں پر رہنے کے باوجود کسی ایک معاملہ میں ایک ہی طرح کا رد عمل تحریر میں ظاہر کر دیں۔ غزہ میں فلسطینیوں کے حالیہ قتل عام پر یمن اور ارجنٹینا میں بسنے والے عربوں کے تاثرات یکساں ہوں گے اور اسی مسئلہ پر دوسرے رخ سے رباط اور نیو یارک میں رہنے والے یہودیوں کی سوچ ایک جیسی ہو گی۔ تو ڈھونڈنے والے یمن اور ارجنٹینا کے عرب جدید ادب میں اور رباط اور نیو یارک کے یہودی جدید ادب میں یکساں فکری اور تجزیاتی لہریں گن لیں گے۔ مگر یہ کیفیت افقی ہے۔ عمودی نہیں ہو سکتی۔ اسی کو ایک نقطہ پر سمیٹ دیا جائے تو بات دو عربوں اور دو یہودیوں کے مابین بھی بدل جائے گی۔

یہ بات انفرادی اعتبار سے زیادہ قابل فہم ہو گی۔ سنا ہے شمس الرحمٰن فاروقی کے گھر میں کئی طرح کے پرندے پلے ہوئے ہیں اور وہ خود ان کی خدمت کرتے ہیں۔ ظاہر ہے پرندوں کے بارے میں ان کی معلومات بھی بہت ہوں گی۔ ان سے کسی پرندے پر نظم لکھنے کی درخواست کی جائے تو جو کچھ وہ لکھیں گے وہ اس سے بہت مختلف ہو گا جو ولی عالم شاہین یا شہر یار کسی ایسی ہی درخواست پر اسی پرندہ پر لکھیں گے اور یہ بھی طے ہے کہ خود شاہین اور شہریار کی تخلیقات میں بھی پرندہ کے علاوہ کوئی اور قدر مشترک نہیں ہو گی۔ یعنی ایک موضوع پر بھی انفرادی تجربہ، معلومات اور دلچسپی کا معیار اتنا مختلف بلکہ متضاد ہو سکتا ہے کہ معلومات کی فراوانی یا کمی کی بنیاد پر تو بہتر کمتر کا فیصلہ کیا جا سکے گا مگر جذبات نگاری اور بیان کی تفاصیل کو رد و قبول کا معیار نہیں بنایا جا سکے گا، پلہ تو اسی کا بھاری رہے گا جو پرندوں کے جذبات کی موثر ترجمانی کرے گا، یا ان کا عمدہ تعارف کروائے کا۔

ویسے میرے نزدیک اس قسم کی مقابلہ آرائی اور امتحان ہی غلط ہے۔ میر و سودا، غالب و ذوق، مصحفی اور انشاء، سائل و بے خود میں باہمی چشمک یا طرح آرائی اور شے تھی، ایک پورے قبیلے کو کسی ایک فکری رنگ میں میں رنگنا دوسری بات ہے۔

مگر پھر کہا جا سکتا ہے کہ یکجہانی کے باوجود انفرادی سطح پر ابلاغ کا تنوع کافی ہے۔ پھر شکوہ کیا۔ اس سے ہر شخص کی انفرادیت کو تقویت تو ملتی ہے، یہ ترقی پسندوں کی بچھائی ہوئی ریل کی پٹری نہیں ہے۔ مگر ہے۔ پٹری ہی تو ہے۔ ابن فرید نے اور کس بات کے اشارے دئے ہیں۔ بجا کہ جن معاشرتی عوارض کا ذکر کیا گیا ہے ان پر خامہ فرسائی ویسی ہی یکساں اور اتنی ہی مختلف ہے جیسا میر درد اور اقبال کا تصوف تھا۔ درست۔ مگر وہ اختیاری تھا، اِجباری نہیں۔ ترقی پسندی اور جدیدیت پسندی میں جبر کا عنصر موثر تھا۔ کم سے کم یہ کہ ترقی پسند کے لئے پیالہ کو آدھا بھرا ہوا کہنا لازم تھا اور جدیدیت پسند کو آدھا خالی سمجھنا عین صواب۔ قنوط و رجا کی کیا بس یہی پہچان رہ گئی ہے؟ اس سے مجھے تو ویسی ہی بے چینی ہوتی جیسے کوئی میری بند آنکھ کے پپوٹے پر مسور کا دانہ رکھ دے۔

ادیب کی سوچ آزاد نہ ہوتی تو بھلا انقلاب فرانس کیوں آتا۔ اور ۱۹۳۶ سے اب تک دنیا میں کون سا انقلاب آ گیا؟

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے